یہ ایک لاپتہ رکن قومی اسمبلی کی کہانی ہے۔ میں نے یہ کہانی سنی تو مجھے زمزمہ توپ یاد آ گئی۔ وہی توپ جو لاہور کی شاہراہ قائداعظم پر عجائب گھر کے سامنے عرصہ دراز سے ایک عجوبے کے طور پر کھڑی ہے۔ زمزمہ توپ کا اس کہانی سے کیا تعلق ہے؟ تو پہلے آپ بھی یہ کہانی سنیں۔ قومی اسمبلی کے اس لاپتہ رکن قومی اسمبلی کا نام حاجی امتیاز احمد چوہدری ہے۔ حاجی صاحب 8فروری کے الیکشن میں این اے 68منڈی بہاؤ الدین سے ڈیڑھ لاکھ ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ وہ تحریک انصاف کے امیدوار تھے لیکن الیکشن سے صرف تین ہفتے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان بلا چھین لیا لہٰذا حاجی صاحب کو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنا پڑا لیکن اس کے باوجود ان کے مقابلے پر مسلم لیگ ن کا امیدوار 70ہزار سے کچھ اوپر ووٹ حاصل کر سکا۔ سپریم کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حق واپس ملا تو حاجی صاحب ان 41ارکان قومی اسمبلی میں شامل تھے جنہوں نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف سے اپنی وابستگی کا حلف نامہ دینا تھا۔ انہوں نے پارٹی قیادت کو حلف نامہ تو دیدیا لیکن ان سے کہا گیا کہ آپ مسلم لیگ ن میں شامل ہو جائیں۔ انکار پر محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب نے ان پر ایک مقدمہ درج کر لیا اور پھر وہ گرفتار کر لئے گئے۔ گرفتاری کے بعد کہا گیا کہ اگر مسلم لیگ ن میں نہیں جانا تو پیپلز پارٹی میں شامل ہو جاؤ۔ حاجی صاحب نے انکار کیا تو کہا گیا کہ آپ سنی اتحاد کونسل میں ہی رہیں لیکن تحریک انصاف میں نہ جائیں۔ اس دوران ان کا مقدمہ عدالت میں پہنچاتو جس شخص پر الزام تھا کہ حاجی صاحب نے اس سے رشوت لی اس نے الزام کو جھوٹا قرار دیدیا۔ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی نے حاجی امتیاز کا پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا۔ اب حاجی صاحب کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں لانا ضروری ہو گیا تھا لہٰذا پنجاب پولیس نے دعویٰ کیا کہ ہم منڈی بہاؤ الدین میں حاجی امتیاز کے ایک ٹھکانے سے رشوت کی رقم برآمد کر کے واپس گوجرانوالہ آ رہے تھے کہ حاجی امتیاز کے ساتھیوں نے پولیس پر حملہ کر دیا اور ملزم کو چھڑا کر بھاگ گئے۔ پنجاب حکومت نے سپیکر قومی اسمبلی سے کہا کہ حاجی امتیاز ہماری تحویل میں نہیں ہے بلکہ مفرور ہے۔ سپیکر صاحب کو اچھی طرح پتہ تھا کہ اصل بات کیا ہے لیکن انہوں نے اپنے لاپتہ رکن قومی اسمبلی کی بازیابی کیلئے پنجاب حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ یہ کہانی سن کر مجھے ایسا لگا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور زمزمہ توپ میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کو صرف نمائش کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ سے وہ قانون منظور کرایا جاتا ہے جس کا حکم پارلیمنٹ کے باہر سے آتا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے کا سپیکر پولیس کے ایک جھوٹ کے سامنے بے بس ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتی۔ فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا تو تحریک انصاف کو بہت سی مخصوص نشستیں مل جائیں گی۔ مخصوص نشستیں مل گئیں تو وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا آسان ہو جائے گا۔ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ گئی تو پھر وفاقی حکومت بھی مشکلات میں پھنس جائے گی لہٰذا پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں بچانے کیلئے سپریم کورٹ کو بھی زمزمہ توپ بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جس کے احکامات کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں آئین و قانون بھی زمزمہ توپ بن جائے گا۔پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی اندرونی لڑائی پاکستان کی بقا کیلئے بہت بڑا خطرہ بن رہی ہے۔ ادارے یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ ایک دوسرے کو فتح کرنے کی کوشش میں وہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو زمزمہ توپ میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اداروں میں لڑائی ختم ہو گئی تو سب سے زیادہ نقصان ان افراد اور جماعتوں کا ہو گا جو اس لڑائی کی وجہ سے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ آپس میں لڑنے والوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوامیں ریاست کی عمل داری تیزی سے ختم ہو رہی ہے؟ پہلی دفعہ پنجاب اور اسلام آباد میں بھی ایک بڑی جنگ کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو نتیجہ صرف تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہمارے سامنے بنگلہ دیش کی مثال موجود ہے۔ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی معیشت کو تو مضبوط کیا لیکن الیکشن میں دھاندلی اور مخالفین کی پکڑ دھکڑ نے جو نفرت پیدا کی اس نے حکومت کو غیر مقبول کر دیا۔ حسینہ واجد نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی لیکن ان کے خلاف احتجاج میں کمی نہیں ہوئی۔ احتجاج کو روکنے کیلئے حسینہ واجد نے واٹس ایپ اور انسٹا گرام سے لیکر یو ٹیوب تک سب کچھ بند کر دیا ہے لیکن وہ اسی انجام کی طرف بڑھ رہی ہیں جو 2022میںسری لنکا میں راجہ پکسا کی حکومت کاہوا تھا۔ بنگلہ دیش کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد پانی پت کی تیسری لڑائی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ پانی پت کی تیسری لڑائی مجھ گستاخ کو ایک دفعہ پھر زمزمہ توپ کی طرف لے جاتی ہے۔ زمزمہ توپ پہلی دفعہ پانی پت کی تیسری لڑائی میں استعمال ہوئی تھی۔ افغان حکمران احمد شاہ ابدالی نے لاہور میں دو توپیں تیار کرائی تھیں۔ 1761میں پانی پت میں ہندو مرہٹوں کے خلاف لڑائی میں ان دو توپوں کے علاوہ قلات کے بلوچ حکمران میر نصیر خان نوری نے اہم کردار ادا کیا تھا جو اس لڑائی میں احمد شاہ ابدالی کے اتحادی کی حیثیت سے اپنے 15ہزار جنگجوؤں کے ساتھ شریک تھے۔ ہندو مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی اور میر نصیر خان نوری کے پختون بلوچ اتحاد کی فتح کے بعد دونوں زمزمہ توپوں کو واپس لاہور لایا گیا۔ ایک توپ لاہور میں چھوڑ دی گئی۔ دوسری توپ قندھار لیجائی جا رہی تھی کہ دریائے چناب کے طوفان میں غرق ہو گئی۔ لاہور والی توپ بعد میں بھنگیوں کی توپ بھی کہلائی لیکن ابدالی کی فوج نے اسے زمزمہ کا نام دیا تھا۔ میر نصیر خان نوری کے دور میں گوادر کو عمان کے حکمران تیمور سلطان کے حوالے کیا گیا تھا۔ گوادر 1958میں ملک فیروز خاں نون کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔ آج گوادر اور پشاور میں ریاستی اداروں کو غیر ریاستی عناصر کی مزاحمت کا سامنا ہے لیکن اسلام آباد اور لاہور میں ریاست کا ایک ادارہ دوسرے ادارے سے ٹکرا رہا ہے۔ اس لڑائی میں عدلیہ کی شکست دراصل آئین و قانون کی شکست ہو گی جس کے بعد گوادر اور پشاور میں ریاست کی عمل داری بھی زمزمہ توپ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ حسینہ واجد جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر کچھ حاصل نہ کر پائے گی۔ شہباز شریف کی حکومت کو تحریک انصاف پر پابندی لگا کر کچھ نہ ملے گا۔ اداروں کو پانی پت کی تیسری لڑائی کی طرف دھکیلنے کی بجائے لڑائی سے بچانے کی کوشش کریں۔ حسینہ واجد کے راستے پر نہ چلیں۔ اس راستے پر چلیں جہاں اپنا اقتدار بچانے کیلئے کسی حاجی امتیاز کو لاپتہ نہ کرنا پڑے اور آئین و قانون زمزمہ توپ کی طرح کوئی نمائشی عجوبہ نہ بن جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ