کبھی مجھ پہ بھی اپنے ترقی پسند ہونے کا بھوت سوار تھا ، خمار تھا بلکہ بڑا بخار تھا ۔ پکا مارکسی کیمونسٹ فکر اور سوشلسٹ سوچ کا آدمی تھا لیکن انکل راجہ فیاض مرحوم نے مولانا مودودی کا سلیس ترجمہ قرآن ، دینیات ، تنقیہات اور خطبات دے کر میرے تخیل کا رخ ہی موڑ ڈالا ۔ وہ روزانہ گھنٹوں گفتگو کرتے ، مباحثہ فرماتے اور تفسیر قرآن جیسے انہوں نے مجھے گھول کر پلا دی تھی ، پھر میں نے قرآن مجید پہ تحقیق کی کتاب نقطہ نقطہ نور لکھ کر یہ اعلان حق فرمایا تھا کہ :
دتا سوھنے رب عالم ازلی سچ دستور
پڑھو سچے حرف قرآنی نقطہ نقطہ نور
قرآن مجید ایک درس انقلاب ہے جو ممالک و اقوام کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیتا ہے ۔ اس سودی نظام سے نجات میں ہی بھلائی ہے ، بے ایمانی اور بے حیائی سے توبہ میں ہی خیر و برکت ہے ۔ ہر فانی آئین سے چھٹکارے اور قرآنی قوانین کے نفاذ میں ہی سربلندی و کامرانی ہے اور تراجم و تفاسیر و تفاصیل کے ساتھ قرآن کی لازمی تعلیم ہی دونوں جہان کی تمام تر کامرانیوں کی کنجی ہے ۔ آج ہم بھول گئے ہیں کہ دو قومی نظریہ کیا تھا اور نظریہ پاکستان کس بلا کا نام ہے ۔ در حقیقت نظریہ پاکستان نظریہ اسلام ہی تو ہے ، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔ تاجدار کائنات حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ کر اسلام کو سر بلند فرمایا اور یہ پیغام دیا کہ معبود کے مقابلے میں عبد کا بنایا ہوا آئین نہیں آنا چاہیے ۔ بندہ بس بندگی کرے اور آئین اللہ حاکم برحق کا بھیجا ہوا ہی نافذ ہونا چاہیے ۔ عہد موجود میں مسلم امہ کو دین حق ، نظام مصطفی کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے ، بقول اقبال : جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ۔ آج ایک بار پھر سے نہ صرف پاک و ہند و ایشیا میں بلکہ سارے عالم میں علامہ اقبال کا فلسفہ اور فکر مودودی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ :
کہیں بارود کی بارش ہے انسانی ریاست پر
فرشتے ہنس رہے ہیں ابن ادم کی سیاست پر
آج ہم بھاری بیرونی سودی قرضوں کے شکنجوں میں کسے ہوئے ہیں ، فرنگیوں سے آزادی ملنے کے بعد بھی ہمارے کرتا دھرتا سیانے ابھی تک انگریز غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ، ان کے ریموٹ کنٹرول امریکی ہاتھوں میں ہیں ، یہ سب عالمی سامراج کی مٹھی میں ہیں اور یہ بزدلی و ذلالت کی انتہا ہے ۔ چی گویرا نے کبھی کہا تھا کہ میں نے قبرستانوں میں ان سالاروں کی قبریں بھی دیکھی ہیں جو اپنے حق کے لیے صرف اس لیے نہیں لڑے کہ کہیں مارے ہی نہ جائیں ۔ میرے پاکستان میں شاید ہی کوئی مرد مجاہد ایسا ہوگا جو امت مسلمہ کے معاملات و مسائل کو سوچے گا اور صدائے حق سر بلند فرمائے گا جیسے برصغیر میں کبھی مولانا مودودی جی رحمتہ اللہ علیہ نے حق کو غالب کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا تھا ۔ بقول اقبال :
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
میری حافظ نعیم الرحمن ، میاں اسلم ، فرید پراچہ ، امیر العظیم اور بالخصوص لیاقت بلوچ بلکہ اس ساری جماعت سے التجا ہے کہ آپ حضرت مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے سلیس ترجمہ قرآن کے نسخے مفت میں سینٹ و اسمبلیوں میں اپنے ان قانون سازوں کو بطور تحفہ دے کر فرمائیں کہ خدارا بغور مکمل پڑھیے بھی اور قرآن کے قوانین و ضوابط نافذ بھی فرمائیں عملی طور پر کیونکہ یہی پھول کھلیں گے تو خوشبو ہو گی ، جو اللہ کی زمین پر اللہ کے آئین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے والے ہیں ، اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے ترانے بلند کرنے والے ہیں ، بس یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی ۔ جیسے جماعت اسلامی مسلسل اقامت دین کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے اسی طرح اگر دیگر جماعتیں بھی یہ سبق سیکھ لیں تو سچ تبدیلی آ ہی جائے گی ۔ آئیں آج ہم ان پاناموں کو چھوڑ کر اور اور ان توشہ خانوں سے نکل کر بھی سوچ لیتے ہیں ۔ میں نے کل ایک تقریب میں کہا کہ ایک اسلامی معاشرے میں کم از کم بھی ایک لیڈر کا لیول لیاقت بلوچ جتنا تو ضرور ہونا چاہیے ۔ اب آپ میرے اس کم از کم کا مختصر تعارف و خدمات تو ملاحظہ فرمائیے ۔ لیاقت بلوچ جماعت اسلامی کی جان ہیں ، اس طرز و لیول کے لیڈر نہ صرف جماعت اسلامی پاکستان میں بلکہ پورے پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ موصوف نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے لا اور ماسٹر ان ماس کمیونیکیشن کیا ، طلبہ سیاست میں بہت ہی مقبول رہے ۔ ناظم اعلی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان ، ممبر قومی اسمبلی ، ممبر سینٹ ، سیکرٹری جنرل و نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ، چیف آرگنائزر اسلامک فرنٹ ، سیکرٹری جنرل آئی جے آئی ، چیئرمین سٹیرنگ کمیٹی APDM و فاع پاکستان کونسل ، صدر ملی یکجہتی کونسل ، پارلیمانی لیڈر قومی اسمبلی (جماعت اسلامی) ، سیکرٹری جنرل متحدہ مجلس عمل ، بانی صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان و دیگر اہم عہدوں پر رہے ۔ لیاقت بلوچ جنرل ایوب آمریت کے خلاف ، جنرل یحیی آمریت کے خلاف ، جنرل ضیا آمریت کے خلاف اور جنرل مشرف آمریت کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں شامل رہے اور کئی بار جیل گرفتاریاں تک بھگت چکے ہیں ۔ لیاقت بلوچ 1973 میں تحریک ختم نبوت ، 1977 میں تحریک نظام مصطفی اور 1986 میں تحریک نفاذ شریعت ، کشمیر و فلسطین کے مسائل پر ، عدلیہ بحالی تحریک اور افغان عوام کی جدوجہد میں روس اور امریکہ کے خلاف احتجاجی اور جہادی محاذ پر سرگرم رہے۔ آپ ہمیشہ سے ہی تعمیر و ترقی ، خدمت خلق ، اقامت دین اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، بے لوث خدمت ، بھلائی اور نیکی کے کاموں کےلے کوشاں رہتے ہیں ۔ مسلم امہ کا درد آپ کے سینے میں ہے اور قومی و عالمی سطح پر اپنے فعال کردار کی بدولت لیاقت بلوچ عالم اسلام میں ایک متحرک و اہم لیڈر کے طور پہ اچھی ساکھ اور شناخت و شہرت رکھتے ہیں ۔ آپ سعودی عرب ، ایران ، عراق ، متحدہ عرب امارات ، چین ، امریکہ ، انڈونیشیا ، اسٹریلیا ،کیمرون ، سوڈان ملائشیا، بنگلہ دیش ، برطانیہ ، افغانستان ، سنگاپور ، تھائی لینڈ ، روس ، ترکمانستان ، قزاقستان آذربائیجان ، اٹلی ، تاجکستان ، کینیا ، ازبکستان ، کرغیزستان ، جرمنی ، قطر ، فرانس ، ناروے ، بوسنیا ، آئرلینڈ ، کینیڈا ، مصر ، اسپین ، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے دورے کر چکے ہیں اور کئی کانفرنسز میں شرکت فرما چکے ہیں ۔ بلاشبہ اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے لیے اس طرح ک محنتی اور تجربہ کار ہستیوں کی اشد ضرورت ہے دین کی بالادستی کے لیے ،نفاذ اسلام کے لیے ، اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کے لیے ۔ میرا اپنا یہ ایک ست برگہ ہے کہ :
تو ہی سب کا رازق سچا تو ہی حق اور بالا
تو ہی خالق مالک مولا تو ہی حاکمِ اعلیٰ
Load/Hide Comments