ایک چھوٹے سے شہر ’میاں چنوں‘ کے بیٹے 27سالہ ارشد ندیم نے گھپ اندھیرے میں ایسی شمع روشن کی کہ پورے جہان میں پاکستان جگمگا اٹھا۔
بڑے شہر کراچی، لاہور، پشاور دیکھتے رہ گئے۔
لگن، دھن اور منزل کے تعین کی بات ہوتی ہے۔ کتنی اسپورٹس انجمنیں ہیں۔ لاکھوں کروڑوں خرچ ہورہے ہیں۔ کرکٹ بورڈ ہے۔ ہاکی ایسوسی ایشن ہے۔ اسکواش اور جانے کیا کیا۔ لیکن اپنے فن اپنے کھیل سے عشق ایک فرد کو تھا۔ وہ حکومتوں کی سرپرستی سے ماورا اپنے فن پر توجہ دیتا رہا۔ ماں کی دعائیں ساتھ رہیں۔ 118سال کا ریکارڈ توڑنے میں سرخرو، مایوسیوں میں گھری قوم کو ایک حقیقی خوشخبری۔
اس لمحے اسے اسٹیڈیم میں بیٹھے ہزاروں تماشائیوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ایک انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب، اشرف المخلوقات، براہِ راست اپنے معبود کی بارگاہ میں سر جھکا رہا تھا۔ اب سرکاری مسندوں پر بیٹھے جعلی، اصلی، درد مند، سفاک، حکمراں لاکھوں کروڑوں کے انعامات کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے کسی ادارے، کسی شخصیت نے اس کے عزم کی تکمیل میں اپنا فرض ادا نہیں کیا۔
جب یہ مملکت خداداد وجود میں آئی تو ہم ہاکی، کرکٹ، والی بال، اسکواش، دوڑ اور تیراکی میں بہت آگے آگے تھے۔ پھر دولت کی ہوس سب سے بڑا کھیل بن گئی۔ اس کھیل میں سیاسی، غیر سیاسی سب قوتیں شامل ہو گئیں۔ صلاحیت کی بجائے علاقے سے وابستگی کو ترجیح دی گئی۔ کھیلوں پر بھی سیاستدان اور جنرل انچارج بنا دیے گئے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کئی کئی گولڈ میڈل جیتتا تھا۔ پھر اولمپکس میں، ٹورنامنٹوں میں کھلاڑی کم آفیشل زیادہ ہوتے چلے گئے۔ یہ داستان الم تو بہت طویل ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔
ارشد ندیم ایک مثال ہے۔ عروج کی بھی زوال کی بھی۔ ہمارے ہر قصبے میں ہر شعبے میں ایک ارشد ندیم موجود ہے۔ جس کے دل میں تڑپ ہے، آنکھ میں روشنی ہے، ذہن میں منزلیں ہیں۔ ہر نوجوان کے کئی خواب ہیں اور اس رحیم و کریم کا کتنا کرم ہے کہ 24کروڑ میں سے 60 فی صد آبادی نوجوان ہے۔ یعنی ضرب کاری ہے۔ بازوؤں میں توانائی ہے۔ مائیں غربت میں ہوں۔ مشکلات میں ۔ مگر ایسے بچوں کو جنم دے رہی ہیں ۔ باپ کتنی مفلسی میں ہو۔ وہ بھی اس ریاست کو ایسے شہری دینا چاہتا ہے جو زمانے بھر سے آگاہی رکھتے ہیں۔ جو اپنے عزائم سے مایوسیوں کو پچھاڑنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کے محلے، گلیاں، تعصبات سے بھرے ہیں۔ اسکولوں میں بلند خیالی کی بجائے بیزاری کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ شہر دولت مندوں کے تصرف میں ہیں۔ میرٹ کی ’ٹارگٹ کلنگ‘ ہورہی ہے۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور سوال جواب کا دن۔ حال احوال جاننےاور نماز عصر کے بعد محلے والوں سے ہمدمی اور ہم سخنی کے لمحات۔ آج سوالات ہوں گے بنگلہ دیش میں اضطراب اور بیداری کے بارے میں۔ برطانیہ میں سفید فاموں کے مسجدوں پر حملوں سے متعلق۔ ’’جماعت اسلامی نے دھرنے سے کیا پایا‘‘ کا استفسار ہوگا۔ لیکن ہمارے بچے۔ ہمارا مستقبل۔ اس نیزے، اس جویلین کے مناظر پر بات کریں گے کہ ایک پاکستانی نوجوان نے جو کسی وزیر،کسی سفیر، کسی سالار کا رشتہ دار نہیں ہے۔ کسی سینیٹر کا بھانجا بھتیجا نہیں ہے۔ کسی کارخانے دار کا عزیز نہیں ہے۔ اس نے پاکستان کا نام روشن کردیا۔ سوشل میڈیا پر یہ نیزہ چھایا ہوا ہے۔ نیزوں پر صرف سر نہیں لٹکتے گولڈ میڈل بھی آویزاں ہوتے ہیں۔ ارشد ندیم کو داد دیجئے کہ اس کی عمر کے 27سال۔ 1997 سے 2024 کیسے بحرانی سال تھے۔ ان میں وہ کس طرح اپنی آرزوؤں کی حفاظت کرسکا۔
سچے عزم، خواب، تمنّائیں ، آشائیں، صلاحیتیں، جواہر، چند گز کے کچے مکانات میں بھی اُگ سکتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ یہ اونچے محلوں میں رہتے افسروں کو نظر نہیں آتے۔ ہر زبان بولنے۔ ہر نسل سے تعلق رکھنے۔ ہر صوبے میں رہنے والے ہر شعبے میں ہر فن میں یکتا ہو سکتے ہیں۔ ارشد ندیم کی پیشانی، دور رس نگاہیں، متوازن اعضا، ستواں جسم۔ سفارشوں ،رشوتوں، سرمایوں ،اثاثوں کو للکار رہا ہے۔ اس کا 92.97 میٹر پر پھینکا ہوا نیزہ۔ اس فاصلے کا ایک ایک انچ ان خاندانوں کو چیلنج دے رہا ہے جو ہر کھیل ہر شعبے پر حاوی ہو گئے ہیں۔ کتنی صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں۔ کتنے گولڈ میڈل ہماری راہ تکتے دوسرے ملکوں کے نوجوانوں کو چلے جاتے ہیں۔
ارشد ندیم کیلئے قوم جس طرح دل کی گہرائی سے دعائیں کررہی تھی۔ رات گئے تک اس خبر کیلئے جاگ رہی تھی۔ پھر اس کی 92.97 میٹر تک یلغار پر جس طرح خوش ہوئی ہے۔ چند لمحوں کیلئے بجلی کے بلوں کو بھول گئی۔ کچھ ثانیوں کیلئے حافظ نعیم الرحمن کے دھرنے کو بھی اہمیت نہیں دے رہی تھی۔ لیاقت بلوچ۔ معاہدے کی شقیں بلند آواز سے پڑھ کر سنارہے تھے۔ تالیاں بج رہی تھیں۔ اسٹیج پر عطاء اللہ تارڑ اور محسن نقوی بھی کھڑے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ دھرنا ختم کر دیا جائے۔ یہ تو دھرنے کے ہزاروں شرکاء سے پوچھنا ہوگا کہ کتنے مطالبات مانے گئے۔ کتنے نظر انداز کردیے گئے۔ دور دراز شہروں سے آنے والے صالحین متفقین اپنے گھر والوں کو، شہر والوں کو اس جدو جہد کا حاصل کیا بتائیں گے۔ ’حافظ۔ حافظ‘ کی صدائیں ذہنوں میں کب تک گونجتی رہیں گی۔
ارشد ندیم جیسے نوجوان ہی ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں۔ لیکن انکی کمند کو راستے میں روکا جاتا ہے۔ کمند پر کمندیں مارنے والے بہت طاقت ور ہیں۔ یہ ہمارے مستقبل کی راہ میں بھی ناکے لگاتے ہیں۔ جتنے سال بعد ایک گولڈ میڈل ملا ہے۔ چالیس سال کا عرصہ کہا جارہا ہے۔ ان چالیس برسوں میں کون کون حکمران رہا ہے۔ سونے کے حصول میں کس نے رکاوٹیں ڈالیں۔ سونے کی کان ریکوڈک سے سونا کیوں برآمد نہ کیا جاسکا۔ ان چالیس سال میں ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، والی بال، ٹینس، بیڈمنٹن، ایتھلیٹکس، تیراکی کی ایسوسی ایشنوں پر کن کی سربراہی تھی۔ سوال تو بنتے ہیں۔کیے بھی جارہے ہیں۔ لیکن جواب کون دے گا۔ جواب دینے والے تو اب بھی ان مسندوں پر بیٹھے ہیں۔ ہر اولمپکس ایسے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ارشد ندیم ہمارا فخر بن چکا ہے۔ اس کی آرزو ہے کہ ہم 14اگست کو جشن آزادی اس گولڈ میڈل کے ساتھ منائیں۔ کیا ہمارے صدر، وزیراعظم، سیاسی رہنما، ریاستی اداروں کے سربراہ زحمت کریں گے کہ پارلیمنٹ کی بلڈنگ کے سامنے ارشد ندیم کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ کہنے کی جرأت کریں۔ ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘۔
بشکریہ روزنامہ جنگ