پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی سیاسی صورتحال : تحریر مزمل سہروردی


بانی تحریک انصاف نے جیل میں صحافیوں سے ملاقات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد ایک مرتبہ پھر مسترد کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر موجودہ حکومت کو گرانے، عدم اعتماد لانے اور قومی اسمبلی کے اندر سے تبدیلی کے لیے پیپلزپارٹی سے تعاون کے تمام آپشن مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کبھی پیپلزپارٹی کے ساتھ کوئی سیاسی اتحاد نہیں بنائے گی۔ لیکن ساتھ ساتھ بانی تحریک انصاف نے یہ ضرور کہا کہ جب انھوں نے خود اقتدار میں آنا ہوگا تب وہ اس آپشن پر غور کریں گے۔ ابھی وہ خود اقتدار میں نہیں آنا چاہتے۔ انھوں نے پھر کہا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

عمران خان کے اس اعلان نے جہاں تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہاں پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ن لیگ کا ایک مرتبہ پھر اس اعلان سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ اگر عمران خان صرف اتنا کہہ دیتے کہ ہم اس پر غور کر سکتے ہیں تو پھر بھی پیپلزپارٹی کے پارلیمانی وزن میں بہت اضافہ ہو جاتا۔ اگر دونوں جماعتوں کے درمیان ملاقاتیں شروع ہو جاتیں چاہے کچھ بھی نہ ہوتا تو ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو جاتا۔ اس کی ایک مثال مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقاتیں ہیں۔ تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ملاقاتو ں کا بے شک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ لیکن ان کے سیاسی وزن سے انکار ممکن نہیں۔ ان ملاقاتوں نے تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی کم کی ہے۔

پیپلزپارٹی کے ساتھ بے نتیجہ ملاقاتیں بھی ملک کے سیاسی منظر نامہ میں بہت اہم ہو سکتی تھیں اس سے تحریک انصاف کو زیادہ فائدہ تھا شاید پیپلزپارٹی کو نقصان ہوتا۔ پیپلزپارٹی کے اس وقت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ آج اگر پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے ساتھ تعاون شروع کرتی ہے تو اس کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اتحاد اور تعاون خراب ہوتا ہے جب کہ تحریک انصاف کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تاہم شاید بانی تحریک انصاف سیاست کے موڈ میں نہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر تحریک انصاف پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی تعاون شروع کرتی ہے تو تحریک انصاف کا ووٹ بینک خراب ہوگا۔ آصف زرداری کے ساتھ تعاون سے کرپشن کا سارا بیانیہ خراب ہو جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں یہ درست نہیں۔ مولانا کو کیا کچھ نہیں کہا گیا لیکن آج مولانا کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ کیا ووٹ بینک خراب ہوگا؟ اسی طرح محمود اچکزئی کی کیسی کیسی نقلیں اتاری جاتی تھیں۔ان کو ملک دشمن کہا جاتا تھا۔ کبھی پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا جاتا تھا ۔ پھر ان سے انتخابی اتحاد بھی بنایا گیا انھیں وزیر اعلی کا ووٹ بھی دیا گیا۔ انھیں پی ٹی آئی کا صدر بھی قرار دیا گیا۔ایک وقت میں عمران خان ایم کیو ایم کے بھی بہت خلاف تھے۔ لیکن پھر اقتدار کے لیے انھوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ بھی تعاون کیا۔ انھیں اپنے ساتھ حکومت میں شامل کیا۔ بانی پی ٹی آئی نے شیخ رشید کے بارے میں جو کچھ کہا وہ بھی سب کو معلوم ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت میں انھیں وفاقی وزیر بنادیا گیا۔اس لیے ایسا نہیں ہے کہ عمران خان نے اقتدار کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا ہے۔

جہاں تک پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی تعاون کی بات ہے تو اس کی بھی ایک تاریخ موجود ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جب عمران خان نے خود وزیر اعظم بننا تھا اور سینیٹ میں ن لیگ کو ہرانا تھا تو تحریک انصاف نے صادق سنجرانی کے عوض پیپلزپارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کو ووٹ دیے تھے۔ لیکن تب عمران خان نے وزیر اعظم بننا تھا۔ اسی لیے عمران خان نے اب بھی رپورٹرز کو یہی کہا ہے کہ جب انھوں نے خود اقتدار میں آنا ہوگا تواس پر غور ہو سکتا ہے۔ اس وقت اس کا کوئی امکان نہیں۔

شاید عمران خان کو علم ہے کہ اگر وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ تعاون کرتے بھی ہیں تب بھی ان کو کوئی سیاسی رعایت نہیں مل سکتی۔ وہ جیل سے باہر نہیں آسکتے۔ وہ خود وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ یہ تو ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ تعاون کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو اقتدار مل جائے۔ تحریک انصاف کے ووٹوں سے بلاول وزیراعظم بن جائیں۔ لیکن عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ اسی طرح اگر تحریک انصاف سے بھی کوئی وزیر اعظم بن جائے تو عمر ایوب وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ اسد قیصر وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ لیکن عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ جو شاید عمران خان کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ انھیں پی ٹی آئی میں سے بھی وزیراعظم قبول نہیں ہے۔

بہر حال ملک کے سیاسی منظر نامہ میں ابھی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے درمیان تعاون کا کوئی امکان نہیں۔ اسی لیے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف پیپلزپارٹی نے بھی نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔

فی الحال پیپلزپارٹی ن لیگ کے ساتھ سیاسی تعاون ختم نہیں کر سکتی۔ کیونکہ کم از کم پیپلزپارٹی کو اتنا تو پتہ ہے کہ الگ ہو کر فی الحال ان کی سیاست کو نقصان ہوگا، انھیں کوئی فائدہ نہیں۔ ان کے پاس سندھ ہے۔ ان کے پاس ملک کی صدارت ہے، سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ ان کے پاس ہے۔ وہ جب چاہیں حکومت کو آنکھیں دکھا سکتے ہیں ۔ لیکن وہ یہ سب کیوں کھو دیں گے۔ سیاست میں جو ہے اس سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش تو کی جاتی ہے۔ لیکن اس کو کھونا کوئی سیاست نہیں۔ عمران خان کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اور پیپلزپارٹی کا عمران خان بننے کا کوئی ارادہ نہیں۔ انھیں اندازہ ہے ماضی میں بھی عمران خان نے ان کو استعمال کیا تھا۔ لیکن پھر منہ موڑ لیا تھا۔ اس لیے اب وہ بھی پکی بات ہی کریں گے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس