آپ سب کو جشنِ آزادی مبارک ہو ۔ چلیں آج بات کھیلوں کی دنیا کی کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہ ملک قومی کھیل ہاکی، کرکٹ، اسکواش سے پہچانا جاتا تھا تینوں کھیلوں کے عروج اور زوال کی داستان کافی دردناک ہے ۔ مجھے آج بھی یاد ہے 1994 ورلڈ کپ کے ہیرو گول کیپر منصور جس نے فائنل میں گول روک کر ہمیں خوشیاں دیں،جب وہ اسپتال میں ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا سوائے چند دوستوں کے اور پھر اس کا انتقال ہو گیا اور پھر آہستہ آستہ ہماری ہاکی بھی رخصت ہوئی ۔ کیا آپ کو کراچی کے علاقہ کورنگی سے تعلق رکھنے والی نسیم حمید یاد ہے جس کا باپ بھی ایک مزدور تھا اور اس لڑکی نے اپنی محنت سے پاکستان کو سیف گیمز میں غالبا سلور میڈل دلوایا تھا اور کیا جشن منایاگیا تھا ۔ اس سے ہمارے حکمرانوں نے کیا کیا وعدے کئے تھے ۔ شاید ہی اس سے کیا ہوا کوئی وعدہ پورا ہوا ہو پھر وہ بیچاری الزامات کی زد میں آ گئی گول کیپر منصور کی طرح جس کو ڈرگ میں جیل بھی ہوئی اور وہ خود بتاتا تھا کس طرح اس کے خلاف جال تیار ہوا ۔
مجھے تو لیاری سے تعلق رکھنے والا وہ باکسر بھی یاد ہے جس نے برسوں پہلے کراچی میں ہونے والے بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیتا تو اس وقت اس نے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا نہیں کھایا ہوا تھا اور جیتنے کے بعد پہلی فرمائش اس نے کھانے کی کی۔ مجھے تو اس علاقہ کے وہ فٹبالر اور باکسر بھی یاد ہیں جو بے روز گاری کی وجہ سے جرائم کی دنیا میں چلے گئے ۔ کیا کبھی کسی نے پاکستان فٹبال فیڈریشن سے کبھی کوئی حساب کتاب لیا ہے۔ بس اللہ ہمارے ہیرو ارشد ندیم کو ان منافقوں کی نظربدسے بچائے ورنہ تو اسی پسماندہ علاقہ میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلی پنجاب بنایا گیا تو اس کو دل سے قبول نہیں کیا گیا بعد میں وہ نا معلوم افراد کے ہاتھوں مارے گئے اور کوئی نہیں تو کم ازکم لاہور پریس کلب تو کم از کم ان کو یاد کیا کریں کہ وہ کلب بنانے میں سارا کریڈٹ انہی کا ہے ۔ وہ رقم دینا چاہتے تھے عمارت بنانے کے لیے مگر نثار عثمانی صاحب نے کہا،وائین پیسہ نہ دیں عمارت بنا دیں۔
کھیلوں کی دنیا میں ہم کو بدقسمتی سے ایئر مارشل نور خان جیسا انتظامی سربراہ نہ مل سکا جن کے زمانے میں ہم ہاکی ، کرکٹ اور اسکواش میں نمبرون رہے۔ بعد میں بس چند ایک کو چھوڑ کر دونمبر ہی آئے اور آہستہ آہستہ پہلے قوم کا زوال ہوا پھر قومی کھیل کا۔ سلام ہے بھارت سے تعلق رکھنے والے چوپڑا کو جس نے سب سے پہلے اپنے مدمقابل حریف ارشد ندیم کے لیے آواز بلند کی کہ بھائی لوگوں کم از کم اس کو ایک اچھا نیزہ تو دلا دو۔ ارشد نے جو کچھ حاصل کیا صرف اور صرف اپنی انفرادی محنت سے خدارا اپنے اپنے سیاسی فائدہ کے لیے اسے استعمال نہ کریں ۔ دوسرے شعبوں کی طرح قومی کھیل ہاکی اور کرکٹ کو بھی کرپشن کھاگئی۔ کرکٹ میں تو ماشا اللہ ہم نے کرکٹ بورڈ کی زمین تک کوڑیوں کے دام بیچ ڈالی۔ اور کسی سے اعلی سطح پر تحقیقات کرا لیں کراچی نیشنل اسٹیڈیم کی 23 ایکڑ زمین کی ۔ پھر یہ پیسے کی ہوس کرکٹرز کو بھی لگ گئی۔ اور نامور کرکٹرز نے ملک کے وقار کا سودا کیا۔ ایک نہیں کئی کہانیاں ہیں۔اور کچھ نہیں تو جسٹس ملک قیوم کمیشن کی رپورٹ کا ہی تفصیلی جائزے لیلیں۔
ہمارے تو کھیلوں کے بورڈ میں بھی تقرری سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ ہمیں تو شرم بھی نہیں آتی کہ جائزہ لیں آخری77سال میں ایک ارشد ندیم ہی کیوں سامنے آیا اور وہ بھی کسی بورڈ کی سرپرستی کی وجہ سے نہیں اپنی محنت سے ۔احتساب کرنا ہے تو پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک فیڈریشن کا کہ ان کی کارکردگی کیا رہی ہے۔ بس اولمپک میں جاؤ اور عیش کرو۔ اب اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے قومی ہیرو عمران خان وزیراعظم بنے تو امید تھی کہ وہ کھیلوں کے فروغ میں اداراتی ریفارم کریں گے وہ خود کہتے تھے کہ بورڈ کا پیٹرن ان چیف صدر یا وزیراعظم کو نہیں ہونا چاہئے مگر وہ خود اس عہدہ پر فائز رہے۔ ڈپارٹمنٹ سے کھیلوں کا کوٹہ ختم کیا گیا تو بڑی تعداد میں کھلاڑی بے روزگار ہوگئے۔ خود ارشد ندیم بھی جو غالبا واپڈا میں نوکری کرتا تھا اِس کا شکار ہوا۔
ہماری آج تک کھیلوں کی کوئی قومی پالیسی ہی نہیں رہی سیاسی بنیادوں پرکھیلوں کی فیڈریشن اور بورڈ کے سربرا ہ مقرر کیے جاتے ہیں ۔ اب ہماری یونیورسٹی کی دوست شہلا رضا کا ہاکی سے کیا تعلق مگر وہ ہاکی ایسوسی ایشن کی صدر بنا دی گئیں۔محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی خالدمحمود ہوں یا کوئی اور اگر حکومتیں بدلنے سے کھیلوں کے سربراہ مقرر اور برطرف کئے جائیں گے تو حشر وہی ہوگا جو اِس وقت ہورہا ہے۔
ہم 80 کی دہائی سے دہشت گردی کا شکار ہیں مگر آج تک ہم نے اس بات کا جائزہ ہی نہیں لیا کہ کھیل کتنی بڑی تبدیلی لا سکتا ہے ۔ دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ میں ۔ ایک مثال دے کر بات ختم کرتا ہوں ۔ایک وقت تھا کہ کرکٹ کو قدامت پسند بہت زیادہ پسندنہیں کرتے تھے حد تو یہ تھی کہ فاسٹ بولر کے پینٹ سے بال رگڑنے کو بھی فحاشی کے زمرے میں لایا جاتا تھا آج پاکستان سے لے کر افغانستان تک عملا یہ پشتونوں کا تقریبا قومی کھیل بن گیا ہے۔
کھیل عدم برداشت ختم کرتا ہے۔ ہار کو حوصلے سے برداشت کرنا سکھاتا ہے۔ جیت پر خوشی اور شکر کے ملے جلے جذبات ہوتے ہیں۔ارشد ندیم، شکریہ تم مایوس قوم کے چہروں پر خوشیاں لائے اور بتایا کہ تم ہی اصل میں مسٹر اسپیڈ ہو۔ میاں چنوں والوں کو مبارک۔
بشکریہ روزنامہ جنگ