گز شتہ شام چار گھنٹے تک ایک چینل پر ماہرین معیشت کو بجٹ پر تبصرہ کرتے اور ممکنہ بہتری کے لیے دبی دبی تجاویز دیتے ہوئے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ان معاشی حالات میں انکی جیبوں میں بھی کچھ نہیں ہے۔ بساند دیتے ہوئے زخم پر ایک اور پھاہا لگانے سے وہ زخم بد بو دینے لگتا ہے۔ سب ماہرین معیشت ویسے تو روز بولتے ہیں۔ گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ جب تک سسٹم نہیں بدلیں گے، جب تک دولت مندوں اور وہ بھی ایسے دولت مندوں کا محاسبہ نہیں ہوتا جو بینکوں سے لیکر کپڑے اور چاول کی فیکٹریاں چلا رہے ہیں اور سال کے بعد ایک اعداد و شمار کے ماہر کے ذریعے اپنا گوشوارہ نفی میں دکھاتے ہیں ، پھر آپ ان کو بہترین بزنس مین کا خطاب اور انعام دیتے ہوئے حب الوطنی کا تمغہ بھی دیتے ہیں۔وہ جو ایک کروڑ روپے میں گاڑی کا ایک نمبر لیتے ہیں۔ ان کو نہ کبھی کسی نے کچھ کہا اور نہ کہاجائیگا۔ سارے اپنے اپنے حصے کا حلوہ مع سیاستدانوں کے کھا رہے ہیں۔ وہ لوگ سڑک پر نہیں جائیں گے کہ ہر ایک نے جائیدادوں کے علاوہ جزیرے خریدے ہوئے ہیں، انکا کیا جائیگا ۔ کچھ جائے گا تو وہ اس غریب قوم کا، جسکا باپ آج بھی ایک روٹی کے چار ٹکڑے کرکے ، خود اور بچوں کو کھلاتا ہے۔ وہ عورتیں تو آج بھی کسی نلکے یا کسی چشمے سے پانی بھر کر لاتی ہیں بوڑھی ہو جائیں تو اگلی نسل یہی کام کرتے کرتے قبر کی جگہ مانگے گی ۔ احمد مشتاق نے تو 70 برس پہلے کہا تھا پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہوگئیں۔ میں اپنے شوہر کی قبر ڈھونڈنے جاؤں یا پھر منٹو صاحب کی قبر کا پتہ کروں تو سینکڑوں قبروں کے درمیان اندازہ لگا کے اے اہل قبور! تم پر خدا کی رحمت ہو۔ کہہ کر واپس آجاتی ہوں ۔ یہ ذاتی نہیں قومی مسئلہ ہے کہ قبر خرید کر بھی جگہ مشکل سے ملتی ہے۔ یہ بھی معلوم کہ وہ جگہ کسی اور کی قبر کے اوپر ہی ہوتی ہے۔
قوم پر آج یہ وقت بہت امتحان کا یوں بھی ہے کہ پورے ملک میں میٹرک کا رزلٹ آتے ہی ساری یونیورسٹیوں کے اشتہاربھی دکھائی دینے لگتے ہیں ، جس میں ٹیکنیکل تعلیم کا لکھا ہوتاہے۔ شبہ مجھے اس لئے ہے کہ میٹرک سے ایف ایس سی تک پریکٹیکل کلاسوں کا کہا جاتا ہے، مگر ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ کہیں لیبارٹری یا پھر تربیت دینے والے ہیں بھی کہ نہیں۔ اس وقت میڈیا اور حکومت کی بہت سخت ذمہ داری ہے کہ والدین اور پاس ہونے والے بچوں کومحض ایف اے یا بی اے کرنے کی ترغیب نہ دیں۔فنی تعلیم کی بے پناہ ضرورت ہے۔ چین میں بچوں کو ابتدائی ہی سے کھلونے بنانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ میں خود اپنی مثال پیش کروں۔ میں جب بیرون ملک جاتی اور اس زمانے میں نئی نئی چابی والے موٹر یں اور جہاز فروخت ہوتے دیکھ کر میں اپنے بچوں کے لئے لے آتی۔ وہ دوچار دن اماں ابا سے چلانا سیکھ لیتے۔ پھر جب وہ کھلونے انکے ہاتھ میں ہوتے تو کھول کھال کے لٹوبننے والے پرزے نکال کر خوش ہوکر چلاتے کہ اسکول اور محلے کے سارے بچے اسی طرح اور طرح طرح کے لٹو چلاتے تھے۔ میں اب خود کو کہتی ہوں کہ میں خود اور اپنے بچوں کو موجودوقت اور ماحول سے آگے لے جانا چاہتی تھی۔ حکومتوںاور استادوں اور گھروں کی ان غفلتوں کے باعث ہے دنیا میں بہت پیچھے ہیں،اتنے پیچھے کہ 146میں سے 145 ویں نمبر پر ہیں،جو وہ غیر ترقی یافتہ ہیں۔
ہمارے کسان اور انکی عورتیں ابھی تک درانتی سے فصل کاٹتے اور دھان کے پودے پانی اور دھوپ میں کھڑے ہوکر کمر ٹیڑھی کر کے خواتین اور بچے لگاتے ہیں۔ دنیا میں ہر کام یعنی آٹا تک مشین سے پیسا جاتا ہے۔ ہمارے تنوروں پر آج بھی نوجوان اپنے پسینے کو بھی آٹے میں ملا کر گوندھتے ہیں۔ یہی حال انڈیا کا ہے۔ وہاں تو غربت سے نمٹنے کیلئے بیسنی روٹی کے اوپر رائتہ ڈال کر دیدیا جاتا ہے۔ہمیں بھی برگر اورشوارما کی نقلوں کی جگہ پرانے دیسی اور سستے طریقے آگے بڑھانے چاہئیں کہ کم از کم قوم سستی روٹی کھا کے پیٹ کا دوزخ بھر سکے۔ مگر ہمیں تو فیشنوں نے مارا ہے پہلے ہم پھٹے کپڑوں کو پیوند لگا کر گھر اور باہر پہن لیتے تھے۔ اب نوجوان پھٹی پینٹ کو دگنی قیمت پر خرید رہے ہیں۔ اب تو آلو کے چپس سو روپے سے کم میں ملتے ہی نہیں۔ دوسری طرف پنجاب حکومت اعلان کر رہی ہے کہ بچوں کو آرٹیفشل ذہانت کا سبق دیا جائے گا۔ آج بھی ہالینڈ میں تنور کی روٹی پر ابلے ٹماٹر کی چٹنی یا لوبیا ڈال کر کاغذ میں لپیٹ کر دیا جاتا ہے اور سب نوجوان کھڑے ہوکر کھاتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان ، فلاسفر اور موٹی ویشنل اسپیکر صاف صاف یہ نہیں بتاتے کہ ہم نیپکن اور کانٹے سے کھانے والی قوم کی نقل چھوڑ کر سری لنکا اور بنگال کی طرح کیلے کے پتے پہ رکھ کر چاول اور روٹی کھائیں۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ پنڈت نہرو جب گاؤں گاؤں جاتا اور سیاست شروع کی تو اس کے والدنے اس کے ڈرائنگ روم میں چارپائی اور بیڈ روم دری بچھا دی۔ نہرو نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ غریب کا خیال رکھنا ہے تو خود یہ سوٹ اتارو، انکے ساتھ بیٹھو اور انکو آگے بڑھاؤ۔ وہی نہرو جن کے کپڑے لندن سے دھل کر آتے تھے۔ اس نے عورتوں کو بھی ہنرسکھانے کے لئے تجویز کیا کہ حکومت کی طرف سے آرڈر کرو کہ تمام دفاتر میں عورتوں کے ہاتھوں بنی جھاڑو استعمال ہوگی ۔ اس طرح پیپر ماشی کے ذریعے عورتوں کو ہاتھ سے کاغذ بنانا سکھا کر ان کے دفتر میں عورتوں کے بنائے کاغذ استعمال ہوتے تھے۔ وہاں آج تک برانڈڈ کپڑے اور ساڑھیاں عورتیں بنا رہی ہیں۔ ہم بینظیر انکم سپورٹ کے ذریعے غریب کو غریب رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دھوپ میں کھڑی عورتیں بے ہوش ہوتی ہیں کاش ہم اس پیسے سے ہنر سکھائیں مگر کب اور کہاں۔؟
بشکریہ روزنامہ جنگ