جب سے سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا حقدار تحریک انصاف کو قرار دیا ہے تو اس وقت سے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے مریم نواز، عظمیٰ بخاری اور خواجہ آصف نے انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ریمارکس ان ججز کے خلاف دیئے ہیں عظمیٰ بخاری نے تو ان جج صاحبان کی بیویوں پر بھی قابل اعتراض جملہ بازی کی ہے جبکہ ان پر کوئی بات کرے تو وہ غصے سے لال پیلی ہو جاتیں ہیں
جب” کرش ” کا بے بنیاد افترا باندھے گے تو پھر کس نے کس کا گھر اجاڑ ___کی بات بھی لوگ کریں گے لہذا مسلم لیگی ہاکس سے عرض ہے
اتنی نہ بڑھا پاکئ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
جس وقت لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو سو روپے کے اسٹامپ پیپر پر شہباز شریف کی سفارش پر دو ماہ کے لیے علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی تھی تو وہ چار سال بعد واپس آئے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی سفارش پر تمام مقدمات واپس لے لیے مریم، کیپٹن صفدر، شہباز شریف حسن، حسین سب کے مقدمات راتوں رات ختم کر دئیے گئے میاں نواز شریف کی تا حیات نا اہلی سپریم کورٹ نے ختم کی عمران خان کی حکومت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کر کے تحریک عدم اعتماد کی راہ ہموار کی تو اس وقت مسلم لیگ ن عدلیہ کی انصاف پسندی کے قصیدے پڑھ رہی تھی مگر جونہی سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں نوے روز میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تو نہ صرف اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے ایک دو سا تھی ججز کی کردار کشی کی مہم بھی مسلم لیگ ن اور ان کے حواریوں نے اسی طرح شروع کر دی تھی جیسے آج آٹھ ججز کے خلاف شروع کی ہوئی ہے مسلم لیگ ن کا وتیرہ ہے کہ جب وہ حکومت میں عوام کے لیے کچھ ڈلیور کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی شروع کر دیتی ہے اس دفعہ چونکہ وہ اقلیتی مینڈیٹ ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی سے فارم 47 پر اقتدار میں آئی ہے اور ان کی گردن اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے میں ہے لہذا ان کے خلاف تو وہ محاذ آرائی کر نہیں سکتے ہیں تو انہوں نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان ججز کے خلاف محاذ آرائی کا بازار گرم دیا ہے جو کوئی بھی فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں دیں یا عمران خان کو کوئی عدالتی ریلیف ان سے ملےاب تو انہوں نے تین کڑوڑ پاکستانیوں کی جماعت کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر لگتا ہے وہ کڑووں کالجوں یونیورسٹیوں کے لڑکے لڑکیوں کو بھی دہشت گرد قرار دیں گے جو ان کے حمایتی ہیں مگر حیرانی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ تو دور کی بات یورپ، امریکہ کی حکومتیں ان دہشت گردوں کے لیڈر کے حق میں کانگریس اور پارلیمنٹ میں قرار دادیں پیش کر رہے ہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اگر مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو مل بھی جائیں، جو ان کا جائز حق ہے تو حکومت کے وجود کو کیا خطرہ ہے مگر چونکہ دل میں بے بنیاد خدشات اور 55 حلقوں کے نتائج میں گھڑ بڑ کے بے نقاب ہونے کے ڈر اور اپنی افتاد طبع سے مجبور مسلم لیگ ن نے آنے والے نئے چیف جسٹس اور ان کے ساتھ اکثریتی ججوں کے ساتھ غیر ضروری محاذ آرائی کا بازار گرم کر دیا ہے کبھی ایمرجنسی تو کبھی پی سی او کے تحت حلف کی بات کی جا رہی ہے کیونکہ حکومت کی عوام میں کچھ حمایت نہیں ہے لہذا وہ عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کی بجائے عدلیہ اور تحریک انصاف سے لڑائی کے موڈ میں ہے نومبر 1997 کا تیسرا ہفتہ تھا جب نواز شریف حکومت نے عدلیہ کے خلاف ایسی ہی محاذ آرائی کا بازار گرم رکھا تھا نامور دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار ارشاد احمد حقانی مرحوم اپنے کالموں میں رقم طراز ہیں “میں معمول کے مطابق میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی سننے کے لیے عدالت میں موجود تھا تو اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ سپریم کورٹ بار کے صدر جناب اکرم شیخ زخمی حالت میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ خواجہ آصف اور پرویز رشید نے ان پر حملہ کیا ہے اور شدید زدوکوب کرکے انہیں زخمی کر دیا ہے حالانکہ اکرم شیخ صاحب کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہ تھا مگر چونکہ وہ چیف جسٹس کے موقف کی حمایت کررہے تھے تو مسلم لیگ ن کے لوگوں کے لیے قابل نفرت ٹھہرے جمعہ کے روز جب سپریم کورٹ پر مسلم لیگ ن کے لیڈران اور کارکنوں نے یلغار کی تو میں عدالت میں موجود تھا چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ حکومتی وکیل ایس ایم ظفر کے دلائل سن رہا تھا تو اچانک ایک شخص بھا گتا ہوا آیا اور اونچی آواز میں کہا کہ سپریم کورٹ پر حملہ ہو گیا ہے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے طنز بھرے لہجے میں ایس ایم ظفر کا شکریہ ادا کیا اور تمام جج صاحبان کمرہ عدالت سے فوراً اٹھ کر چلے گئے ہر طرف ہڑبونگ تھی ججز کے خلاف دشنام طرازی، نعرہ بازی اور گالی گلوچ ہو رہی تھی وکلاء، صحافی اور عام لوگ گھبراہٹ کے عالم میں منتشر ہو نے لگے اس سے پہلے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب صدر فاروق لغاری نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں واشگاف انداز میں کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کوئٹہ بنچ کا فیصلہ کر نے سے پہلے بنچاب کی کون سی اہم شخصیت وہاں گئ اور انہوں نے کن کن ججز سے ملاقات کی ان کا واضح اشارہ جسٹس رفیق تارڑ کی طرف تھا چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا تقرر 1994 میں در ست تھا یا غلط مگر کسی آئینی فورم نے ان کی تقرری کو کالعدم قرار نہیں دیا تھا لہذا ان کے خلاف مخالف ججز کے بنچ بنا کر انہیں منصب سے محروم کر نا کوئی صائب طریقہ نہ تھا پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی” سجاد علی شاہ کے خلاف طاقت اور جمک کے استعمال سے نواز شریف کے حوصلے بلند
ہوئےتو انہوں نے فاروق لغاری اور جہانگیر کرامت کو دو تہائی اکثریت کے زعم میں فارغ کیا مگر مشرف کو بھو نڈے طریقے سے ہٹانے پر انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا مگر آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی شہ پر حکومت عدلیہ کے ساتھ محض اس لیے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے کہ وہ ان کے سیاسی حریف کے ساتھ نا انصافی کرنے سے انکاری ہے اس وقت کوئی باشعور پاکستانی اس حقیقت کی صداقت سے انکار نہیں کر سکتا ہے کہ ملک کی غالب اکثریت سماجی، اقتصادی، سیاسی حالات اور ہابریڈ نظام حکومت سے مطمئن نہیں ہے قانون کی حکمرانی کا فقدان، بلائی طبقات کا استحصالی رویہ اور عوام کی مختلف النوح محرومیوں اور معاشی بد حالیوں سمیت لاتعداد سنگین عوارض نے ہمارے قومی وجود کو انتہائی لاغر اور قریب المرگ کر دیا ہے ایسے میں ارباب بست وکشاد سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر معروضی حالات کا ادراک کر تے ہوئے تحریک انصاف کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر اپنے آپ کو منزہ عن الخطا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں اگر حکومت اور ریاست نے اپنے تعصبات اور منتقم المزاجی سے بالاتر ہو کر نہ سوچا تحریک انصاف اور اعلیٰ عدلیہ کے اکثریتی جج صاحبان کے خلاف معاندانہ کاروائیاں جاری رکھیں اور میڈیا پر اپنے حمایتی صحافیوں کے ذریعے ان کی کردار کشی کرواتے رہے تو پاکستان کے عوام کا تو جو نقصان ہونا ہے وہ ہوکررہے گا مگر اس سے حکمرانوں کی مشکلات میں بھی بے تحاشا اضافہ ہو گا اور ایسی آگ لگے گی کہ پھر کسی کا بھی دامن محفوظ نہیں رہے گا آپ کی خدمت میں عرض ہے
نگاہ رکھو کہ موجوں میں یہ افت و خیز کیسی ہے
کبھی حالات کا دھارا اچانک رخ بدلتا ہے