بھارت ۔ پاکستان سفارت کاری پر ایک اہم کتاب (3) : تحریر افتخار گیلانی


بھارتی سفارت کار کیول سنگھ کے مطابق بھارت کا اس تجویز کو ٹھکرانا ایک فا ش غلطی تھی۔مگر بھارت میں حکومتی افراد کی اکثریت اس معاہدے کو مزید ہتھیاروں کے لیے امریکی منظوری حاصل کرنے کے لیے ایک چال کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ اسی دوران بھارتی پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندی انتہا پر تھی۔ اس معاملے پر گفت و شنید کیلئے جولائی 1984 میں وزیر اطلاعات و نشریات ایچ کے ایل بھگت کو اسلام آباد بھیجا گیا۔ضیا الحق نے ان کو خوب آو بھگت کی اور اعلی دودھ دینے والی ساہیوال گائے ان کو تحفہ میں دی۔بھگت کا خاندان مغربی پنجاب کے ساہیوال ضلع سے ہی بھارت منتقل ہو گیا تھا۔واپسی پر وہ ضیا الحق کے قصیدہ پڑھ رہے تھے۔ اسی دوران سیاچن کا قضیہ شروع ہو گیا، جس کے جواب میں پاکستان کے کچھ فوجی افسران نے ‘کرگل پلان’ کا خاکہ ضیا الحق کے سامنے رکھا، جس کا مقصد لداخ میں کرگل کے علاقے پر قبضہ کرنا تھا،مگر ضیا نے اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اسی طرح بھارت میں فوجی سربراہ جنرل سندر جی 1987 کے وسط میںایل او سی کے اس پار تقریبا 60 کلومیٹر کے فاصلے پر خپلو میں ایک ہوائی آپریشن کا منصوبے بنایا۔ آپریشن ہیمر ہیڈ کا مقصد سیاچن گلیشیئر سے پاکستانی مواصلاتی لائنوں کو منقطع کرنا تھا۔ مگر خیر ہوئی کہ بھارت میں بھی اسکو غیر عملی اور خطرناک بتایا گیا اور کابینہ میں لانے سے قبل ہی اسکو دبا دیا گیا۔ سیاچن کی کشیدگی کے دوران اردن کے شاہ حسین بن طلال، جو راجیو گاندھی کے ذاتی دوست تھے، نے اپنے بھائی ولی عہد شہزادہ حسن کے صدر ضیا کے ساتھ روابط کا استعمال کرتے ہوئے، دونوں ممالک کو قریب لانے کی پہل کی۔ جس کے نتیجے میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل حمید گل اوربھارتی خفیہ ایجنسی را RAW کے سیکرٹری اے کے ورما نے عمان میںملاقات کی۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تفصیلات پر کام کرنے کے لیے اپنے دست راست سفارت کار رونن سین کو متعین کیا۔ بساریہ کے مطابق، دو انٹیلی جنس سربراہوں کی طرف سے جو حل نکالا گیا، وہ کامیاب اور عملی حل تھا۔اس کے بعد 1992اور پھر 2006میں بھی دونوں ممالک نے اس سلسلے میں پہل کی، مگر کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوسکے۔ پاکستان میں اب ایک نئی جمہوری حکومت وجود میں آچکی تھی۔ راجیو گاندھی کے سفارتی مشیر، رونن سین، دسمبر 1988 کی ایک صبح سارک سربراہی اجلاس کے لیے اپنے باس کے دورے کی تیاری کرنے کیلئے اسلام آباد آپہنچے۔ کراچی میں پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کی ایسی ملاقات ہوئی ، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ جب رونین سین نے کسی حساس معاملے پر بات چیت شروع کی، تو بے نظیر نے ہونٹوں پر انگلی اٹھا کر ایک کاغذ کی پرچی پر لکھا کہ کمرہ بگ ہو سکتا ہے۔ دونوں نے کاغذ کی پرچیوں کے ذریعے گفتگو کو آگے بڑھایا۔ سین پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔ بے نظیر نے ان کو بتایا کہ یہ فوج کے زیر تصرف ہے اور ان کو اس بارے میں علم نہیں ہے۔ بے نظیر نے کہا کہ سارک کے ذریعے بھارت کے ساتھ تعلقات رکھنا ان کے لیے زیادہ آسان ہوگا۔ جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی، بے نظیر نے سین سے کہا کہ وہ اپنے ریمارکس کو ریکارڈکا حصہ نہ بنائیں۔ بے نظیر نے بھی راجیو کے ساتھ ملاقات کرنے کیلئے خصوصی ایلچی اقبال آخوند اور ایک پاکستانی پارسی معتمد ہیپی من والا کودہلی بھیجا۔وہ واضح طور پر اپنے وزیر خارجہ یعقوب خان پر بھروسہ نہیں کرتی تھیں، جنہیں انہوں نے پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان کے مشورے پر برقرار رکھا تھا۔ 1991 کو، وزیراعظم چندر شیکھر کی نئے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات ہوئی ۔ جے این ڈکشت کے مطابق نوازشریف نے چندر شیکھر کو مشورہ دیا کہ ان کی حکومت کو وادی میں رائے شماری کی اجازت دینے پر ‘سنجیدگی سے غور’ کرنا چاہیے، تاکہ بھارت لداخ اور جموں کو اپنے پاس رکھ سکے، جبکہ پاکستان اپنے حصہ والے کشمیر کو اپنے پاس رکھے۔ وادی بعد میں پاکستان میں شامل ہو جائے گی۔ ستیندر کمار لامبا جنہوں نے اب 1992 میں ہائی کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا، پایا کہ بے نظیر بھٹو اب ایک بدلی ہوئی شخصیت تھیں۔ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں اب مزید دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ لامبا کو ملاقات کیلئے وقت بھی نہیں دیتی تھی۔ بساریہ کے مطابق وہ لامبا کو اپنے سیاسی حریف اور پیشرو نواز شریف کا دوست سمجھتی تھی۔اپنی دوسری مدت میں بے نظیر کا بھارت کے تئیں رویہ کیوں سخت ہوگیا تھا، ہنوز ایک معمہ ہے۔ ستیش چندرا نے 1995 میں ہائی کمشنر کا عہدہ سنبھالا اور جلد ہی دونوں فریقوں کے درمیان خفیہ ‘بات چیت کے دور شروع ہوئے۔ اس گفتگو میں چار سفارت کار شامل تھے: بھارت کے خارجہ سیکرٹری سلمان حیدر اور پاکستان کے نجم الدین شیخ، ہائی کمشنر ستیش چندرا اورریاض کھوکھر۔ان کی پہلی ملاقات دہلی کے حیدر آباد ہاس میں دوپہر کے کھانے کے دوران ہوئی ۔ان کی ملاقاتوں کے نتیجے میں 1997میں مربوط مذاکرات کے میکانزم کا قیام عمل میں آیا۔ جب اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا، تو وہ فورا ہی یعنی اپریل 1998 میںجوہری دھماکے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن صدر کے آر نارائنن لاطینی امریکہ کے دورے پر جا رہے تھے۔ یہ دھماکہ واجپائی کے لیے کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔بساریہ جو واجپائی کے پرسنل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ 11 مئی کو، واجپائی نے ریس کورس روڈ نمبر 5 کے بنگلہ کے ایک کنٹرول روم کابینہ کے اپنے چنیندہ ساتھیوں کے ساتھ انتظار کر رہے تھے کہ چار بجے کے آس پا س ان کے سائنسی مشیر عبدالکلام نے فون کیا۔اس کوواجپائی کے پرنسپل سیکرٹری برجیش مشرا نے اٹھایا اور ان کو کامیاب جوہری دھماکوں کی نوید سنائی۔ ادھر اسلام آباد میں 27 مئی کی رات گئے1 بجے بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا۔سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے انکو بتایا کہ کہ پاکستان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے والا ہے اور اس کیلئے چنئی کے ہوائی اڈے ایف سولہ طیارے تیار کرائے جا رہے ہیں۔ جب ہائی کمشنر نے نشاندہی کی کہ بھارت کے پاس اس طرح کے طیارے نہیں ہیں، تو احمد نے کہا کہ ہوائی جہاز اسرائیلی ہو سکتے ہیں۔ گو کہ بساریہ نے ان کے ہدف کی نشاندہی نہیں کی ہے، مگر لگتا ہے کہ ان کا ہدف چاغی کا میدان تھا،جہاں اگلے روز پاکستان دھماکے کرنے والا تھا۔ بساریہ کا کہنا ہے کہ آگرہ کے سربراہی اجلاس کے دوسرے د ن پاکستانی صدرپرویز مشرف نے بھارت کے بڑے اخبارات اور ٹی وی نیکس کے ایڈیٹرز کے ساتھ ناشتے کے دوران گفتگو کی۔ اس تقریب کو NDTV نے فلمایا، پاکستانی سفارتخانے کے ساتھ بظاہر سمجھوتہ تھا کہ اس پروگرام کو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جائیگا۔ ۔ تاہم NDTV نے جلد ہی پوری گفتگو ٹیلی کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ہوٹل میں ہمارے عارضی پی ایم او میں، برجیش مشرا اور میں نے اس انٹرویو کو دیکھا۔ مشرا میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ پی ایم کو اس پیش رفت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ میٹنگ روم کے باہر ہونے والی ہر بات سے غافل مشرف کے ساتھ بات چیت میں بیٹھے تھے۔مشرا نے چند سطریں لکھیں۔ میں نے انہیں جلدی سے ٹائپ کیا، اور کمرے کے اندر چلا گیا۔ نوٹ میں بنیادی طور پر کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کی ایک پریس کانفرنس ٹیلی کاسٹ کی جا رہی تھی، جہاں انہوں نے اپنے سخت گیر موقف کو دہرایا ہے ۔ا س کمرے میںواجپائی اور مشرف کے علاوہ دو نوٹ لینے والے بیٹھے تھے۔۔ مشرف بات کر رہے تھے اور واجپائی بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔ بساریہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے نے کاغذ باس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ میرے کمرے سے نکلنے کے بعد، واجپائی نے کاغذ پر نظر ڈالی اور پھر اس میں سے مشرف کو پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ ان کا رویہ بات چیت میں مددگار نہیں ہے۔ بساریہ کا کہنا ہے دسمبر 2001 کو جب پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو واجپائی اس کی زد میں آسکتے تھے۔ ۔ وہ تقریبا 11.10 بجے ریس کورس روڈ سے پارلیمنٹ جانے کیلئے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے، کہ انہوں نے ٹی وی پر دیکھا کہ ہنگامہ کی وجہ سے لوک سبھا کی کاروائی ملتوی کی گئی ہے۔ میں نے جاکر ان کو بتایا کہ پارلیمنٹ کی کاروائی ملتوی ہو گئی ہے اس لئے بہتر ہے کہ جو فائلیں کئی دنوں سے پڑی ہیں، ان کو نمٹایا جائے۔ واجپائی گاڑی سے نیچے اترے اور فائلیں طلب کیں۔جب ان کے ایک اور پرسنل سیکرٹری آر پی سنگھ ان کو ایک ایک فائل کے بارے میں بتا رہے تھے کہ پارلیمنٹ سے فون آیا کہ وزیر اعظم کو روک دوں کیونکہ وہاں گولیاں چل رہی ہیں۔ بعد میں وزیر اعظم کی سیکورٹی نے بساریہ کا شکریہ ادا کیا۔ بساریہ کا کہنا ہے آگرہ کے برعکس واجپائی کے 2004کے دورہ اسلام آباد کی بھر پور تیاریا ں کی گئیں تھیں۔ واجپائی کے دورہ کے دروان ان کے داماد رنجن بھٹاچاریہ اسلام آباد کے مشہور گولف کلب میں گولف کے ایک رانڈ میں حصہ لینے کیلئے پہنچے۔ کورس میں، کوئی اور گولفرز نہیں تھا۔ اچانک، مسلح سیکورٹی اہلکار درختوں کے جھرمٹ کے پیچھے سے نمودار ہوئے اور ان کو گھیر کر کہا کہ جلدی بھاگ جاو۔ واجپائی کا داماد کھیلنے آیا ہے۔ واجپائی نے اپنے قابل اعتماد پرنسپل سکریٹری، برجیش مشرکومئی 2003 میں اسلام آباد بھیجا تھا ، جہا ں اس نے اپنے نئے نامزد ہم منصب طارق عزیزکے ساتھ ایک تعلق قائم کیا۔جب لامبا کو 2005 میں پی ایم او میں خصوصی ایلچی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، تو انہوں نے برجیش مشرا کی سعی کو آگے بڑھایا۔ منموہن سنگھ نے ان کو مینڈیٹ دیا تھا کہ سرحدوں کو دوبارہ کھینچنے کے بغیر انسانی بنیادوں پر جو حل نکل سکتا ہے اس کی کوشیشیں کی جائیں۔ جب نومبر2008 میں ممبئی میں حملہ شروع ہوا تو ہائی کمشنر ستیہ برتا پال پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ دہلی میں موجود تھے۔ قریشی خود CNN-IBN کو پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک کی رہائش گاہ، پر انٹرویو دے رہے تھے، جو کبھی نشر نہیں ہوا۔ ویسے تو ایسے موقعوں پر بات چیت کے بعد عشایہ میزبان دیتا ہے مگر پر اسرار طور پر وزیر خارجہ پرناب مکرجی نے پہلے ہی اس دورہ کی تفصیلات طے کرنے کے وقت ہی عشایہ کی میزبانی سے معذوری ظاہر کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت وزیر کو آنے والی چیزوں کے بارے میں کوئی سن گن تھی۔ تاہم مکھرجی نے اگلے دن چنڈی گڑھ میں قریشی کے ساتھ لنچ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اگلی صبح، مکھرجی نے چندی گڑھ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا، لیکن قریشی نے جے پور، اجمیر اور چندی گڑھ کے لیے اپنے طے شدہ پروگرام کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ دہلی کے ویمن پریس کلب میں 27نومبر کو قریشی کی پریس کانفرنس تھی کہ پاکستانی ہائی شاہد ملک کے فون کی گھنٹی بجی۔یہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل کیانی تھے، جو صدر آصف علی زرداری کے اس بیان سے ناراض تھے، جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھارت بھیجنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ میڈیا میٹنگ کے دوران ملک کو ایک اور کال موصول ہوئی۔ اس بار، یہ پرناب مکرجی تھے، جنہوں نے قریشی کو بتایا کہ وہ فی الفور بھارت چھوڑ دیں۔ اگلی صبح 4 بجے پاکستان ایئر فورس کا ایک طیارہ وزیر کو گھر لے جانے کے لیے دہلی آگیا۔شاید پہلی بار کسی ملک کے وزیر خارجہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہو۔ خیر جب منموہن سنگھ دفتر چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے، نواز شریف تجارتی ایجنڈے کے ساتھ مضبوطی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ پاکستان نے مارچ 2014 میں کابینہ کے اجلاس میں بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔اسکا نیا نام NDMA (مارکیٹ تک غیر امتیازی رسائی)رکھا گیا۔ ایک نئے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے مارچ میں نئی دہلی میں عہدہ سنبھالا اور یہ معاملہ ان کی میز پر آ گیا۔پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے جنوری میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھا اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان جلد ہی این ڈی ایم اے کو بھارت تک توسیع دے گا۔ اس مقصد کے لیے ان کے بھارتی ہم منصب آنند شرما جلد از جلد پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے بے حد خواہشمند تھے، جب ان کے دورہ پاکستان کی تاریخوں پر کام ہو رہا تھا، تو باسط کو دہلی میں آنے والے وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی افراد نے بتایا کہ اس قدم کو الیکشن ختم ہونے تک موخر کریں۔ چونکہ اگلی حکومت بی جے پی کو بنانی ہے، دونوں ممالک کیلئے یہ اعلان ایک اچھا اسٹارٹ ہوگا۔ 2015 میں کرسمس کے دن، اسلام آباد میں ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کوخارجہ سکریٹری ایس جے شنکر کی طرف سے صبح 8 بجے ایک کال موصول ہوئی۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ اپنے وزیر اعظم کے استقبال کیلئے تیار رہیں۔ جب راگھون نے پوچھا کہ کیا نواز شریف واقعی اس دن اپنے مہمان کا استقبال کرنے کے لیے اسلام آباد میں ہوں گے، تو سیکریٹری خارجہ نے چند منٹوں کے بعد واپس فون کیا کہ دونوں رہنما چند گھنٹوں میں لاہور میں ملاقات پر راضی ہو گئے ہیں۔صبح 10 بجے تک راگھون موٹر وے سے لاہور کی طرف روان تھے۔ ائیر پورٹ کے بجائے وہ سیدھے رائیونڈ شریف کی رہائش گاہ پہنچے۔مودی نے بعد میں کہا کہ انہوں نے کابل سے نواز شریف سے فون پر بات کرنے کے بعد لاہور میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر بساریہ کے اس بیان کے مطابق لگتا ہے کہ اس کی تیاری صبح دہلی میں کئی گئی تھی۔ اس کتاب کا نہا یت قلیل حصہ ہی اجے بساریہ کی اپنے دور کا احاطہ کرتا ہے۔ انکو 2017میں بطور ہائی کمشنر نامزد کر دیا گیا۔ اس دوران پلوامہ، بالاکوٹ اور پھر کشمیر کی داخلی خود مختاری کو ختم کرنے کے واقعات ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیرکی طرف سے ان کو واضح پیغام تھا کہ پاکستان عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جموں و کشمیر میں مزید دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوں گے، سرحد پار سے دراندازی نہیں ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ ایک پاکستانی واقف کار، جو فوج اور سویلین حکومت دونوں کے قریب تھا ، نے انکو یقین دلایا کہ جیش محمد کے 1,800 ارکان کو گرفتار کیا جائے گا ۔ بساریہ کا کہنا ہے کہ ان کے واقف کار نے ان کو رات کو فون پر بتایا کہ القاعدہ کشمیر میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ انہی دنوں کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ترال قصبے میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ذاکر موسی کو مارا گیا تھا۔اور القاعدہ بظاہر موسی کے قتل کا بدلہ لینے والی تھی۔ اس وقت عاصم منیر آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے۔ پتہ چلا کہ یہ ایک سچی اطلاع اور ایک غیر معمولی ان پٹ تھا جو پاکستان بھارت کو دے رہا تھا۔ کشمیر میں اگست 2019 سے کے اقدامات سے قبل بساریہ سے ان پٹ لئے گئے تھے کہ پاکستان کیا کچھ کرسکتا ہے؟ انہوں نے بھارتی لیڈروں کو مشورہ دیا کہ پاکستان کے ردعمل سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دی کہ پاکستان اس وقت سب سے کمزور پوزیشن میں ہے اور کشمیر پر کسی فوجی مہم جوئی کا خطرہ مول نہیں لے گا اور اس کا پورا زور بیان بازی پر ہی مرکوز ہوگا۔بساریہ کا کہنا ہے کہ ان کو کشمیر پر آنے والی کارروائی کا اندازہ تھا، مگر مخصوص ٹائم فریم کا علم نہیں تھا۔بہر حال دونوں ممالک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے عوام کے تحفظ اور خوشحالی کابس ایک ہی طریقہ ہے کہ دیرنہ تنازعات کو حل کریں۔ جو ممالک لچک اور تخلیقی صلاحیتیں اپناتے ہیں، وہی اپنے عوام کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے 2 ارب باشندوں کی خوشحالی کا ضامن بھارت اور پاکستان کے درمیان پائیدار رشتوں کی بقا میں ہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز