اصولی طور پر یہ بات سو فی صد درست ہے کہ کسی کے چہرے پر ملک دشمنی یا غدّاری کی کالک تھوپنا انتہا درجے کی زیادتی بلکہ ظلم ہے۔ اس دلیل کو بھی جواز نہیں بنایا جاسکتا کہ خود عمران خان کس کس کو گلا پھاڑ پھاڑ کر میرجعفر اور میر صادق قرار دیتے اورکس کس طرح سیاسی حریفوں پر بغاوت اور غدّاری کے مقدمے بنواتے رہے۔ خود مجھ پر بننے والے کرایہ داری کیس کو تو ایک ’’نظیر‘‘ کی شکل حاصل ہوچکی ہے لیکن ’’کرایہ داری‘‘ کے علاوہ مجھ پر اکتوبر 2020ءمیں بغاوت اور غدّاری کا ایک مقدمہ بھی قائم ہوا تھا۔ کوئی ڈیڑھ درجن اور مسلم لیگی بھی ایف۔آئی۔آر کا حصّہ بنائے گئے تھے۔ جرم یہ تھا کہ ہم نے بیرون ملک بیٹھے، نوازشریف نامی ایک اور ’’غدّار‘‘ کی وڈیو لنک کے ذریعے تقریر سنی تھی۔ اس سب کچھ کے باوجود ٹھوس شواہد کے بغیر خان صاحب کے قرض کی ادائیگی، اُن کی ٹیکسال میں ڈھلے سکّوں میں نہیں کی جاسکتی۔
’جارُوب کَش مبصرین‘ قرار دیتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو حسین شہید سہروردی، محترمہ فاطمہ جناح، خان عبدالغفار خان، جی۔ایم۔سید، غوث بخش بزنجو، ولی خان، عطاء اللہ مینگل، خیربخش مری، نواب اکبر بگٹی، اجمل خٹک، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے ساتھ ہوا۔ یہ محض چند نام ہیں جو یاد آ رہے ہیں ورنہ یہ فہرست بہت طویل ہے۔ خان صاحب کے ساتھ ایک فی صد بھی وہ کچھ نہیں ہو رہا ہے جو عہدِرفتہ کے ’’غدّاروں‘‘ کے ساتھ ہوتا رہا ہے لیکن کیا اُن’’غدّاروں‘ میں سے بھی کسی نے وہی کچھ کیا جو خان صاحب نے اقتدار سے باہر اور اقتدار کے اندر رہتے ہوئے کیا اور اب تک کررہے ہیں؟
خان عبدالغفار خان (باچا خان) کو ’غدّارِاعظم‘ کے طورپر متعارف کرایاگیا۔ وہ سامراج کے خلاف لڑی جانے والی جنگِ آزادی کے ہراول دستے میں تھے۔ پاکستان بننے سے قبل ساڑھے چودہ برس انگریز کی قید میں رہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے دوٹوک موقف (وہ جو بھی تھا) کے باعث چوبیس برس زندانوں میں رہے۔ 1948ءمیں پہلی گرفتاری ہوئی تو اُن کی جماعت ’خدائی خدمت گار‘ نے 12اگست 1948ءکو ایک قصبے بابڑا میں احتجاجی جلسہ کیا۔ پولیس نے شدید فائرنگ کی۔ مصدّقہ اعدادوشمار جانے کیا ہیں لیکن خدائی خدمت گاروں کے مطابق چھ سو سے زائد افراد لقمۂِ اجل ہوگئے۔ خان عبدالقیوم خان نے ’’جوابی جلسہ‘‘ کرتے ہوئے کہاکہ ’’اسلحہ ختم نہ ہوجاتا تو ایک بھی شخص بچ کر نہ جاتا۔ یہ غدّارہیں۔ میں اُن کا نام ونشان تک مٹادوں گا۔‘‘ پورا صوبہ اشتعال کی آگ میں دھڑ دھڑ جلنے لگا لیکن زنداں سے ’’غدّار اعظم‘‘ نے پیغام جاری کیا کہ ’’میرا فلسفۂَ سیاست، عدمِ تشدد ہے۔ خبردار۔ کوئی ہتھیار نہیں اٹھائے گا۔‘‘ بپھرے ہوئے پشتون، خون کے گھونٹ پیتے ہوئے گھروں میں بیٹھ گئے۔ باچا خان نے مجموعی طورپر 39 سال قید کاٹی۔ نہ سہولیات مانگیں، نہ کسی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے ترلے کئے، نہ اپنے عشاق کو کسی 9 مئی پر اُکسایا، نہ عالمی طاقتوں کو پاکستان کی رگِ جاں دبوچنے کی ترغیب دی۔
اسی ’’غدّارِاعظم‘‘ کے بیٹے ( جو خود بھی’’ غدّار‘‘ تھا) خان عبدالولی خان نے قومی یک جہتی کا تاثر دینے کیلئے ’’متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کے پرچم تلے، 23 مارچ 1973ءکو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کیا۔ ہزاروں پشتون جلسے میں شرکت کے لئے آئے۔ مورچہ بند نشانچیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جلسہ درہم برہم ہوگیا۔ ولی خان درجن بھر لاشیں اٹھا کر واپس چلاگیا۔ اُس نے گھر گھر جاکر ردِّعمل کا راستہ روکا اور فتنہ وفساد کی آگ نہ بھڑکنے دی۔
’’غدّاروں‘‘ کی صف اوّل میں شامل ایک سرکردہ نام جی۔ایم۔سیّد کا بھی ہے جس نے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور پاکستان میں شمولیت کے لئے مرکزی کردار ادا کیا۔ اُس کی انقلابی دانش اور ’’سندھو دیش‘‘ کے تصور سے اختلاف کرنے والوں کی کمی نہ تھی لیکن وہ جو بھی تھا، کھلی کتاب تھا۔ بغیر کسی مقدمے، بغیر کسی عدالتی فیصلے، تیس سال قید میں رہا۔ اُس دن بھی قید میں تھا جس دن 91 برس کی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہوا۔
کالم کی تنگ دامانی اجازت دیتی تو میں عہدِ رفتہ کے ’’جیّد غدّاروں‘‘ کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو شہید اور نوازشریف جیسے ’’غدّاران وطن‘‘ کی ’’غدّاریوں‘‘ کی داستان بھی بیان کرتا جن کی روحیں اور جسم چھلنی کر دیئے گئے لیکن نہ انہوں نے پلٹ کر تیر برسانے والی کمین گاہوں کی طرف کوئی کنکر پھینکا نہ یہ کہا کہ ’’ہم نہیں تو بھلے پاکستان پر ایٹم بم گرجائے۔‘‘ ایک ’’نیم غدّار‘‘ آصف علی زرداری کا ذکر بھی بے جانہ ہوگا جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر عوامی جذبات کا آتش فشاں ٹھنڈا کر دیا تھا۔
ماضی کے سارے ’’غدّار‘‘ بہت بُرے سہی، لیکن سُہروردی سے نوازشریف تک کسی ’’غدّار‘‘ نے بھی محض اپنے اقتدار اور ذاتی مفاد کے لئے، خفیہ دستاویز ’’سائفر‘‘ سے کھیلنے اور پاکستان کے خارجہ تعلقات بگاڑنے کی کوشش نہیں کی، کسی نے پاکستان کو دیوالیہ پن کے گڑھے میں دھکیلنے کے لئے عالمی اداروں کو خط نہیں لکھے، کسی نے لابنگ فرمز کے ذریعے امریکی کانگریس، اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے پاکستان مخالف قراردادیں منظور نہیں کرائیں، کسی نے آرمی چیف کی تقرری کو کوچہ وبازار کا موضوع نہیں بنایا، کسی نے اس مقصد کے لئے اسلام آباد پر لشکر کشی نہیں کی، کسی نے مسلح افواج میں بغاوت ابھارنے کی سازش نہیں کی، کسی نے 9 مئی جیسی غارت گری کا تصور تک نہیں کیا، کسی نے اپنے سرکش حواریوں کے ذریعے چند گھنٹوں کے اندر اندر دو سو سے زائد دفاعی تنصیبات پر حملے نہیں کئے، کسی نے جی۔ایچ۔کیو پر یلغار نہیں کی، کسی نے کور کمانڈروں کے گھر نہیں جلائے، کسی نے فضائیہ کے اڈوں میں گھس کر طیارے نذرِآتش نہیں کئے، کسی نے شہداء کے مقدس مزاروں کے بخیے نہیں ادھیڑے، کسی نے مسلح افواج کے خلاف، بھارتی سوچ سے بھی کہیں زیادہ مکروہ پروپیگنڈے کا باضابطہ نظام وضع نہیں کیا، کسی نے امریکہ اور کینیڈا میں پاکستان کے چہرے پر کالک کاری کے مراکز قائم نہیں کئے اور کسی کے جانثاروں نے کبھی اس نوع کا جملہ نہیں کہا کہ ’’خان نہیں تو پاکستان بھی نہیں۔‘‘
’’جھاڑو پھیر مبصرین‘‘ سے صرف اتنی دست بستہ گزارش ہے کہ ’’غدّاروں‘‘ کی صف میں خان صاحب کے منفرد، ممتاز اور جداگانہ مقام کو عمومیت کی ’’جارُوب کشی‘‘ میں لپیٹ کر ناانصافی نہ کریں۔ تہمتِ بے جا ہی سہی جو اَن گنت دوسری شخصیات پر بھی لگتی رہی، لیکن خان صاحب کو گئے گزرے زمانوں کے گئے گزرے ’غدّاروں‘ جیسا قرار دینا بھی اُن کے بلند قدکاٹھ کی کھلی توہین ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ