کمانڈر شہباز بلوچ کی کہانی : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


ہمارے ارد گرد بہت سی کہانیاں گردش کر رہی ہوتی ہیں ہم ایسے کرداروں سے روز ملتے ہیں جن کی آنکھوں اور ماتھے پر ابھری کوئی نہ کوئی داستان ہماری توجہ پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو زندگی ایک کہانی ہے پیدائش سے وفات تک انسان مختلف ادوار سے گزرتا ہے کئی کردار اس کے اندر جنم لیتے ہیں اور کئی کرداروں کو اسے اپنے اوپر اوڑھنا اور نبھانا پڑتا ہے کبھی کبھی کوئی ایسا کردار سامنے آتا ہے ،جس کی کہانی چونکا دیتی ہے، حیران کر دیتی ہے۔ شہباز بلوچ ایسا ہی کردار ہے بالکل کسی الف لیلیٰ داستان کے ہیرو کی طرح ہر مشکل کو سر کرتا ہوا کچھ عرصے کے لئے تقدیر کے بچھائے جال میں مقید ، شہباز کی اب تک کی پوری بپتا عجیب و غریب نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔ چیلنجز کو عبور کرتی ناممکنات کو سر کرتی اور قدرت کی آزمائشوں کے سامنے سرنڈر کرتی ہوئی کہانی۔

ایک دلیر فوجی اور مہربان باپ کے آنگن میں پرورش پاتا شہباز بلوچ کا ذہن عجیب وغریب وسوسوں اور الجھنوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ،اس کی سوچ پر خوف کا تسلط تھا ،اسکے دل کو ہر وقت بلندی گہرائی ،پانی اوراندھیرے کا خوف جکڑے رکھتا تھا،اتنے ڈر ساتھ لے کر چلنے والے بچے سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ زندگی کا کوئی بڑا معرکہ سر کر سکے گا۔ کیونکہ ہر قدم کے آگے ڈر کا کھودا ہوا گہرا گڑھا تھا۔پھر شہباز بلوچ نے اپنی باطنی قوت سے ان چیلنجز کا سامنا کرنے کی ٹھان لی اور خوف سے نکلنے کے لیے وہ تمام کام کیے جو کوئی ایک فرد کم کم ہی کر سکتا ہے۔ کیڈٹ کالج کوہاٹ سے ہوتا ہوا نیول اکیڈمی پہنچا، پانی سے منسلک ڈر سے نجات کے لیے تیراکی شروع کی اور بہترین تیراک بن گیا،بہترین باکسر کا اعزاز حاصل کیا لیکن ابھی بلندی کےخوف کو شکست دینا باقی تھا تو اس نے فضاؤں کو تسخیر کرنے کا فیصلہ کیا۔پائلٹ کورس ٹریننگ کا امتحان پاس کر کے آرمی ایوی ایشن تک پہنچا اور بلندیوں میں پروازیں کرنے لگا،ہیلی کاپٹر اس کے لیے بچوں کی ایک سائیکل بن گیا،اتنی جلدی اتنی کامیابیاں حاصل کرنے والے خوبرو جوان شہباز بلوچ نے جو چاہا حاصل کر لیا ،سمندر اور فضا میں تیرنے والے کی آزمائش ابھی باقی تھی۔باطن کی طرف مڑنے والا دروازہ کھلنے کا وقت ہو گیا تھا۔بینائی میں بیس فیصد کمی ہوئی تو آپریشن کا فیصلہ کیا گیا لیکن قدرت کی منشا کچھ اور تھی اس لئے پٹی کھلی تو وجود کی ظاہر کی طرف کھلنے والی کھڑکیاں مکمل طور پر بند ہو چکی تھیں۔ وجود کا سسٹم چلتا رہتا ہے ایک در بند ہونے پر کوئی دوسری کھڑکی کھل جاتی ہے شہباز بلوچ نے اندر خانے رابطہ کیا تو باطنی آنکھ کی سہولت میسرہونے کاسگنل ملا۔ اس پر کلک کرتے ہی باطن کی طرف سفر شروع ہوا،مشاہدے کی بجائے محسوسات ،استغراق اور روح کی زبان یعنی وجدان آلہ کار بن گئے۔اس نے خود کو دریافت کرنے کا فیصلہ کیا تو دیکھا کہ انسانیت کی محبت اور خدمت کی شمع اس کے باطن میں شعلے کی منتظر ہے۔

تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستان کی حدود سے باہر بکھرے علم کے موتی سمیٹنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کا سفر کرنے کے بعد خدمت خلق کے راستے پر گامزن ہوا اور لوگوں کو ہنر مند بنانے کے لیے، ان کی زندگی میں خوشی بکھیرنے کے لیے کئی ادارے اور مفت تربیتی مرکز قائم کیے ۔معذور افراد اور ٹرانس جینڈر جنہیں معاشرے میں مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے ان کے لیے خصوصی سہولیات کا اہتمام کیا ۔دکھی اور مایوس چہروں پر امید کی ہنسی اس کے لیے روشنی بنتی گئی،بصارت کی معذوری نےاسے اڑھائی کروڑ معذور افراد کا وسیلہ بننے کی طرف راغب کیا۔اپنے زندگی کے سفر کو بہت سے مایوس اور حوصلہ ہارتے ہوئے دلوں کے لیے ایک مثال بناتے ہوئے اس نے کتابی شکل میں ترتیب دیا۔’ بصارت سے بصیرت تک ‘کتاب کا لفظ لفظ جدوجہد سے بھرا ہوا ہے ۔یہ زندگی کی کہانی ہے اور زندگی خوبصورت ہے لیکن مشکل بھی ہے زندگی حرکت کا نام ہے اور ہر طرح کی برکت حرکت کے بعد میسر ہوتی ہے۔ اس کتاب کی رونمائی میں شہر کے علمی ادبی افراد نے شرکت کی اور شہباز بلوچ کی کہانی کی جدوجہد کوخراج تحسین پیش کیا۔

انسان کا وجود مادی اور روحانی خصوصیات کا حامل ہے۔طبیعاتی اور مابعدطبیعاتی دنیاؤں کا سفر اس کی سرشت میں ہے، باطن کا سفر بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ظاہر کا، شہباز نے بہت جلد ظاہر کا سفر مکمل کر لیا اسلئے اسے جوانی میں ہی باطن کے سفر پر روانہ کر دیا گیا ۔مجھے امید ہے جب وہ اس سفر سے واپس آئیگا،جب اسکی ریاضت مکمل ہوگی تو اس کی بصارت اسے نئےچیلنجز کے ساتھ عطا کر دی جائے گی  شہباز بلوچ کی زندگی ایک تحریک ہے آئیے ہم بھی اس تحریک میں اپنا کچھ حصہ ڈالنے کی کوشش کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ