ہماری صحافت اب تھڑے بازوں کی گپ شپ میں بدل چکی ہے اور اِن دنوں مقبول ترین موضوع یہ طے کرنا ہے کہ اپریل 2022 سے میر جعفروصادق کو مسلسل للکارنے والوں نے عمر ایوب خان کے ذریعے صلح کا پیغام کیوں دیا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اٹھایا سفید جھنڈا شاید نظرانداز کردیا جاتا۔ ان کے صلح جویانہ پیغام کے دوسرے روز مگر بانی تحریک انصاف کی ہمشیرہ علیمہ خان صاحبہ کی اپنے بھائی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات ہوئی۔ ان کے توسط سے بھی عمران خان نے ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے سربراہ کو نیوٹرل ہونے کے مشورے دیے۔
ریاستی اداروں کو نیوٹرل ہونے کے مشورے دینے والے چند ہی دن قبل تک پھیپھڑوں کا زور لگاکر اصرار کیا کرتے تھے کہ حق اور ناحق کے مابین معرکوں کے دوران فقط جانور ہی نیوٹرل رہا کرتے ہیں۔ ریاستی ادارے تو ویسے بھی حب الوطنی کے حتمی ترجمان اور محافظ ہیں۔ بیرونی قوتوں کے مبینہ ایما پر اگر چند مفادپرست سیاستدان باہمی اختلافات بھلاکر عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت کو تھلے لگانا چاہیں تو انھیں غیر جانب داری بھلادینا چاہیے۔
بہرحال ماضی کے گلے شکوے بھلاکر تحریک انصاف کے قائد (ان کے بقول) جنگل کے بادشاہ سے اب صلح کو آمادہ ہیں۔ ان کے رویے سے شہباز حکومت کے نمائندوں کا فکر مند ہونا فطری تھا۔ رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایسی ہی فکر مندی کا اظہار کیا۔ ان کے بیان کے بعد میرے کئی ساتھی بھی محلاتی سازشوں کے ایک اور دور کی سن گن لگانے میں مصروف ہوگئے۔ شہباز حکومت کے خلاف ممکنہ طورپر لگائی ایسی سازش کی تلاش شروع ہوگئی جو 2021 کے برس کے آخری تین مہینوں میں عمران حکومت کے خلاف لگائی گئی تھی۔ گزشتہ دو دنوں سے مجھے بھی ٹیلی فون کالوں کے ذریعے چند دوست مذکورہ موضوع پر سوچنے اور اندر کی بات ڈھونڈنے کو اکساتے رہے۔ جی مگر اس جانب مائل نہیں ہوا۔
عمر ایوب خان اور علیمہ خان صاحبہ کی جانب سے صلح جویانہ پیغامات برسرعام آنے کے بعد یہ سوچنے کو تاہم مجبور ہوگیا کہ تحریک انصاف سڑکوں پر احتجاج کے نام پر کوئی تگڑا شو نہیں لگائے گی۔ اڈیالہ جیل سے آئے صلح جویانہ پیغامات نے احتجاجی تحریک کے پر ممکنہ پرواز سے قبل ہی کاٹ دیے۔ ایسے میں میرے سمیت تمام میڈیا کی توجہ ازخود جماعت اسلامی کے دھرنے کی جانب مبذول ہوگئی۔ منزل اس کی اسلام آباد کا ڈی چوک تھا۔
1970 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں لاہور احتجاجی تحریکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ایوب خان کی حکومت ختم ہوجانے کے بعد بھی جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں نظریاتی جنگیں لڑتے رہے۔ بھٹو حکومت کے قیام کے بعد بنگلہ دیش نامنظور کے علاوہ بھی کئی تحاریک کو سختی سے کچلنا پڑا۔ 7مارچ 1977 کے انتخابات کے بعد مگر دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو اسے ریاستی قوت سے قابو میں لانا ناممکن ہوگیا۔ میں اس تحریک سے دو برس قبل لاہور سے اسلام آباد منتقل ہوچکا تھا۔ بی بی سی ریڈیو کے ذریعے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کی خبریں سنتا تو جی اداس ہوجاتا۔ اسلام آباد بقیہ پاکستان سے کٹا خاموش وبے جان جزیرہ محسوس ہوتا۔
فقط ایکشن دیکھنے کی تمنا میں بھٹو حکومت کے خلاف مارچ 1977 سے جولائی 1977 تک جاری رہی تحریک کے دوران ازخود لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں جاکر سیاسی موڈ جاننے کی کوشش کرتا۔ ان دنوں دریافت یہ بھی ہوا کہ کراچی سے پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ یہ سوچ کر بھی ہوا تھا کہ ریاست کو عوام کے برپاکیے شورشرابے سے محفوظ رکھا جائے۔ کراچی میں احتجاجی جلوس بآسانی وزیر اعظم کے دفتر کے باہر پہنچ جایا کرتے تھے۔ حکومتی نظام ان جلوسوں کی وجہ سے اکثر مفلوج ہوجاتا۔
احتجاجی تحاریک کا طالب علم ہوتے ہوئے میں نے 1960 کی دہائی میں آباد کیے اسلام آباد کے محلوں اور شاہراہوں کا ماہرین تعمیرات سے گفتگو کے بعد جائزہ لیا۔ علم سماجیات کے ماہرین سے بھی طویل گفتگو ہوئی ۔ ان کی رہنمائی میں اسلام آباد کے تعمیراتی ڈیزائن کا ازسرنوجائزہ لیا تو احساس ہوا کہ اس شہر کی تعمیر میں یہ خواہش مضمر ہے کہ احتجاجی جلسے اور جلوس بآسانی کنٹرول کیے جاسکیں۔ یہ شہر روایتی محلے داری کی یگانگت سے محروم بنیادی طورپر سرکاری ملازمین کا شہر جو پاکستان کے مختلف شہروں سے یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ نوکری پیشہ اور اپنے کام سے کام رکھنے والے افراد۔
اسی شہر میں لیکن جنرل ضیا کے مارشل لا کے چند ہی ماہ بعد مسلکی وجوہات کی بنیاد پر ایک طویل دھرنا ہوا۔ مظاہرین کو ریاستی قوت سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے ان کے مطالبات کی منظوری کے بعد گھر لوٹنے کو مائل کیا گیا۔ 1990 کی دہائی کے اختتام تک مگر ہمیں ویسے دھرنے دیکھنے کو نہیں ملے۔ رواں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں البتہ حافظ طاہر القادری نے سیاست نہیں ریاست بچانے کے لیے اس شہر میں طویل دھرنا دیا۔ بعدازاں، وہ چند ماہ کے لیے عمران خان کے کزن بھی ہوگئے اور 2014 میں تحریک انصاف اور ان کی جماعت نے طویل دھرنا دیا۔ مذکورہ دھرنوں کے بعد سے اسلام آباد اب دھرنوں کے لیے ڈیزائن ہوا شہر ہی دکھائی دے رہا ہے۔ تقریبا ہر دوسرے تیسرے مہینے اب یہ شہر راولپنڈی سے کٹ جاتا ہے۔ اس کی بے پناہ انداز میں پھیلی آبادی کو اپنے دفاتر یا روزمرہ کے دیگر فرائض سے نبردآزما ہونے کے لیے شاہراہوں کے بجائے چورراستوں سے معمول سے کم از کم دو گنا وقت میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے میں صرف کرنا پڑتا ہے۔
چند ہی روز قبل تحریک لبیک نے اسلام آباد کو تقریبا 5 دنوں تک مفلوج رکھا۔ جمعہ اور ہفتے کے دن سے یہ شہر جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک کا یرغمال بنا ۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر نے نہایت ذہانت سے بجلی کے ناقابل برداشت بلوں سے نجات اپنی تحریک کا اولین ہدف ٹھہرایا ہے۔ ان کے لگائے شونے تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک سے رونق اچک لی ہے۔ عوام کے لیے اہم ترین اور ناقابل برداشت مسئلہ کے حل کے لیے احتجاج کرتے ہوئے جماعت اسلامی مگر اسلام آباد کے اکثرشہریوں کو پریشان وناراض کررہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت