سابق ڈی جی آئی ایس آئی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس وقت کورٹ مارشل کا سامنا کررہے ہیں۔ اب یہ بھی کہا جا رہاہے کہ فوج کے کڑے ترین احتساب کے عمل کا کوئی ثانی نہیں، آج ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ فوج میں احتساب کا کڑا نظام موجود ہے اور متحرک بھی ہے۔ بہر حال اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوج ایک انتہائی ڈسپلنڈ اور منظم ادارہ ہے اور اس کا ادارہ جاتی احتساب کا میکنزم مسلسل فعال اور متحرک ہے، یہی افواج کی پہچان ہوتی ہے ۔پاکستان میں اس کی مثال ماضی میں بھی ہمیں بارہا ملتی رہی ہیں۔
نو مئی کے واقعات کے بعد بھی پوری قوم نے دیکھا کے کیسے فوج کا یہ اِحتساب کا کڑا میکنزم حرکت میں آیا اور انتہائی تیزی کے ساتھ چند ہی دنوں میں متعلقہ اور ذمے دار لوگوں کو سزائیں سنا دی گئی۔ اِسی طرح پہلے بھی کئی سینئر افسران کو آرمی رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جا چکی ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جنرل فیض حمیدکی تحویل میں لیے جانے کی پریس ریلیز ، اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ فوج اپنے کڑے احتسابی عمل کو کئی بار عملی جامہ پہنا چکی ہے۔ اِس احتسابی عمل کی نظیر آپ کو کسی اور ادارے میں نہیں ملتی ۔ پاکستان میں دو ادارے ہیں جن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے اندر خود احتسابی کرنے کا اختیار اور میکنزم رکھتے ہیں۔ ان میں ایک فوج اور دوسرا عدلیہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عدلیہ کے اندر کیا احتساب کا میکنزم اتنا ہی مضبوط اور متحرک ہے جتنا فوج میں ہے۔ یہ تقابلی جائزہ بھی ضروری ہے۔
فوج میں احتساب کے عمل پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مخصوص سیاسی مائنڈ سیٹ کے لوگ پراپیگنڈہ بھی کرتے ہیں۔لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ لیفٹیننٹ جنرل( ر)فیض حمیدکو فوجی تحویل میں لیے جانے اور ان کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ فوج کے اس انتہائی کڑے احتسابی عمل کا بھی باقی اداروں سے موازنہ کر لیں تاکہ عوام کو دودھ اور پانی کا پتہ چل سکے۔
فوج نے ایک بار پھر واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کے کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنے ہی اونچے عہدے پر کیوں نا ہو، قانون سے بالا تر نہیں اور دوسری بات یہ کہ پاک فوج کا احتسابی عمل بہت شفاف اور کڑا ہے جو فوری حرکت میں آ کر حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں، معاملات کو قانون کے مطابق سختی اور وقت ضایع کیے بغیرتیزی کے ساتھ نپٹاتا ہے، ا ِس سلسلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر وضاحت کے ساتھ 7 مئی کی پریس کانفرنس میں فوج کے اس کڑے احتسابی عمل کو واضح طور پر بیان کر چکے ہیں۔
میرے لیے لیفٹینٹ جنرل فیض کے معاملے میں جائیداد کا معاملہ اہم نہیں ہے، اس کا سب کو معلوم تھا۔ سب کو علم تھا کہ انکوائری ہو رہی ہے۔ ایک عمومی رائے یہی تھا کہ یہ ایک ٹھوس کیس ہے۔ لیکن میرے نزدیک آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان پر آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے معاملات سامنے آئے ہیں۔جنرل فیض نے دوران ملازمت جو کیا وہ سب اپنی جگہ لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر کارروائی کافی سنگین معاملہ ہے۔
آخر انھوں نے کیا کیا ہے جو آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آیا ہے۔ اس حوالے سے کوئی ٹھوس بات ابھی سامنے نہیں آئی ہے،سب غیر مصدقہ اطلاعات ہیں لیکن ایسی اطلاعات پر تبصرہ کرنا یا اسے آگے بڑھانا درست نہیں ہے۔ فوج کی جانب سے کوئی با ضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے۔ا س لیے ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی ڈوریں آج وہ ہی ہلا رہے تھے۔ ا لیکن اس کا بھی کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ صرف کہانیاں ہیں، اس وقت جتنے منہ اتنی باتوں کی مصداق بہت سی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ لیکن سچ کیا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔
لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ بانی تحریک انصاف کو ان پر بہت اعتماد تھا۔ جب انھیں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ٹرانسفر کا مرحلہ آیا تو بانی تحریک انصاف نے کافی مزاحمت کی تھی۔ بعدازاں وہ اس مزاحمت کی وجوہات بھی بیان کرتے رہے۔ پاکستان میں ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ ایسا ہے جس کے سیاسی کردار پر کافی بات کی جاتی ہے۔ یہ کردار جنرل حمید گل کے دور سے سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سب لوگ مکمل خاموش ہو گئے۔ گوشہ نشینی میں چلے گئے۔
ان سب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کہانی سامنے نہیں آئی۔ ان کی خاموشی نے ان کی کہانیوں کو بھی دفن کر دیا۔ لوگ بھول گئے۔ لیکن لیفٹیننٹ فیض حمید کے حوالے سے ایسا نہیں ہوا، وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی زیر بحث رہے ہیں۔ بہرحال یہ پاکستان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ ماضی میں بھی کورٹ مارشل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس لیول کا کورٹ مارشل پہلے نہیں ہوا۔ کسی سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا پہلے فیلڈ کورٹ مارشل نہیں ہوا۔ دوران سروس اگر کسی جنرل کے بارے میں کوئی ناقابل برداشت بات سامنے آجائے جسے فوج کے ڈسپلن میں معاف نہ کیا جا سکے۔ تو جبری ریٹائرمنٹ کو ہی بڑی سزا سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن فوجی تحویل میں لینا اور اس طرح فیلڈ کورٹ مارشل کا اعلان یقینی طور پر غیر معمولی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس