پنجاب کا بجلی بلوں میں ریلیف ، باقی صوبے مخالف … تحریر : مزمل سہروردی


پنجاب نے اگست اور ستمبر کے بجلی کے بلوں میں چودہ روپے فی یونٹ ریلیف کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد ایک صوبائی تنازعہ سامنے آیا ہے۔ دوسرے صوبوں کی جانب سے پنجاب کی طرف سے اپنے صوبوں کو دیا جانے والا یہ ریلیف کچھ زیادہ پسند نہیں آیا۔اس لیے ہمیں دیگر صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس پر تنقید نظر آرہی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق اس ریلیف کے اعلان سے قبل اسلام آباد میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار شریک ہوئے تھے۔

اس میٹنگ میں چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں باقی تینوں صوبائی حکومتوں سندھ، بلوچستان اور کے پی کو پنجاب حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ اپنے صوبے کے عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینا چاہتی ہے۔ سندھ نے کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں۔ اسی طرح کے پی اور بلوچستان نے بھی معذرت کر لی۔

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ اس وقت مہنگی بجلی کا مسئلہ سندھ اور پنجاب کا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں سے بھی پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔ یہاں زیادہ لوگ بل دیتے ہیں۔ اس لیے مہنگی بجلی اور زیادہ بل زیادہ بڑا مسئلہ بھی پنجاب میں ہے۔ کے پی میں لوڈ شیڈنگ مسئلہ ہے کیونکہ وہاں کوئی بل ہی نہیں دیتا۔ اس لیے حکومت بجلی بند رکھتی ہے۔ بلوچستان کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ ورنہ پاکستان کے پاس اس وقت بجلی طلب سے زیادہ ہے۔ لیکن جہاں لوگ بل ہی نہیں دیتے وہاں بجلی دینا بھاری مالی نقصان ہے۔ اس لیے وہاں زیادہ وقت بجلی بند رکھی جاتی ہے۔ پنجاب میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ اس طرح نہیں ہے جیسے کے پی بلوچستان میں ہے۔

کیونکہ یہاں لوگوں کی اکثریت باقاعدگی سے بل دیتی ہے۔اگر بجلی چوری بھی ہو رہی ہے تو اس کے خلاف کریک ڈان جاری رہتا ہے۔ یہ جرم ہے، لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں۔ ڈٹیکشن بل بھی ڈالے جاتے ہیں۔ جب کہ کے پی اور بلوچستان میں بجلی چوری سینہ زوری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے وزرا ایم پی ایز اور ایم این ایز ہجوم کے ہمراہ آ کر خود بجلی گرڈ آن کرا دیتے ہیں ایسے میں کسی کی جرات نہیں کسی کو پکڑ سکے۔ وہاں بل نہ دینا کوئی جرم نہیں، بل مانگنا جرم ہے۔ اس لیے جب یہ سوال ہوتا ہے کہ باقی صوبے کیوں ریلیف نہیں دے رہے تو ہمیں باقی صوبوں کی صورتحال سمجھنا پڑے گی۔

اگر یہ کہا جائے کہ بجلی مہنگی اس لیے ہے کہ دونوں صوبوں میں بل ادائیگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آج پورا پاکستان بجلی کا بل ایمانداری سے دینا شروع کر دے تو بجلی کئی گنا سستی ہو جائے گی۔ لیکن جہاں بل نہیں دیے جا رہے وہاں بجلی کی قیمت مسئلہ نہیں۔ وہاں بجلی کا نہ ہونا مسئلہ ہے۔ وہاں کے لوگ بجلی مہنگی ہونے پر احتجاج نہیں کرتے وہ اس لیے احتجاج کرتے ہیں کہ بجلی مل نہیں رہی۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ دونوں صوبائی حکومتیں نہ تو بجلی چوری روکنے کے لیے وفاق کی کوئی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ وہ خود ہی اس حوالے سے کوئی قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔

پنجاب میں مہنگی بجلی ایک بڑا مسئلہ ہے، یہاں لوگوں کی 90فیصد تعداد بل دیتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں پنجاب حکومت نے ٹھیک کیا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے پاس بہت پیسے ہیں، انھیں یہ پیسے اپنے صوبے کے عوام کی فلاح پر خرچ کرنے ہیں۔ اس لیے پنجاب میں بجلی کے بلوں میں ریلیف سے بڑی فلاح اور خدمت نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو کراچی میں لوگ بل دیتے ہیں۔ اس لیے وہاں مہنگی بجلی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسی لیے سندھ کی حکومت پر دبا نظر بھی آرہا ہے، اسی دبا کی وجہ سے وہ پنجاب کے اس ریلیف کی مخالفت بھی کر رہی ہے کیونکہ اگر پنجاب ریلیف جاری رکھتا ہے تو سندھ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ نہ دے۔ اسی لیے وہ اس ریلیف کی مخالفت بھی کر رہے ہیں اور اس کو غلط بھی قرار دے رہے ہیں۔ باقی دو صوبوں کی لا تعلق بھی سمجھ آتی ہے۔

اگر پنجاب نے اس ریلیف کو مستقل عمل بنا لیا تو سندھ کو بھی ریلیف دینا ہوگا۔ وہ صرف بیان بازی سے مخالفت کر کے معاملہ کولٹکا نہیں سکیں گے۔ ایم کیو ایم ابھی سے سندھ حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ یہ ریلیف دے۔ میری رائے میں تو اندرون سندھ بھی لوگ ریلیف مانگیں گے۔ ابھی تو یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ صرف دو ماہ کے لیے ہے۔ لیکن دو ماہ کا بھی دبا نظر آرہا ہے اور اگر اس کی کوئی مستقل شکل بن جاتی ہے تو کھیل بدل جائے گا۔

میں تو اس حق میں ہوں کہ مرکز صوبوں کو بجلی دے دے تو یہ صوبوں کی مرضی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے صوبے کے عوام کو کس ریٹ پر بجلی دینا چاہتے ہیں، مفت دینا چاہتے ہیں ، مہنگی دینا چاہتے ہیں اور سستی دینا چاہتے ہیں۔ دنیا میں ایسا ہے۔ یہاں پہلے اس لیے تھا کہ ایک مضبوط وفاق تھا۔ لیکن اب مالی طور پر وفاق کمزور ہو گیا ہے اور صوبے مالی طور پر مستحکم ہو گئے ہیں۔ کے پی ہائیڈل بجلی کا حصہ لیتا ہے۔ بقایا جات کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ لیکن وہ کے پی میں بجلی چوری کا ذمے دار نہیں ہے۔ سارا قبائلی علاقہ ایک روپیہ بل نہیں دیتا۔ پنجاب نے دو ماہ کے لیے پچاس ارب روپے کا ریلیف دیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں جو بجلی مفت استعمال ہوتی ہے یہ پیسے کون دے رہا ہے۔ وفاقی حکومت دے رہی ہے۔ لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں۔ کے پی کی حکومت کو چاہیے یہ پیسے اپنے ہائیڈل کے نفع سے کٹوائے۔یہی صوبائی خود مختاری اور اٹھارویں ترمیم کی اصل شکل ہے۔

اب ایک رائے یہ بھی ہے کہ دو ماہ بعد سردی آجانی ہے۔ اس لیے بجلی کے بلوں کا دبا بھی صارفین پر کم ہو جائے گا۔ یقینا گرمیوں میں بجلی کے بل زیادہ آتے ہیں۔ اب سب کی نظریں اگلی گرمیوں پر ہیں۔ اس سے پہلے بجلی کی قیمت کا حل ڈھونڈنا ہے۔ وفاق میں بھی اس پر کام ہو رہا ہے۔ لیکن اگر وفاق اگلے سال گرمیوں تک بجلی سستی کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو بھی جاتا ہے تب بھی پنجاب کو یہ ریلیف دینا چاہیے۔ پنجاب میں بجلی اضافی سستی کرنی چاہیے پھر دیکھتے ہیں سندھ کیا کرتا ہے۔ کیا پھر بھی صرف مخالفت میں بیان ہی دیے جائیں گے یا سستی کی جائے گی۔ یہ کارکردگی کا مقابلہ ہے۔ یہ عوام کی خدمت کا مقابلہ ہے۔ اس میں جیت ہار عوام کی خدمت کی جیت ہار ہے۔ اس میں کارکردگی کی جیت ہار ہے۔

پنجاب کے عوام کو بھی اس وقت جب باقی صوبے پنجاب کی حکومت اور وزیر اعلی مریم نواز پر تنقید کر رہے ہیں، اپنی حکومت اور وزیر اعلی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تا کہ انھیں احساس رہے کہ انھوں نے درست ریلیف دیا ہے، یہ ضایع نہیں ہوا۔ حکومتیں عوام کی طاقت سے ہی خدمت کرتی ہیں۔ اگر پنجاب کے عوام اس ریلیف کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے تو اسے کوئی ختم نہیں کر سکے گا۔ بلکہ یہ مستقل ہو جائے گا۔ باقی کراچی کے لوگوں کو سندھ حکومت کے تنقیدی بیانات کے جواب میں کہنا چاہیے کہ آپ بھی یہ ریلیف دیں۔کراچی میں بجلی مہنگی ہوئی ہے۔ اگر سندھ حکومت چاہتی تو سستی ہو جاتی۔ آپ کو بھی این ایف سی سے ویسے ہی پیسے ملتے ہیں جیسے پنجاب کو ملتے ہیں۔اب وفاق کے ساتھ صوبائی حکومتیں بھی ذمے دار بنتی جائیں گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس