مظفرآباد (صباح نیوز)جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرکے سابق امیر عبدالرشید ترابی نے کہاہے کہ پاور پلانٹ کے بند رہنے پر 50 ارب روپے کا نقصان ہوگا یعنی دو سال میں 100 ارب روپے سے بھی زیادہ نقصان ہوگا ،اس اہم منصوبے کے حوالے سے غفلت برتے والے ٹھیکیداروں کو کٹہرے میں لایاجائے۔
ان خیالات کا اظہارانھوں حنیف ایڈووکیٹ کی توجہ پرکیا،انھوں نے کہاکہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاورپراجیکٹ کے بارے واپڈا اور حکومت آزاد جموں وکشمیر کے مابین تحریری معاہدہ نہیں ہوا ہونا چاہیے ، اس پراجیکٹ بارے تحریری معاہدہ طے کرنے کیلئے مسودہ معاہدہ پر راقم سے قانونی مشاورت کی گئی لیکن مسودہ حتمی شکل دینے کے بارے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ اس پراجیکٹ کا تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد ٹیکنیکل نقائص بارے ایک رپورٹ بذیل نقل کی جاتی ہے ہم کشمیر میں ایک انڈسٹریل ٹوور پر گئے تھے تو ہم نے نیلم جہلم بجلی گھر کا بھی ٹوور کیا تھا وہاں ابھی کام جاری تھا اور مشینری کی تنصیب جاری تھی۔ 2018 میں اس پاور پلانٹ نے کام کرنا شروع کیا اور 969 میگاواٹ بجلی نیشل گرڈ میں شامل کی جو کہ ایک بہت خوش آئند بات تھی۔ 2008 میں جب اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تو چار سال بجلی کی فراہمی کے بعد جولائی 2022 میں پاور پلانٹ کی Tail race Tunnel میں دراڑیں آئیں اور پھر وہ بالکل بلاک ہوگئی جس سے پیداوار بلکل رک گئی۔ اس واقعہ کی تحقیق کے لیے بیرون ملک سے ماہرین بلا کر ایک ٹیم بنائی گئی جس میں امریکہ، سپین، پرتگال، سویزرلینڈ شامل ہیں۔
ان کی رپورٹ کے مطابق ٹنل کی کنسٹرکشن میں بہت زیادہ خامیاں تھیں،یہاں تک کہ جہاں کنکریٹ بھرنا تھا وہاں مٹی بھر دی گئی اور اس ٹنل پر اوپر پتھروں اور پہاڑ کو سپورٹ کیلیے کوئی طاقت نہ تھی۔ ٹنل کے اوپر پتھروں نے اس کو توڑ دیا اور اس 3.5 کلومیٹر ٹنل کا 250 میٹر کا حصہ پتھروں سے بھر گیا۔ مرمت کے 14 ماہ بعد ستمبر 2023 میں 6 ارب روپے کی مرمت کی لاگت اور 37 ارب روپے بجلی نہ پیدا ہونے کی مد میں نقصان کے بعد اس پر کام مکمل ہونے کے بعد پیداوار دوبارہ شروع ہوئی۔لیکن ایک اور مسئلہ انتظار میں تھا، مارچ 2024 تک فل پاور پر جانے کے بعد اپریل 2024 میں پاور تقریباً آدھی رہ گئی (530 میگاواٹ)۔ اس کی وجہ ڈیم سے پلانٹ تک کی سرنگ (Head race tunnel) میں پانی کا بہاؤ پتھر اور کچرا آنے سے بہت کم ہوگیا۔اب یہ مسئلہ تقریباً 2 سال تک اس پلانٹ کو بند رکھے گا اور ہر سال اس پلانٹ کے بند رہنے پر 50 ارب روپے کا نقصان ہوگا یعنی دو سال میں 100 ارب روپے سے بھی زیادہ۔
مئی 2024 میں وزیراعظم نے وہاں کا دورہ بھی کیااور ایک تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا بھی کہا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ کس قسم کی کمیٹی بنے گی اور اس کی کیا رپورٹ آئے گی۔؟۔آج تک اس پلانٹ کو بنانے والے اور ان کے کنٹریکٹرز کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا کہ اس پلانٹ پر وقت اور سرمایہ کے ضیاع کا کون ذمہ دار ہے۔ اس وقت اگر یہ پلانٹ چل رہا ہوتا تو سسٹم میں 1000 ہزار میگا واٹ بجلی موجود ہوتی اور عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ریلیف مہیا ہو جاتا۔