موت سے واپسی : تحریر حامد میر


یہ مارچ 1968ء کا ذکر ہے ایک دن مولانا حامد علی خان نے آغا شورش کاشمیری کو فون کیا اور بتایا کہ ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ میں علامہ اقبال کے خلاف اناپ شناپ شائع کیا جا رہا ہے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں جو شاعر ِمشرق کی کردار کشی کا جواب دے سکتا ہے۔آغا شورش کاشمیری ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کے مدیر تھے۔ علامہ اقبال کی شان میں بہت سی نظمیں اور دو کتابیں بھی لکھ چکے تھے انہوں نے مولانا حامد علی خان سے عرض کیا کہ میں تو اپنے پیرو مرشد علامہ اقبال کا ہمیشہ دفاع کرتا ہی رہتا ہوں لیکن وہ مجاوران اقبال کہاں ہیں جو اقبال کے نام پر حکومتوں سےتنخواہ لیتے ہیں؟ کیا انہیں اقبال کا دفاع نہیں کرنا چاہئے؟ مولانا حامد علی خان نے جواب میں کہا کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجے‘‘۔ آغا شورش کاشمیری ذرا تلملا گئے اور کہا کہ یہ مجلس اقبال اور اقبال اکیڈمی والے کہاں سو رہے ہیں؟ پھر آغا صاحب نے کہا کہ آپ بھی تو مولانا ظفرعلی خان کے بھائی ہیں آپ علامہ اقبال کا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ ہر کسی سے لڑنا میرا ہی کام رہ گیا؟ مولانا حامد علی خان نے کہا کہ یہ کام تو آپ ہی کو کرنا ہے۔ معاملہ دراصل یہ تھا کہ ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ ایک مخصوص مذہبی گروہ کا ترجمان تھا اور علامہ اقبال سے ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس مذہبی گروہ کو اپنی زندگی میں دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی حمایت کی تھی لہٰذا اس گروہ کی طرف سے علامہ اقبال پر علمی تنقید کے نام پر جھوٹے الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ بہرحال آغا شورش کاشمیری نے علامہ اقبال کے دفاع میں اپنے قلم کو تلوار بنا لیا۔ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ پیچھے رہ گیا اور آغا صاحب نے علامہ اقبال کے مخالفین کے خلاف جلسوں میں دھواں دھار تقاریر شروع کر دیں۔ اقبال کا یہ دفاع حکومت وقت کو امن وامان کیلئے خطرہ دکھائی دینے لگا لہٰذا 22اپریل 1968ء کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت ناصرف چٹان کا ڈکلیئریشن منسوخ کر دیا گیا بلکہ چٹان پرنٹنگ پریس بھی ضبط کر لیا گیا۔ آغا شورش کاشمیری کے ساتھ جنرل ایوب خان کی ناراضی کی ایک اور وجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انکی دوستی تھی۔ بھٹو نے ایک سال پہلے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دیکر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ خان ذاتی طور پر آغا صاحب سے گزارش کر چکے تھے کہ بھٹو کی تقاریر اپنے جریدے میں شائع نہ کریں لیکن آغا صاحب بھٹو کو سنسر کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ اس زمانے میں مولانا کوثر نیازی نے بھٹو پر توہین رسالت کا الزام لگایا تو آغا شورش کاشمیری نے بھٹو کا بھرپور دفاع کیا جس پر حکومت ناراض تھی۔

ہفت روزہ چٹان پر پابندی نے آغا صاحب کو غضب ناک کر دیا قلم کی جگہ زبان کے تیر چلنے لگے اور پھر 5مئی 1968ء کو جے یو آئی کے ایک جلسے میں کی جانے والی تقریر کی پاداش میں آغا شورش کاشمیری کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد وہ کہانی شروع ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ’’موت سے واپسی‘‘ میں تحریر کی ہے۔ یہ ان کی پہلی گرفتاری نہیں تھی قیام پاکستان سے قبل وہ انگریزی سامراج کے خلاف تقریروں پر کئی دفعہ گرفتار ہوئے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریزوں کی قید میں گزرنے والے ایام کی کہانی ان کی کتاب ’’پس دیواران زنداں‘‘ میں ہے۔ ’’موت سے واپسی‘‘ جنرل ایوب خان کی قید میں کی جانے و الی اس بھوک ہڑتال کی کہانی ہے جس نے پوری ریاست کو ہلا دیا تھا۔ اس کتاب میں آغا صاحب لکھتے ہیں کہ ’’حکومت وہی اچھی ہے جو عوام پر کم سے کم حکومت کرے‘‘ اس کتاب میں آغا صاحب نے بتایا کہ جب جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کیخلاف صدارتی الیکشن لڑا تو جنرل نے آغا صاحب کے ساتھ ایک لمبی ملاقات کی اور مادر ملت کے خلاف تحریر و تقریر کے عوض انہیں بہت کچھ پیش کیا لیکن آغا صاحب نے معذرت کرلی۔ اس زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو حکمران جماعت کے سیکرٹری جنرل تھے جب انہوں نے حکومت چھوڑ دی تو انہیں اخبارات و جرائد سے غائب کر دیا گیا۔ بھٹو کی کوریج روکنے کا بھی بھاری معاوضہ پیش کیا گیا لیکن آغا صاحب نے ٹھکرا دیا۔ گرفتاری کےبعد آغا شورش کاشمیری کو لاہور کی بجائے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں بھیجا گیا۔ وہاں انہیں زہر دینے کی کوشش ہوئی آغا شورش کاشمیری نے جیل انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چیف جسٹس مغربی پاکستان ہائی کورٹ لاہور کو ایک خط لکھا کہ انہیں ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں قتل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ آغا صاحب نے بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔

ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے آغا صاحب کو راولپنڈی یا پشاور منتقل کرنے کا حکم دیا اور 28مئی کو نظر بند آغا شورش کاشمیری کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کرنےکی ہدایت دی۔ حکومت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی سپریم کورٹ نے آغا صاحب کو کراچی میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ یہاں اس کہانی کا وہ باب شروع ہوتا ہے جو آج کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے ججوں کو پہلے پیار محبت سے سمجھایا اور پھر دھونس پر اتر آئی۔ جج صاحبان سے کہا گیا کہ اگر آغا شورش کاشمیری کو کوئی ریلیف دیا گیا تو یہ حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہوگا۔ سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس شوکت علی کی طرف سے چیف جسٹس کو ایک تفصیلی خط لکھا گیا جو ’’موت سے واپسی‘‘ میں شامل ہے۔ اس خط میں بتایا گیا کہ آغا شورش کاشمیری کا مقدمہ جس بینچ کے سپرد تھا اس بینچ پر حکومت نےناصرف اثر انداز ہونے کی کوشش کی بلکہ ہمارے اثاثوں کا کھوج لگانا شروع کر دیا۔ آغا صاحب کو کراچی جیل بھجوا دیا گیا انہوں نے وہاں بھی بھوک ہڑتال کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں جیل میں ملنے کی کوشش کی لیکن انہیں اجازت نہ ملی۔ سینٹرل جیل کراچی سے آغا شورش کاشمیری نے جنرل ایوب خان کو ایک خط لکھا جس میں انکی حکومت کے زوال کی پیش گوئی شامل تھی۔ آغا صاحب کی کتاب میں روزنامہ جنگ کا ایک اداریہ بھی شامل ہے جو عدلیہ کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی مذمت میں تھا۔ ایک طرف آغا شورش کاشمیری کی بھوک ہڑتال نے پورے ملک کو پریشان کر دیا دوسری طرف عدلیہ نے توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی لہٰذ آغا شورش کاشمیری کو ایک ڈکٹیٹر کی حکومت نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر رہا کیا کیونکہ جبرو استبداد کے خلاف عوامی بے چینی ایک سیاسی تحریک میں بدل رہی تھی۔ مارچ 1969ء میں جنرل ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا۔ ’’موت سے واپسی‘‘ کا مطالعہ آپ کو بتائے گا کہ پاکستان میں صحافیوں اور ججوں پر دباؤ کیسے ڈالا جاتا ہے اور ان کے ضمیر کو کیسے خریدا جاتا ہے؟ آغا شورش کاشمیری کی ایوب خان سے لڑائی علامہ اقبال کے دفاع سے شروع ہوئی اور اس لڑائی کا اختتام علامہ اقبال کے دشمنوں کیساتھ 1974ء میں ہوا جب پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے ان کا موقف تفصیل سے سن کر متفقہ طور پر انہیں غیر مسلم قرار دے دیا۔ اب انہیں اس آئین کو مان لینا چاہئے کیونکہ یہ آئین بطور اقلیت انہیں وہ تمام حقوق دیتا ہے جن کے بارے میں آغا شورش کاشمیری نے ایوب خان کے نام خط میں کہا تھا ’’علامہ اقبال کی تحریروں کی روشنی میں ہمارا مطالبہ اتنا ہے کہ وہ پاکستان میں اقلیت کے طور پر رہیں، ہم ان کے ننگ و ناموس، جان و مال کو پاکستان کے شہری کی حیثیت سے یکساں سمجھتے ہیں اور ان کی حفاظت ہمارا فرض ہے‘‘۔

بشکریہ روزنامہ جنگ