ترقی کرتا دشمن : تحریر محمود شام


صدیوں پرانا مقولہ ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانئے۔ Know your Enemy۔پہلے ایک ہزار سال اور اب1947 سے بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن مملکت خداداد پاکستان کے حصول کے بعد ہندوستان کی قیادتوں نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن وہی ہیں۔2014سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار کے بعد پوری دنیا پر عیاں ہوگیا ہے کہ بھارتی قیادت پاکستان سے اچھے تعلقات قائم ہی نہیں رکھنا چاہتی۔ بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ اس حکمران پارٹی نے جو سلوک کیا ہے۔ اس کی بھی پورے عالم سے مذمت ہورہی ہے۔

ایک طرف تو یہ کہ ہمارا یہ بڑا ہمسایہ انسانیت کے وقار کی قدر نہیں کرتا۔ ہمیشہ ہمارے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔ اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ پاکستان میں عدم استحکام کیلئے منصوبے بناتی رہتی ہے۔لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں حکمرانوں نے ابتدا سے ہی عوام دشمن پالیسیاں اپنائے رکھیں۔ وقت پر انتخابات نہ ہوئے۔ حکومتیں بالعموم ووٹ سے نہیں بدلیں۔ چار بار فوج نے نظم و نسق سنبھالا۔ اس کے علاوہ بھی سیاسی امور میں فوجی مداخلت جاری رہی۔ جنوبی ایشیا میں کوئی ایسا وقفہ نہیں آیا۔ جب اس خطّے میں کشیدگی نہ رہی ہو۔ دنیا میں جتنے علاقائی تعاون کے اتحاد قائم ہوئے۔ وہ بتدریج آگے بڑھتے گئے۔ یورپ کی مثال لے لیں جس کی کرنسی تک ایک ہو گئی۔

ہم نے اپنا یوم آزادی بہت شان سے منایا۔ اب کے ارشد ندیم کے گولڈ میڈل نے ہماری مسرت و انبساط کو دو چند کر دیا۔ آج بھارت کے لوگ اپنا یوم آزادی منارہے ہیں۔ پہلے تو بھارت کے امن پسند، جمہوریت نواز، انسانیت دوست اہل قلم کو، دانشوروں کو سیاسی کارکنوں کو مبارک باد۔بھارت کے عوام نے اپنی آزادی کی حفاظت کس طرح کی ہے۔ اپنی جمہوریت کو کس طرح برقرار رکھا ہے۔ اس پر بات کرنا ہے۔ بھارت کے عام شہری اسی طرح امن کے خواہاں ہیں۔ جیسے پاکستان کے لیکن متعصب رہنماؤں نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں کہ وہاں کی اقلیتیں خاص طور پر مسلمان ہمیشہ مصائب کا شکار رہتے ہیں۔ انہیں برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن مجموعی طور پر بھارت میں پیشرفت ہوتی رہتی ہے۔ صنعت میں ،تجارت میں، تعلیم میں۔ اپنے صحافیانہ فرائض کے سلسلے میں مجھے جولائی 1972سے اپریل 2014تک کئی بار بھارت جانے کا اتفاق ہوا ہے تو وہاں کے صحافیوں، شاعروں، کاروباریوں، اسکالرز میں آگے بڑھنے کی لگن ہی دیکھی۔ سیاسی پارٹیوں میں کشمکش لیکن ’’سب سے پہلے بھارت‘‘ کا جذبہ بالاتر رہتا ہے۔بھارت نے جو بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کا ہم معروضی جائزہ لیں۔ اب پاکستان میں چوتھی نسل عملی زندگی میں داخل ہوچکی ہے۔ دو نسلوں نے صرف 1971کے بعد کا پاکستان دیکھا ہے۔ اس لئے اسے 1947سے 1971 تک کے جنوبی ایشیا سے بھی واقف کرنا ضروری ہے۔

1947 میں جب بر صغیر میں دو مملکتیں آزاد ہوئیں۔ بھارت اور پاکستان۔ بھارت کو یہ ترجیح حاصل تھی کہ وہاں انتظامی ڈھانچہ یعنی مرکزی سیکرٹریٹ دوسرے سرکاری دفاتر، وزارتیں۔ پہلے سے موجود تھیں۔ گوروں کی جگہ کالے آگئے۔ لیکن پاکستان ایک نئی مملکت کو دونوں بازوؤں، مشرقی اور مغربی پاکستان میں سب کچھ نئے سرے سے استوار کرنا تھا۔ یہ بڑا چیلنج تھا پھر آبادی کے انتقال میں بھی فسادات ہوئے مہاجرین کو سنبھالنا، کیمپوں میں اور بعد میں ان کی آباد کاری میں پاکستان کو زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ بھارت کو یہ فوقیت بھی رہی کہ وہاں انہیں آزادی دلانے والی جماعت آل انڈیا کانگریس کے قائد جواہر لال نہرو کو 17 سال تک آزادی اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کا طویل عرصہ میسر آ گیا۔ انہوں نے ابتدا ہی میں جاگیرداریاں، رجواڑے، ریاستیں ختم کرکے ایک نظام قائم کر لیا۔ غیر ملکی مصنوعات کو ملک میں آنے نہیں دیا۔ سادہ کم خرچ زندگی کو ترجیح دی گئی۔ کانگریس تھی یا جن سنگھ۔ انہوں نے ’انڈینائزیشن‘ پرتوجہ مرکوز کی۔ بڑے فخر سے وہ برطانوی راج کی عادتوں، رہن سہن کو دور کر کے انڈینائزیشن کرتے رہے۔ انتظامی طور پر نئے صوبے بنائے۔ ساری زبانوں کو ان کا مقام دیا۔ پاکستان ایک نیا ملک تھا۔ یہاں بھی صوبوں میں کشاکش تھی۔ نئے انتظامی صوبے بنانے کی بجائے یہاں ایک یونٹ بنایا گیا۔ صوبوں اور قومیتوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔

ہمارے ہاں ضرورت ہے کہ بھارت کے 77سال کو بطور ایک نصابی مضمون پڑھایا جائے اس کے آگے بڑھنے کے اسباب پر تحقیق کی جائے۔ بھارت نے 1947میں اپنے کیا مفادات متعین کیے۔ انہیں کیسے حاصل کیا۔ پاکستان صرف مذمت کرتا رہا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو انہوں نے کوئی اہمیت نہ دی۔ مشرقی پاکستان میں جس طرح مسلسل ریشہ دوانیاں کی گئیں۔ ہم ان کو نہیں روک سکے۔انڈینائزیشن میں بھارت کے اقتصادی ڈھانچوں کو طاقت ور کرنا بھی شامل تھا۔ دریاؤں کے پانی پر جس طرح انہوں نے قبضہ کیا۔ اس پر تحقیق درکار ہے۔ جہاں جہاں ضرورت تھی، انہوں نے چھوٹے بڑے ڈیم بنائے۔ ہم یہاں ڈیموں پر سیاست کرتے رہے۔ کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا۔ نہ ہی اس کی جگہ کوئی اور ڈیم بنایا۔ ستلج اور راوی خشک کر دیئے۔بھارت کے استحکام کیلئے جو ضروری تھا۔ وہاں کانگریس، بی جے پی اور مخلوط حکومتوں نے کیا۔ تعلیم کے شعبے میں بھی ان کی پیش رفت لائق توجہ ہے۔ ایک عرصے تک انہوں نے وزارت تعلیم کا نام بدل کر ’’انسانی وسائل کی بہبود‘‘ رکھا۔ مارکیٹ کے حوالے سے پاکستان کی آبادی بھی قابل ذکر تھی۔ مگر بھارت کے میڈیا، فلمی صنعت نے اپنی آبادی کو ایک بڑی مارکیٹ دکھاکر سرمایہ کاری کو ممکن بنایا۔

بھارت کے جو شہری ملک سے باہر رہتے ہیں۔ جنہیں Non Resident Indians کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بھی بھارت کی ترقی میں اپنا حصّہ بھرپور لیا ۔ برطانیہ میں ایک بھارتی نژاد وزیر اعظم کے عہدے تک جا پہنچا۔ اب امریکہ میں نئی صدارتی امیدوار بھی بھارتی نژاد بتائی جاتی ہیں۔ ہم 1947سے امریکی اتحادی ہیں۔ سیٹو۔ سینٹو کے رکن رہے ہیں۔بھارت نے سوویت یونین سے دوستی کی۔ خوب فائدے اٹھائے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ میں رہائش پذیر بھارتیوں نے لابی کرکے امریکہ کو بھارت کی زلف کا اسیر کر لیا۔ اب امریکہ کی ساری نوازشیں بھارت پر ہیں بھارت والے اس وقت دنیا کو چین کا خوف دلا کر خود کو اس خطّے میں مغرب کے مفادات کا محافظ قرار دیتے ہیں۔ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے اس ازلی دشمن کے بارے میں ہر زاویے سے تحقیق کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ