آج سے پانچ سال قبل چناب نگر میں قادیانی کمیونٹی کے چند اراکین نے تحریف شدہ قرآن کی تفسیر بچوں میں تقسیم کی جسے “تفسیر ضغیر” کہا جاتا ہے جب اس واقعہ کا علم ختم نبوت کے داعیان کو ہوا تو ان کی تین سال کی کوششوں کے بعد دسمبر 2022 میں اس گھناونی حرکت کے مرتکبین کے خلاف قانون کی تین شقوں کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج ہوا ان میں ایک شق پنجاب قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2010 ہے۔ اس قانون کے مطابق “اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقائد کے برعکس کیا گیا ہو تو اسے تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے” اس کے علاوہ مقدمے میں 295 _بی اور 295-سی بھی لگا ئی گیئں 298 – بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا سنگین جرم ہے اور اس کی سزا عمر قید ہے 298 – سی کا تعلق قادیانی مذہب سے ہے اور اس کے تحت مرزائی اپنے عقائد کی اعلانیہ اور خفیہ تبلیغ نہیں کر سکتے ہیں ایسا کرنے والے کو تین برس سزا دی جا سکتی ہے۔ سات جنوری 2023 کو مذکورہ بالا قانونی شقوں کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں مبارک ثانی نامی شخص کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ تحریف شدہ قرآن پاک تقسیم کرنے کا مرتکب ہوا تھا ۔مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی جو پہلے ایڈیشنل جج اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے بھی مسترد کر دی جب اس کی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تو کمزور ایف آئی آر او ر ٹیکنیکل موشگافیوں کی وجہ سے قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے چھ فروری کو ملزم کی ضمانت منظور کر لی _اس فیصلے سے علما کرام اور کروڑوں مسلمانوں کو شدید رنج پہنچا اور مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بنایا۔ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی جو سپریم کورٹ نے منظور کر لی مگر سپریم کورٹ نے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ 2019 میں ہونے والے واقعہ پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے 2019 میں جو “تفسیر ضغیر” تقسیم کی وہ پنجاب کے اشاعت قرآن قانون کے تحت جرم ہے لیکن یہ قانون 2021 میں لاگو ہوا جبکہ 2019 میں ایسا کرنا جرم نہیں تھا _جب معاملے کی حساسیت میں شدید اضافہ ہوا اور مذہبی طبقات مشتعل ہوئے تو یہ معاملہ قومی اسمبلی میں زیر بحث آیا اور قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف تک پہنچا کمیٹی کے اجلاس میں میں حکومت اور حزب اختلاف نے متفقہ فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کے قانونی پہلووں اور علما کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اضافی نظر ثانی کی درخواست دائر کی جائے۔ چنانچہ 17 اگست کو یہ درخواست دائر کی گئی اور 22 اگست کو چیف جسٹس پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی اور تمام مکاتب فکر کے جید علما کی آرا سنیں علما کرام کی اکثریت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف سات اور بیالیس پر شدید اعتراضات تھے۔ پیراگراف سات میں لکھا گیا تھا کہ ایف آئی آر میں ملزم پر تعزیرات 295 _بی کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن کسی قانونی شق کا صرف ذکر کرنا ملزم کو اس دفعہ کے تحت جرم کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں ہوتا ہے ۔ اس پر علامہ تقی عثمانی نے کہا “پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی اس کی غیر مشروط اجازت دی گئی ہے اسی طرح پیرا گراف سات میں لکھا ہے کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا ہے اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں اپنے فرقے کی تعلیم دے سکتا ہے” چیف جسٹس نے جمعرات کو مبارک ثانی کیس میں ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے علما کی سفارش پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیراگراف سات اور بیالیس کو حذف کرنے کا حکم دے دیا اور مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا” اس کیس کے حذف شدہ پیراگراف کو کسی بھی دوسرے کیس میں بطور عدالتی نظیر پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ٹرائل کورٹ حذف شدہ پیراگراف کو نظر انداز کر تے ہوئے آگے بڑھے یہ کیوریٹیو ریویو نہیں ہے بلکہ فیصلے میں تصیح کا کیس تھا۔” جب تک 1973 کے آئین کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا تو اس سے پہلے وہ اپنے عقائد کی اعلانیہ تبلیغ کرتے تھے مسلمان علما سے مناظرے کرتے تھے عام مسلمانوں کے ساتھ سماجی میل جول اور شادی بیاہ بھی کرتے تھے مگر جب بھٹو صاحب نے مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو اعلی سرکاری عہدوں پر فائز مرزائیوں نے اپنی شناخت چھپانا شروع کر دی تاکہ انہیں محکمانہ ترقیوں سے محروم نہ ہونا پڑے۔ اعلی سول اور ملٹری عہدوں پر فائز قادیانیوں کے نیٹ ورک نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا اب قادیانی براہ راست مناظرے نہیں کرتے ہیں البتہ افریقہ اور دوسرے ممالک میں ان کے مشن ان تحریف شدہ قرآن اور گمراہ کن مذہبی لٹریچر سے لوگوں کو مسلمان بنانے کر قادیانی عقائد کا پیروکار بنا لیتے ہیں ان نو مسلموں کو اصل اسلام اور آخری نبی حضرت محمد ۖکی صحیح تعلیمات کسی نے پہنچائی ہی نہیں ہیں علاوہ ازیں ان کا ایک گروہ نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل ہے جسے “وقف نوح”کا نام دیا گیا ہے یہ شیریں زبان، بہترین قرات اور قرآن و حدیث کے ماہر ہوتے ہیں یونیورسٹیوں میں وہ مسلمان لڑکے لڑکیوں سے میل جول بڑھاتے ہیں ان کے ساتھ حج عمرے کرتے ہیں ان کو اپنے چنگل میں پھنسا کر شادی کر لیتے ہیں جو ان کی کمیونٹی میں بے حد سراہا جاتا ہے۔ عام مسلمان لڑکے اور لڑکیوں کو ان کے مذہبی عقائد کا مکمل علم نہیں ہوتا ہے اگر پتہ بھی چل جائے تو وہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے خاموش رہتے ہیں کیونکہ یورپ میں سیٹل ہونے کے مواقع مل جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان قادیانی مبلغین کے مکمل اخراجات کمیونٹی اٹھاتی ہے۔ چناب نگر میں ٹریننگ کے بعد ان کی پوسٹنگ اندرون اور بیرونی ممالک ہوتی رہتی ہے یہ تمام معاملات میرے براہ راست مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہیں لہذا اس میں قطعا مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اکثر تو سادہ لوح مسلمانوں کو یہ لوگ خانہ کعبہ میں حج عمرے کے دوران ملتے ہیں تعلقات استوار کر کے رشتے داریاں قائم کر لیتے ہیں اور ان کو یقین ہی نہیں آتا ہے کہ ان کے بچوں کی شادیاں مرزائیوں میں ہو چکی ہیں۔ قاضی فائز عیسی صاحب نے درست کہا “قادیانیوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق صرف دو صورتوں میں ملیں گے یا تو وہ خود کو غیر مسلم تصور کر لیں یا پھر ختم نبوت کو مان لیں”۔
بشکریہ روزنامہ 92