حکومت مودی کے کشمیر میں ظالمانہ اقدامات روکنے کیلئے جامع حکمت عملی تشکیل دے،لیاقت بلوچ


میرپور (صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر ومرکزی سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ 22کروڑ پاکستانی عوام طلوع صبح آزاد ی تک اہل کشمیرکے شانہ بشانہ رہیں گے۔

میرپور میں ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام یوم یکجہتی کشمیرکے موقع پر یکجہتی کشمیرکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  لیاقت بلوچ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں ہندوستان کی افواج کی طرف سے مظالم کی انتہاہوچکی ہے،قابض بھارتی افواج جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہیں،انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،کالے قوانین کی آ ڑمیں جعلی مقابلوں اور ماورائے عدالت کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے،حکومت پاکستان مودی کے ظالمانہ اقدامات کے تدارک کے لیے ٹھوس پالیسی اور جامع حکمت عملی تشکیل دے،کشمیری شہداء سے بے وفائی نہ پہلے کسی کو راس آئی ہے اور نہ اب آئے گی،22کروڑ پاکستانی عوام کسی کو شہداء کشمیر سے بے وفائی نہیں کرنے دیںگے۔ یکجہتی کشمیرکانفرنس سے ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ثاقب اکبر ،ملی یکجہتی کونسل آزاد کشمیرکے صدر عبدالرشید ترابی ،ڈاکٹر ریاض احمد،سید محمود جعفری،علامہ طاہر نقوی،مولانااخلاق،جذبی،ملک اسلم،بشیر شگو،ڈاکٹر افتخار،انجینئر مبین اختر،سرداربابر،مولانا عتیق الرحمان،پروفیسر بشارت،مولانا حامد ربانی سمیت دیگر قائدین نے بھی خطاب کیا ۔

اپنے خطاب میں لیاقب بلوچ نے کہاکہ حکومت پاکستان کے مودی کے جواب میں مایوس کن اقدامات کے باعث مقبوضہ کشمیرمیں مایوسی کا پیغام جارہاہے۔ حکومت پاکستان ایٹمی پاکستان کی شان کے مطابق کشمیرپالیسی اپنائے ،آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار نہ کیا جائے۔ مودی کشمیر میں مسلم اکثریت کا اقلیت میں بدلنے کے لیے لاکھوں غیر کشمیری ہندووں کو ڈومسائل جاری کررہاہے۔ حلقہ بندیوںمیں تبدیلی کے نام پر ہندووں کے لیے سیٹیوںمیں اضافہ کررہاہے تاکہ ہندووزیر اعلیٰ لایاجائے،حکومت پاکستان کی کشمیرپالیسی کہاں ہے ،عالمی سطح پر ہندوستان اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرانے کی سازش کررہاہے اور ہم اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکے ۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عبدالرشید ترابی نے کہاکہ کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ محض علامتی یکجہتی اور تقریروں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اس کے لیے ٹھوس پالیسی جامع حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی،ہندوستان کی حکمت عملی سامنے رکھنے ہوئے اقدامات کرنے ہوںگے مودی کے ظالمانہ اقدامات کے باعث نہ صرف کشمیرمیں مظالم کی انتہاہے بلکہ ہندوستان کے اندر تمام اقلیتوں کو مظالم کا نشانہ بنایاجارہاہے ،ہندوستان کے اندر اب کوئی اقلیت محفوظ نہیں ہے،عبدالرشید ترابی نے کہاکہ حکمران جماعت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی کشمیرسے لاتعلقی وہ بھی لمحہ فکریہ ہے،بھارتی اقدامات کے خلاف ماسوائے جماعت اسلامی کے کوئی سیاسی جماعت موثر احتجاج نہ کرسکی۔وزیر اعظم کا ہر جمعہ احتجاج کا تسلسل بھی قائم نہ رہا،اس عرصہ میںحزب اختلاف کی جماعتوںنے اسلام آباد میں ایک دھرنا دیا جس میںکشمیر کا برائے نام ذکر تک نہ تھا،آزاد کشمیربیس کیمپ میں بھی کوئی موثر پروگرام نہ ہوا،اس ساری صورت کے مقبوضہ ریاست جموں کشمیرمیں بے پناہ منفی اثرات مرتب ہوئے ۔

قائد ین حریت پر مقدمات قائم کرتے ہوئے انہیں گرفتار کردیاگیا۔گراس روٹ سطح  پرسب سے منظم جماعت ،جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کے امیر سمیت ہزاروں ذمہ داران اور کارکنان کو گرفتار کرلیاگیا،ان کے دفاتر اور اثاثے ضبط کرلیے گئے،کشمیریوںکو معاشی لحاظ سے مفلوج کردیاگیا،صحافیوں حتیٰ کے سوشل میڈا پر اختلاف رائے رکھنے والوں کو گرفتا رکرلیاگیا،حراستی قتل مقاتلے کا سلسلہ بڑھ گیا،دو عظیم قائدین حریت  اشرف صحرائی اور  سید علی گیلانی کی حراستی شہادتوں پر متوقع ردعمل کو روکنے کے لے بدترین کرفیو نافذ کردیاگیا،حالات کے اس پس منظر میں تحریک آزادی زندہ توانا رکھنا سب سے بڑا اوراہم چیلنج ہے،اس لیے بھارتی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے کشمیریوںکے لیے امید کے چراغ روشن رکھنا نہایت اہم ہدف جو مندرجہ ذیل اقدامات سے ہی ممکن ہے قومی کشمیرپالیسی کا ازسر نو احیاکیاجائے،یعنی اقوام متحدہ کی قرارداووں کی روشنی میںحق خودارادیت کاحصول یہ بیانیہ ہوجسے قومی سیاسی قیادت،حکومت اپوزیشن وزرات خارجہ اور ادارے سب ایک پیج پر لے کر چلیں،موثر سفارتی اقدامات بالخصوص او آئی سی کا خصوصی اجلاس،افغانستان پر ہونا خوش آئند ہے لیکن کشمیرپر نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے،آئندہ اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں کشمیرفوکس رہے۔،آزاد جموں وکشمیرجو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بدقسمتی سے محض اقتدار کا اکھاڑا بن چکاہے۔

سیاسی عمل میں ریاستی تشخص کمزور ہونے کی وجہ سے قومی سطحُ پر پاکستان کی سیاسی تلخیاں آزاد کشمیر کے سیاسی کلچر کا حصہ بن گئیںیہ بیس کیمپ تحریک آزادی کا نہایت قیمتی اثاثہ ہے،ایسے نظریاتی بنیادوں پر تحریک آزادی کا موثر ترجمان بناتے ہوئے تحریک کی تقویت کا ذریعہ بنایا جائے اس سلسلہ میںاسے آئینی اور مالی لحاظ سے مزید وباوسائل اور بااختیار بنایا جائے۔بھارت نے اگست 2019کے اقدامات کے نتیجے میںریاست کے تشخص کو ختم کرتے ہوئے اسے ضم کرایا اس کے تدارک کے لیے ریاست کی وحدت اور تشخص کو مزید مستحکم کیا جائے،اس سلسلہ میںاس موقع پرآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کی تجاویز بھارتی موقف کی تقویت کا ذریعہ بن رہی ہیں،ا س لیے ان خطوں کو بطور بیس کیمپ کردار دیاجائے۔جس طرح افغانستان کے حوالے سے وزات خارجہ میں ایک فوکل پرسن تعینات کیا گیاہے اسی طرح کشمیرپر بھی ایک فوکل پرسن بطور نائب وزیر خارجہ تعینات کیا جائے۔قومی پارلیمانی کشمیرکمیٹی کے کردار کو مزید موثر بنایا جائے۔