(گزشتہ سے پیوستہ)
آج کی محضرات اس ادارتی صفحے پر انقطاعی تحریر ہیں۔ روزنامہ اخبار کی اپنی اشاعتی اور پس پردہ تحدیدات ہوتی ہیں جنکا احترام لکھنے والے پر لازم ہے۔ یار من عزیز از گل سر سبد کو غالب کا یہ پامال مصرع یاد دلانا تو آداب دوستی سے انحراف ہو گا کہ’ ’در پہ رہنے کو کہا اور کہ کے کیسا پھر گیا‘‘۔ قرارداد مقاصد سے ہمارا قومی نصب العین ایسا دھندلایا کہ ہم ایک جدید جمہوری ریاست کی بجائے بازار تقدیس فروشی میں قرم ساق بنکر رہ گئے۔ اس مشق استمراری کی تاریخ طویل، پیچیدہ اور چشم کشا ہے۔ اسے ہزار لفظوں کے چند اظہاریوں میں ملخص کرنا کارے دارد ہے ۔ پڑھنے والے احباب کے لئے یہ اطلاع ہی کافی ہے کہ ’اب کسی اور خرابے میں صدا دیگا فقیر‘۔ آج محض چند اختتامی نکات عرض کر کے اجازت چاہوں گا۔9 فروری 1949ء کو مشرقی پاکستان کی جمعیت علمائے اسلام کی دو روزہ کانفرنس کے خطبہ صدارت میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے کہا کہ ’پاکستان اس اصول پر حاصل کیا گیا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ جرأت سے کام لے کر یہ اعلان کر دے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ واضح رہے کہ بابائے قوم ہندوستان کے ہائی کمشنر سری پرکاش سے ’مسلم ریاست ‘اور’ اسلامی ریاست ‘ کی اصطلاحات پر بحث کر چکے تھے۔ قائداعظم مسلم ریاست اور اسلامی ریاست کا فرق خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اسلام کے بنیادی اصولوں یعنی برابری، انصاف اور رواداری کا ذکر کیا۔ قائداعظم نے کہیں ایسی اسلامی ریاست کا ذکر نہیں کیا جس کی رہنمائی مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں ہو۔ 21مئی 1947ء کو رائٹرز کے نمائندے ڈون کیمپ بیل کو انٹرویو دیتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا۔ ’پان اسلام ازم کا تصور مدت ہوئی ختم ہو چکا … پاکستان کے سیاسی بندوبست کا فیصلہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کریگی۔ بہرصورت پاکستان کی ریاست عوام کی نمائندہ اور جمہوری حکومت ہو گی۔ اسکی کابینہ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہو گی اور پارلیمنٹ ذات پات، مسلک یا مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر عوام کو جوابدہ ہو گی‘۔ اقلیتوں کے بارے میں اس انٹرویو میں قائداعظم نے کہا کہ ’مذہبی اقلیتیں پاکستان کی شہری ہونگی اور انہیں کسی امتیاز کے بغیر تمام حقوق ، سہولتیں اور شہریت کی ذمہ داریوں میں شریک کیا جائیگا‘۔ 1946ء میں مسلم لیگی ممبران اسمبلی کے دہلی کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کھلے لفظوں میں کہا کہ ’ہم کس چیز کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، ہمارا نصب العین کیا ہے۔ ہم تھیوکریسی کیلئے نہیں لڑ رہے ہیں، نہ ہمارا نصب العین تھیوکریٹک ریاست قائم کرنا ہے۔‘ قیام پاکستان کے بعد فروری 1948ء میں ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا، ’بہرصورت پاکستان تھیوکریٹک ریاست نہیں ہونیوالا ہے جہاں ملاؤں کی حکومت ہو، جن کا خیال ہے کہ انکو الوہی فریضہ سونپا گیا ہے‘۔ اس سلسلہ تحاریر کے ابتدائی حصوں میں قائداعظم کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر پر علامہ شبیر عثمانی کا ردعمل بیان کیا جا چکا ہے۔ علامہ صاحب کے حلقے کے ایک معتبر رکن مولانا احتشام الحق تھانوی کی آپ بیتی ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری نے مرتب کر رکھی ہے جس میں مولانا تھانوی نے قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر پر اپنے تحفظات صاف صاف بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کے صفحہ 39 پر ’پاکستان کی فکری تاریخ کا پہلا حادثہ ‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے کہ اس تقریر سے مولانا احتشام الحق تھانوی کے جذبات صادقہ کو سخت اذیت پہنچی۔ ایک جملہ ملاحظہ کیجئے۔ ’11 اگست کی دستور ساز اسمبلی کی تقریر نے قائد کے سیکولر خیالات اور نظام حکومت کے بارے میں انکے عزائم سے بالکل پردہ ہٹا دیا تھا لیکن یہ تاریخ کا ایسا جبر اور حالات کا ایسا دباؤ تھا کہ اس وقت اختلاف پیدا کرنا مصلحت شناسی اور دور اندیشی کیخلاف تھا اور ان جہاں دیدہ و گرم و سرد چشیدہ بزرگوں کے نزدیک آئندہ کے بہترین امکانات کو ختم کر دیتا۔ اسلئے خاموش ہو گئے اور مناسب وقت کے انتظار میں رہے۔ ان خیالات کی روشنی میں واضح ہے کہ شبیر عثمانی اور ان کے رفقا قائداعظم کی سیاست سے شدید اختلاف رکھتے تھے۔ انکی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے 25فروری 1949 ء کو کراچی میں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کا ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا جس میں ’قرارداد مقاصد ‘پرغور کیا گیا۔ مجوزہ قرارداد کی مخالفت کرنیوالوں میں جہاں آرا شاہ نواز، شوکت حیات ،غضنفر علی خان، غلام محمد، افتخار الدین اوراسکندر مرزا کے نام آتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کا اختلاف اصولی نہیں تھا۔ یہ لوگ دراصل اقتدار پر اجارہ دار ٹولے میںمذہبی لوگوں کو شریک کرنے سے خائف تھے ۔ 1985ء میں ضیاالحق نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کو دستور کا نافذالعمل حصہ قرار دیدیا تو وہ ’مناسب وقت‘ آن پہنچا۔ یکے بعد دیگرے عدلیہ میں متعدد آئینی درخواستیں دائر کی گئیں۔ صرف ایک فیصلہ دیکھ لیجئے۔ سپریم کورٹ نے حاکم خان بنام وفاق پاکستان مقدمے میں 19 جولائی 1992 ء کو اپنے فیصلے (P L D 1992 Supreme Court 595)میں لکھا۔ ’آئین کی تشریح کے قاعدے سے یہ باور نہیں ہوتا کہ آرٹیکل 2A ایک اعلیٰ آئینی شق ہے۔ کیونکہ اگر یہ اس کی حقیقی حیثیت ہے تو اس شق پر عملدرآمد کیلئے ایک مکمل طور پر نئے آئین کی تشکیل کی ضرورت ہوگی۔ اگر آرٹیکل 2A کا اصل مطلب اسے آئین کی دیگر شقوں پر بالادست قرار دینا تھا تو موجودہ آئین کے بیشتر آرٹیکل قرارداد مقاصد سے عدم مطابقت کی بنیاد پر قابل اعتراض ہو جائیں گے۔ موجودہ آئین کی تمام شقیں عدالتوں کے سامنے اس بنیاد پر قابل چیلنج ہوں گی کہ یہ دفعات’اللہ کی حدود‘ کی خلاف ورزی ہیں۔ آخری سوال یہ ہے کہ مولانا ظفر احمد عثمانی نے جنرل ضیا کی فرمائش پر اپنی بدنام زمانہ تحقیقی رپورٹ میں سیاسی جماعتوں کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ اگر سیاسی جماعتوں کا تصور غیر اسلامی ہے تو علامہ شبیر احمد عثمانی اور ان کے ہم نوا 1945ء کے لگ بھگ مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت میں کیوں شریک ہوئے تھے؟
بشکریہ روزنامہ جنگ