اہل تسلط فعال۔ اہل تدبر ہچکچاہٹ میں : تحریر محمود شام


پوری دنیا میں جنگ ہے۔ اہل تسلط اور اہل تدبر کے درمیان۔ ہمارے ہاں اہل تسلط بہت فعال ہیں۔ اہل تدبر ہچکچاہٹ میں ہیں۔

امریکہ میں انتخابی معرکہ اب زوروں پر ہے۔ نومبر کے پہلے منگل کو مقابلہ ہوگا کملا ہیرس نائب صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ سابق صدر امریکہ کے درمیان۔ یہ بھی وائٹ ہاؤس پر تسلط کیلئے ہے۔ امریکی قوم دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے صدارتی جمہوری نظام کو بتدریج مستحکم کرتی آرہی ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان وہاں بھی سالہا سال سےکشمکش چلی آرہی ہے۔ وہاںبھی وائٹ ہاؤس سپریم کورٹ کو اپنے تابع رکھنے کیلئے ججوں کی تعداد میں کمی بیشی کے تجربے کرتا رہا ہے۔ اب امریکیوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں عورت کی حکمرانی قبول ہے یا نہیں۔ جیسے پہلے بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ فیصلہ کیا تھا کہ ایک سیاہ فام بھی امریکی صدر بن سکتا ہے۔ اسی فیصلے کا نتیجہ ایک شدت پسند سفید فام ٹرمپ کی صورت میں نکلا۔اور اب پھر وہ سفید فاموں کو متحرک کرنے میں کامیاب ہورہا ہے۔

امریکی انتخابات کا سال ہمیشہ پوری دنیا کے انتظامی اور سیاسی معاملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی لیے امریکی دارُالحکومت واشنگٹن کو عالمی دارُالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ انتخابی سال کے دوران دنیا پر امریکی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے۔ وہ اپنے زیر اثر ریاستوں میں زیادہ کھیل نہیں کھیل سکتا ہے۔ خاص طور پر ’’رجیم چینج‘‘ (سرکار بدلی) مشکل ہوجاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر چوتھے سال امریکی طفیلی ریاستوں میں امریکہ کے منظور نظر حکمران طبقوں کیلئے بھی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ ہر ملک میں ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ ایک عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے۔ جس کا سیاسی مرکز اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔ اور عسکری پینٹاگون میں۔ اپنے صحافیانہ فرائض کی انجام دہی کی بدولت مجھے وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کئی بار جانے کااتفاق ہوا ہے۔ دیکھا ہے کہ تسلط عالمگیر کیسے ہوتا ہے۔ مگر اس کیلئے تدبر امریکہ کے تھنک ٹینک فراہم کرتے ہیں۔

معلوم اور نامعلوم ادوار۔ قبل از تاریخ۔ بعد از تاریخ۔ قبل از مسیح۔ بعد از مسیح۔ تسلط کے حصول کیلئے انسانی لاشیں گرائی گئی ہیں۔ پُر امن انداز سے تسلط کیلئے تدبر زیادہ نتیجہ خیز رہا ہے۔ جہاں تدبر کار فرما رہا ہے۔ وہاں صرف اقتدار ہی نہیں۔ اقدار بھی منتقل ہوتی ہیں۔ صرف پاکستان میں نہیں۔ امریکہ میں بھی شائستگی، اقدار اور وقار کا انحطاط ہوا ہے۔ اور انجانی طاقتوں کا ڈر بڑھا ہے شکاگو میں سابق خاتون اوّل ہلیری کلنٹن کملا ہیرس کیلئے انتخابی مہم میں کہہ رہی ہیں کہ یہ انتخاب۔ ’’خوف سے آزادی‘‘ کیلئے ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صدر بائیڈن وائٹ ہاؤس میں وقار اور شائستگی واپس لائے ہیں۔

ہم لاکھوں سول اور فوجی شہداء کی قربانیوں سے حاصل کیے گئے حسین پاکستان میں بھی ایک خوف میں مبتلا ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ ہم اپنے ہی ہم وطنوں سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت زیادہ پہروں میں رہنے اور گھومنے والے بھی عدم تحفظ کے احساس میں گھرے رہتے ہیں۔ عام پاکستانی جن کے ارد گرد کوئی پہرہ نہیں ہے۔ سیکورٹی گارڈ رکھنے کیلئے پیسہ نہیں ہے۔ بلکہ دو وقت کی روٹی بھی اپنے خاندان کو کھلانے کی استطاعت نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں غربت کی لکیر سے نیچے جاچکےہیں۔ انہیں بھی ہر قسم کے خوف لاحق ہیں۔

میں تو ہر اتوار کو آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے ساتھ بیٹھیں ان کے سوالات سنیں ان کا ڈر دور کریں۔ ہلیری کلنٹن یہی کہہ رہی ہیں کہ ہمیں خوف سے آزادی حاصل کرنا ہے۔ اپنے لیے ۔اپنے بچوں کیلئے ۔بچوں کے بچوں کیلئے۔

یہ تسلط کے ساتھ ساتھ تدبر کا حصول بھی ہے۔

کثرت اہل تسلط ہے بہت

چاہئیں اہل تدبر ہم کو

میں ایک اخباری بوڑھا اپنے کئی دہائیوں کے تجربے کے بعد بلا خوف تردید یہ کہہ رہا ہوں کہ 1971میں فوجی، سیاسی اقتصادی شکست کے بعد سے ہم سب خوف میں گرفتار ہیں۔ اور بد قسمتی یہ کہ خوف کا علاج ہم صرف تسلط سمجھتے ہیں۔ اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے خوف دور کرنے کی بجائے ہم کسی دوسرے انسان، اس کے علاقے، اس کے ادارے پر قبضہ کرکے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اپنے آئین اور قانون کو بھی ہم اختیار کرنے کی بجائے اسے اپنا زر خرید بنانا چاہتے ہیں۔ جگر مراد آبادی نے تو کہا تھا کہ میں تلخیٔ حالات سے گھبرا کے پی گیا۔ ہم عدم تحفظ کے احساس سے گھبرا کر دوسروں کی آزادی سلب کرنے کو اپنی حفاظت سمجھتے ہیں۔

اکیسویں صدی بصیرت، تدبر، اطلاع، عالمگیریت،انسانی قربتوں کی صدی ہے۔ سوشل میڈیا انسان کیلئے ایک طاقت بن کر آیا ہے۔ اہل تسلط اسے بھی قبضہ گیری کا آلہ سمجھ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں اربوں ڈالر خرچ کرکے اس پر غلبہ پارہی ہیں۔ جبکہ اہل تدبر اس کے ذریعے علم کی اشاعت کررہے ہیں۔ ہم انتہائی حساس محل وقوع۔ 60فی صد سے زیادہ نوجوان آبادی اور اربوں ڈالر کے معدنی، زرعی، انسانی وسائل رکھنے کے باوجود عدم تحفظ کے احساس میں گرفتار ہیں۔ کبھی ہم اپنے پانچ گنا زیادہ بڑے ہمسائے سے ڈرتے تھے۔ اب ہم چھوٹے ہمسایوں سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں۔ ہم تسخیر کی ہوس رکھتے ہیں لیکن تدبیر کی جرأت نہیں۔ حالانکہ تاریخ جغرافیہ معاشیات سب یہ کہتے ہیں کہ تسخیر وہی کرتے ہیں جو تدبیر کرتے ہیں۔

ان دنوں ہمارے حکمران طبقے خاص طور پر اپنا تسلط کا دائرہ بڑھانے میں ہی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ اس کیلئے مختلف فارم استعمال کررہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں فارم 47کی اکثریت کا سہارا لے رہے ہیں۔ حالانکہ دل جیتنے کیلئے تسلط نہیں تدبر درکار ہوتا ہے۔ رومی کہہ گئے ہیں۔

دل بدست آور کہ حج اکبر است

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

جگر مراد آبادی کا یہ مصرع ذہن میں آرہا ہے۔ ’’جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ۔‘‘

دل اور ذہن جیتنے کی ضرورت ہے۔ ’’جو دل میں بس رہا ہے حکومت اسی کی ہے‘‘۔ تدبر کے سر چشمے عدلیہ میں ہوتے ہیں۔ ماہرین قانون کے دماغوں میں، یونیورسٹیوں کے بے خوف پروفیسروں میں، ایڈیٹروں اور کالم نویسوں میں۔ ہمیں بھی طاقت کے مراکز میں وقار، شائستگی اور معاملہ فہمی واپس لانا ہے۔ اداروں میں، سیاسی پارٹیوں میں بھی اہل تدبر موجود ہیں۔ جو دل میں محسوس کررہے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔ 1985ءکے بعد آنے والی حکمران نسلیں تسلط کی ہوس رکھتی ہیں۔ اس کیلئے تن من دھن لٹادیتی ہیں۔ ایک بار تدبر کا تجربہ بھی کرلیں ۔ آپ سمیت 24 کروڑ کے دل سے خوف نکل جائے گا۔ تدبر یہ ہے کہ ہم آئندہ دس پندرہ برس کی پالیسیاں وضع کریں۔ مذہبی، اقتصادی، سیاسی، تعلیمی، زرعی، اطلاعاتی۔ پھر ہمارا حال بھی مستحکم ہو گا اور مستقبل بھی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ