اکثر آلات اور ایجادات بذات خود برے ہوتے ہیں اور نہ اچھے بلکہ ان کا استعمال انہیں برا یا اچھا بناتا ہے۔ سوشل میڈیا بھی ایک ایسی ایجاد ہے کہ اسے اچھے مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور برے مقاصد کیلئے بھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تو اس کا منفی استعمال، مثبت کی بنسبت بہت زیادہ ہے اور خاکم بدہن یہ کسی وقت بھی ملک میں کسی بڑے فساد کا موجب بن سکتا ہے۔ اندازہ کریں کہ برطانیہ جیسے وہ ممالک، جہاں لوگ مہذب ہیں اور قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے، میں اگر سوشل میڈیا کی فیک نیوز لاکھوں لوگوں کو گمراہ کر سکتی ہے تو ہمارے جیسے ملک میں کیا ہو گا؟
انگلینڈ میں جولائی کے آخر میں اور اس ماہ کے شروع میں نسلی فسادات کی ایک لہر آئی تھی، جو 29 جولائی کو ٹیلر سوئفٹ ڈانس اور یو گا پارٹی میں تین نوجوان لڑکیوں کے المناک قتل کے بعد شروع ہوئی۔ اس حملے کے فورا بعد سوشل میڈیا پر پوسٹس نے غلط طور پر یہ قیاس آرائیاں کیں کہ مشتبہ شخص ایک پناہ گزین ہے جو 2023 میں برطانیہ ایک کشتی میں آیا تھا، اور ایک غلط نام بھی بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا۔ یہ بے بنیاد افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ حملہ آور مسلمان ہے۔ لیکن مشتبہ شخص جو کہ17 سال کا نوجوان تھا، مسلمان نہیں تھا، اور ویلز میں روانڈا کے والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا۔
اس حملے کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں، یہاں تک کہ مشتبہ شخص کا نام جاری ہونے سے پہلے، غلط نام کو صرف X (سابقہ ٹوئٹر) پر 30000سے زیادہ بار ذکر کیا جا چکا تھا، اور 18000سے زیادہ منفرد اکاونٹس سے شیئر کیا جا چکا تھا۔ یہ غلط نام X کے الگورتھم کے ذریعے بھی صارفین کو تجویز کیا جا رہا تھا، جبکہ کیا ہو رہا ہے سیکشن میں ایک اعلی سفارش شدہ تلاش کے طور پر ٹرینڈ کر رہا تھا۔
الگورتھم نے اپنی جگہ اہم کردار ادا کیا لیکن مختلف غیر الگورتھم کے مقامات پر بھی بڑے پیمانے پر تنظیم سازی ہو رہی تھی، مثال کے طور پر ٹیلی گرام پر موجود دائیں بازو کے گروپس میں۔ ایسے ٹیلی گرام گروپس پرتشدد مظاہروں کے انعقاد میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر ساوتھ پورٹ میں چاقو زنی کے مشتبہ شخص کی جھوٹی شناخت شیئر کرنے والی پوسٹس کو کم ازکم420000بار دیکھا گیا۔ مختلف حلقوں کے متعدد انفلوئنسرز نے حملہ آور کی شناخت کے بارے میں جھوٹے دعوے پھیلائے، جس سے ایک بڑی تعداد تک یہ جھوٹ پہنچا، جن میں وہ عام لوگ بھی شامل تھے جن کا دائیں بازو کے افراد اور گروپس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ X پر، انگلش ڈیفنس لیگ کے بانی اوردائیں بازو کے کارکن ٹومی رابنسن، جس کا اصل نام اسٹیفن کرسٹوفر یاکسلی لینن ہے، نے اپنے تقریبا ایک ملین فالوورز کو اشتعال انگیز پیغامات بھیجے۔ X پر یاکسلی لینن سے وابستہ ایک انفلوئنسر، جو لارڈ سائمن کے نام سے پوسٹ کرتا ہے، بھی سب سے پہلے ملک گیر احتجاج کا عوامی مطالبہ کرنے والوں میں شامل تھا۔ فیس بک اور ٹک ٹاک نے بھی غلط خبر پھیلانے اور پرتشدد مظاہرے بھڑکانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ مشتعل ہجوم نے مساجد اور پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پر حملے کیے، گاڑیاں اور عمارتیں، بشمول ایک لائبریری، نذرِ آتش کی، پولیس اہلکار زخمی کیے، اور دکانوں میں لوٹ مار کی۔ انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے آن لائن غلط کاموں اور تشدد میں ملوث کئی افراد کو سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔ 35سالہ وین اورورک کو نسلی نفرت بھڑکانے کے ارادے سے آن لائن مواد شائع کرنے پر 3 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 48سالہ ڈیوڈ ولکنسن کو پرتشدد بدامنی، نسلی طور پر مشتعل مجرمانہ نقصان، اور آتش زنی کی کوشش کے جرم میں 6سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 25سالہ جان ہنی کو پرتشدد بدامنی، نسلی طور پر مشتعل مجرمانہ نقصان، اور چوری کے جرم میں 4سال 8ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ شمال مغربی انگلینڈ کی ایک 53سالہ خاتون کو فیس بک پر یہ پوسٹ کرنے پر 15 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ مسجد کو اندر موجود بالغ افراد سمیت اڑا دینا چاہیے۔ ایک 45 سالہ شخص کو اپنے آن لائن پیروکاروں کو پناہ گزینوں کیلئے مختص ایک ہوٹل کو آگ لگانے پر اکسانے کے جرم میں 20ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ایسی سزائیں دیگر مجرموں اور پرتشدد مظاہرین کو بھی سنائی گئی ہیں۔
اسی سلسلے میں ایک پاکستانی کو بھی سائبر دہشت گردی کے الزام پر پاکستانی پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے غلط معلومات پھیلانے میں کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں برطانیہ میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے۔ یہ بھی الزام ہے کہ مذکورہ شخص نے ایک ویب سائٹ پر مضمون شائع کیا، جس میں حملہ آور کا جھوٹا نام رپورٹ کیا گیا اور اس کو مسلمان ٹھہرایا۔ یہ چینل یا ویب سائٹ ان اولین ذرائع میں شامل تھے جنہوں نے حملہ آور کا جھوٹا نام رپورٹ کیا۔ ان پر یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے بھی غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ آن لائن غلط معلومات اور سیاسی طور پر محرک تشدد کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ روہنگیا میں نسل کشی سمیت 6جنوری 2021کو امریکی کیپٹل ہل پر حملے اور دنیا بھر میں اس طرح کے اور کئی دیگر واقعات کو جنم دینے میں سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا۔
مکرر عرض ہے کہ یہ سب کچھ ان ممالک میں ہوا جہاں لوگ مہذب سمجھے جاتے ہیں، تعلیم کی شرح زیادہ ہے اور قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے جس کی مثال برطانیہ کے حالیہ فسادات ہیں کہ ایک ماہ بھی نہیں گزرا اور سینکڑوں لوگوں کو سزائیں مل گئیں لیکن ہمارے ہاں تو جہالت بھی زوروں پر ہے اور قانون کا خوف بھی نہیں۔ سوشل میڈیا اگر اسی طرح استعمال ہوتا رہا تو کسی بھی وقت یہ بہت بڑے فساد کو جنم دے سکتا ہے اس لئے قبل اس کے کہ ایسا ہو سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے بلکہ اسے قاعدے اور ضابطے کا پابند بنانا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ