ارشد ندیم کے چار سبق : تحریر جاوید چوہدری


ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں کے گاؤں چک 115 ایل سے ہے والد محمد اشرف راج مستری ہے یہ لوگوں کے گھروں میں اینٹیں لگاتا ہے ارشد کے سات بہن بھائی ہیں اس کا قد اور ہڈیاں شروع سے ہی بڑی تھیں اسپورٹس کا جنون تھا اور اس جنون کی وجہ سے اس نے والد سے ٹھیک ٹھاک مار کھائی تھی یہ ہر قسم کی اسپورٹس کرتا تھا کرکٹ بھی کھیلتا تھا دوڑ بھی لگاتا تھا گولہ بھی پھینکتا تھا اور لانگ جمپ بھی لگاتا تھا ایک دن ڈسٹرکٹ خانیوال کے اسپورٹس کوچ رشید ساقی کی نظر اس پر پڑی اس نے دیکھا نوجوان کے بازو لمبے اور مضبوط ہیں اور اس میں جنون بھی ہے رشید ساقی کو یہ اچھا لگا اور اس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیاساقی ارشد ندیم کا پہلا سہارا تھا رشید ساقی نے اسے مشورہ دیا تم ساری اسپورٹس چھوڑ کر صرف نیزہ بازی پر توجہ دو اس نے اسے لکڑی کا ایک نیزہ بھی بنا دیا ارشد ندیم قدرتی طور پر فوکسڈ ڈسپلنڈ اور حیران کن حد تک اسپورٹس مین ہے لہذا اس نے اپنے آپ کو نیزہ بازی تک محدود کر دیا۔

پورے ڈسٹرکٹ خانیوال میں نیزہ بازی (جیولین) کے لیے کوئی میدان یا سہولت نہیں تھی چناں چہ اگر یہ کہا جائے ارشد ندیم آج جیولین میں ورلڈ چیمپیئن ہے تو یہ سارا اس کا ذاتی کارنامہ ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا آج سسٹم جو پرائڈ لے رہا ہے یہ تمام کا تمام مصنوعی اور منافقت پر مبنی ہے اس گولڈ میڈل کا اگرکوئی شخص حق دار ہے تو اس کا نام ارشد ندیم ہے کیوں؟ کیوں کہ اس شخص نے نیزہ بازی کا گولڈ میڈل نیزے کے بغیر لیا پیرس جانے تک اس کے پاس پروفیشنل جیولین نہیں تھا بلکہ رکیے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جو نیزہ پھینک کر گولڈ میڈل لیا پورے ملک میں ایسا نیزہ موجود نہیں اور یہ اس شخص کا اصل کمال ہے اور آج میں یہ سمجھ نہیں پا رہا ہم یہ حقیقت تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ ماؤنٹ ایوریسٹ یا کے ٹو پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے اترنا اور جھنڈا لگانا کوئی کارنامہ نہیں ہوتا اصل کارنامہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر پیدل چڑھنا اور اس سے بھی بڑھ کر آکسیجن ٹینک کے بغیر چڑھنا ہوتا ہے اور جو یہ کارنامہ سرانجام دیتا ہے چیمپیئن وہ ہوتا ہے۔

ارشد ندیم اس وقت ایسا چیمپیئن ہے اس نے یہ اعزاز نیزے گراؤنڈ جاگرز خوراک کوچنگ اور جدید ترین ایکسرسائز مشینوں کے بغیر حاصل کیا اور ہم اس پر جتنا بھی فخر کریں یہ کم ہے مگر ہم اسے یہ اعزاز دینے کے بجائے پوری دنیا اوراپنے آپ کو یہ یقین دلا رہے ہیں نہیں نہیں اگر عمران خان نہ ہوتے اگر میاں شہباز شریف یوتھ فیسٹیول نہ کراتے اور اگر پاکستان اولمپکس کمیٹی اس کی مدد نہ کرتی تو یہ کبھی کام یاب نہیں ہوسکتا تھا ہم ارشد ندیم کو بھی یہی بتا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے یہ شخص ان سب کے بغیر یہاں تک پہنچا اور یہ پاکستان کے ہر اس نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے جو دن رات وسائل کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔

ارشد ندیم 25 کروڑ لوگوں کو یہ پیغام دے رہا ہے آپ اگر زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پھر وسائل کی کمی یا مسائل کی زیادتی آپ کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی جسٹ ڈو اِٹ دنیا کی کوئی رکاوٹ آپ کا راستہ نہیں روک سکے گی مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی ہم یہ ماننے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟ ارشد ندیم ایک راج مستری کا بیٹا ہے یہ گاں کا رہنے والا ہے یہ مڈل سے آگے نہیں پڑھ سکا اس نے دیسی ہاتھ سے بنائے نیزے سے پریکٹس کی اسے آخری اسٹیج سے پہلے اچھی کوچنگ نہیں مل سکی یہ غربت میں پلا اس کے پاس ایکسرسائز کا سامان نہیں تھا اور اس نے سیمنٹ اور بانس سے ڈمبل بنا کر ایکسرسائز کی اور اسے 2023 سے پہلے سرکاری سرپرستی حاصل نہیں تھی اور اس شخص نے اس کے باوجود 40 سال بعد پاکستان کو گولڈ میڈل دلا دیا آخر یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے! ہم اس سے آنکھیں کیوں چرا رہے ہیں؟۔

ارشد ندیم کی کام یابی نے بہرحال ملک میں چار حقیقتیں اسٹیبلش کردیں اور ہمارے لیے مناسب ہے ہم یہ حقیقتیں مان لیں اس سے قومی سطح پر ہمیں بہت فائدہ ہو گا پہلی حقیقت قوم اچھی خبروں کو ترسی ہوئی ہے ہمیں ہر طرف سے مار پڑ رہی ہے اور ہمیں روزانہ ہر سمت سے بری خبریں ملتی ہیں اس عالم میں ایک گولڈ میڈل نے پورے ملک کو خوش کر دیا لوگ گلے مل کر خوشی سے رونے لگے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے ہمیں وٹامن خوشی کی اس کمی کا احساس کرنا چاہیے اور قوم کے لیے روزانہ کسی نہ کسی خوشی کا اہتمام کرنا چاہیے کہا جاتا ہے آپ کو اگر کام یابی یا خوشی نہیں مل رہی تو آپ اپنے لیے ایک خوشی یا کام یابی ایجاد کر لیں یہ ایجاد بھی آپ کو نارمل خوشی کے برابر خوشی دے گی دوسری حقیقت پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ دوسری اسپورٹس کی سہولتیں نہیں ہیں۔

ہم من حیث القوم اس غلط فہمی کا شکار ہیں دنیا میں صرف ایک ہی اسپورٹس ہے اور اس کا نام کرکٹ ہے جب کہ 1992 اور 2009 کے بعد کرکٹ نے قوم کو ہمیشہ اداس پریشان اور مایوس کیاپیرس اولمپکس میں اسپورٹس کی 32 کیٹگریز تھیں حکومت کو چاہیے یہ اولمپکس کی تمام گیمز کا ڈیٹا لے اور ان کے لیے چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں بنا دے اور انھیں ٹارگٹ دے یہ اگلے اولمپکس تک ارشد ندیم جیسے دو درجن کھلاڑی سامنے لے کر آئیں یہ کمیٹیاں پورے پاکستان سے ٹیلنٹ جمع کریں اور جس طرح میاں شہباز شریف نے 2012 میں لاہور میں یوتھ فیسٹیول منعقد کیا (ارشد ندیم بھی اسی یوتھ فیسٹیول میں پہلی بار سامنے آیا تھا) اس جیسے یوتھ یا اسپورٹس فیسٹیول تمام صوبوں میں کیے جائیں اور وہاں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو اسلام آباد لا کر فیڈرل فیسٹیول کیا جائے اور ان میں جو کھلاڑی سامنے آئیں ان کی انٹرنیشنل لیول کی کوچنگ کرائی جائے۔

حکومت صدیوں سے بنے ہوئے اسپورٹس بورڈ کا جائزہ بھی لے اور جو بورڈ پچھلے دس یا بیس سال میں کوئی بڑا تمغہ حاصل نہیں کر سکا یا ارشد ندیم جیسا ایک بھی کھلاڑی پیدا نہیں کر سکا وہ بورڈ توڑ کر اس کے بجٹ سے دس بیس جیولین لے کر ارشد ندیم جیسے کھلاڑیوں کو دے دیں یہ زیادہ بہتر ہو گا تیسری حقیقت ہمارا ملک بری طرح کریڈٹ لینے کی بیماری میں مبتلا ہے ارشد ندیم نے جوں ہی نیزہ پھینکا پورا ملک اس کام یابی کے کریڈٹ کے لیے دوڑ پڑا میاں چنوں میں اگر کسی شخص نے اس کھلاڑی کو کبھی ایک کلو دودھ بھی بیچا تھا تو اس نے دعوی کر دیا یہ میری بھینس کے دودھ کا کمال ہے اگر کسی نے ارشد ندیم کے والد سے اپنے گھر یا دکان میں دس اینٹیں لگوائیں تو اسے محسوس ہوا یہ اس کی نیک کمائی کا صلہ ہے۔

آپ میاں چنوں کے دودھ والے سے لے کر عمران خان تک سب کو دیکھ لیں ان سب کو وہ کارنامے یاد آ گئے جن کے نتیجے میں ارشد ندیم جیسا کھلاڑی پیدا ہوگیا سوچنے کی بات یہ ہے اگر یہ تمام لوگ اتنے ہی کاری گر تھے تو ان کا کارنامہ صرف ایک شخص تک محدود کیوں رہا؟نورے دودھی کی بھینس سے سیکڑوں لوگ مستفید ہوئے ہوں گے وہ اس دودھ سے اچھے کرکٹرز ہاکی کے پلیئرز یا ایتھلیٹ کیوں نہیں بن گئے؟ میاں شہباز شریف کے یوتھ فیسٹیول میں 1400 کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا اور عمران خان کے دور کے ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان کے صدر ریٹائرڈ جنرل اکرم ساہی کا دست مبارک سیکڑوں ہزاروں کھلاڑیوں کے سر پر رہا تھا لیکن وہ تمام کھلاڑی اس ہاتھ کی برکت سے کیوں محروم رہے؟ ان سب کو بھی تو ارشد ندیم بننا چاہیے تھا وہ کیوں نہیں بن سکے؟ بات سیدھی اور سچی ہے یہ کارنامہ صرف ارشد ندیم کا ہے اور یہ ہار صرف اور صرف اس کے گلے میں پڑنا چاہیے اور کریڈٹ کی دوڑ میں لگے تمام لوگوں کو اپنی ہار مان کر ارشد ندیم کی ہمت جرات اور محنت کو سلام کرنا چاہیے۔

انھیں یہ مان لینا چاہیے یہ شخص سسٹم سے بڑا ثابت ہوا اور اس نے پیرس کے اسٹیڈیم میں نیزہ پھینکنے سے پہلے اس ملک کے ہزاروں نیزے ننگے پاں کراس کیے تھے اور سسٹم کے کسی نیزے کو اپنی ہمت اپنی جرات اور اپنے حوصلے تک نہیں پہنچنے دیا تھا تاہم ہمیں میاں شہباز شریف کویہ کریڈٹ ضرور دینا چاہیے انھوں نے 2012 میں پنجاب میں یوتھ فیسٹیول اسٹارٹ کیے یہ بہت اچھی ایکٹویٹی تھی مگر افسوس یہ بھی بعدازاں بند ہو گئی اگر یہ سلسلہ چلتا رہتا تو ارشد ندیم جیسے دس بیس کھلاڑی اور بھی نکل سکتے تھے وزیراعلی پنجاب کو چاہیے یہ نہ صرف اسے دوبارہ اسٹارٹ کریں بلکہ پنجاب میں ٹیلنٹ ڈسکوری یونٹ بنا دیں یہ یونٹ ویب سائٹ بنائے ایک ٹول فری نمبر لے اور 24گھنٹے کھلنے والا دفتر بنائے پورے صوبے سے ٹیلنٹڈ نوجوان اس یونٹ میں خود کو رجسٹرڈ کرائیں ماہرین ان کا فن دیکھیں اور اس کے بعد ان کے ٹیلنٹ کو پروموٹ کریں اس سے ملک یا صوبے کا ذہن بدل جائے گا۔

ہماری چوتھی حقیقت یہ ہے ہم من حیث القوم سیاپے کی نین بن چکے ہیں ہم خوشی کو خوشی نہیں رہنے دیتے ارشد ندیم کا گولڈ میڈل پوری قوم کے لیے خوشی کا موقع تھا لیکن ہم نے اس میں بھی ایک دوسرے کی ٹرولنگ شروع کر دی پی ٹی آئی نے ن لیگ کو گالیاں دینا شروع کر دیں اور ن لیگ نے پی ٹی آئی کا سیاپا شروع کر دیا دوسری طرف قوم نے ارشد ندیم کی غربت اس کے گھر اور گاؤں کی حالت واپڈا کی ملازمت اور پھر اس ملازمت سے فراغت نیزے کی کمی اور سیمنٹ کے ڈمبل دکھا دکھا کر قوم کو اداس کر دیا ہم نے خوشی کے اس موقع کو بھی سیاپے میں بدل دیا یہ سیاپے کا وقت نہیں تھا یہ پرائیڈ اور فتح کا مقام تھا اور ہمیں چاہیے تھا ہم فخر سے ایک دوسرے کو بتاتے دیکھیں ارشد ندیم نے سہولتوں کے بغیر کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیا مگر ہم اس کے پھٹے ہوئے جوتے اور کچے گھر کی دیواریں دکھا دکھا کر سیاپا کرنے لگے ہمیں قوم کا یہ مزاج بھی بدلنا ہوگا ورنہ یہ سیاپا اداسی کی یہ سوداگری اور ایک دوسرے کی ٹرولنگ ہمارا سارا حوصلہ کھا جائے گی اورہم زندہ لاشیں بن کر رہ جائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس