ورلڈ کپ میں ہار کے بعد کرکٹ میں سرجری کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ کہہ چکے ہیں کہ کرکٹ کو ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے اور وہ یہ سرجری شروع کرنے جارہے ہیں۔ ملک بھر کے کرکٹ لورز،کرکٹ بزنس سے وابستہ گروپس اور تنخواہ ومراعات لینے والے اس سرجری کے ڈاکٹرز اور مریضوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سب کی سرجری کے بارے میں اپنی اپنی رائے ہے۔
بہرحال اکثریت سرجری کے حق میں ہے، اکثریتی رائے یہی ہے کہ کرکٹ میں سب ٹھیک نہیں چل رہا ۔ ہماری کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ لوگوں کی رائے میں نہ تو کرکٹ بورڈ میں سب ٹھیک چل ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں میں سب ٹھیک ہے۔ لوگ کرکٹ بورڈ میں بھی سرجیکل آپریشن کے حق میں ہیں اور بدتمیزی اور عدم تعاون کی بیماری کا شکار کھلاڑیوں کی سرجری بھی کرانا لازمی سمجھتے ہیں۔
پہلی رائے تو یہی تھی کہ سرجری کا آغاز چیئرمین کرکٹ بورڈ سے کیا جانا چاہیے، انھیں اس ہار کی ذمے داری لیتے ہوئے گھر جانا چاہیے۔ لیکن پھر سوال ہوا کہ اگر چیئرمین ہی گھر چلے جائیں گے تو سرجری کون کرے گا؟ سرجری کرنے کے لیے ایک چیئرمین ضروری ہے۔ نیا چیئرمین آکر کہے گا کہ میں نیا ہوں، مجھے وقت دیا جائے۔ بہر حال سب کو سمجھ آچکی ہے کہ چیئرمین کہیں نہیں جا رہے۔ لہذا سرجری کے لیے چیئرمین کو ہی اعتماد اور حوصلہ دینا ہوگا۔ اس لیے اب سب نے موجودہ چیئرمین سے ہی سرجری کی امید لگا رکھی ہے۔
سرجری کی ابتدا اچھی ہوئی ہے۔ وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ لوگوں کی بھی رائے ہے کہ ان دونوں کو سفارش پر ہی رکھا گیا تھا۔ ان کی اتنے بڑے عہدوں پر تعیناتی بنتی نہیں تھی۔ پہلے دن سے رائے تھی کہ پرچی چل گئی ہے۔ لہذا پرچی کا یہی انجام ہوتا ہے۔ ٹیم کی سلیکشن ٹھیک نہیں تھی، یہی ٹیم کے ہارنے کی بنیادی وجہ تھی۔ ورلڈ کپ تجربات کرنے کا ٹورنامنٹ نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں دونوں سلیکٹرز کو کس نے بتایا کہ سارے تجربات ورلڈ کپ میں ہی کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ٹیم نہیں بنائی گئی بلکہ حلیم پکائی گئی لیکن ساری حلیم خراب ہو گئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرجری کی ابتدا ٹھیک ہوئی ہے، سلیکٹرز کو گھر جانا چاہیے تھا۔
ٹیم کے فاسٹ باولر شاہین آفریدی کے منفی رویے کی خبریں بھی آئی ہیں، وہ بھی ڈسپلن میں نہیں تھے۔ یہ بات قدرے سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ انھیں پہلے کپتان بنایا گیا ، پھر کپتانی سے ہٹا دیا گیا، جب ایک ٹیم میں دو کپتان ہو جائیں تو گروپنگ اور سیاست تو فطری بات ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کرکٹ اسکواڈ میں سیاست موجود تھی۔ کسی ضرورت مند کھلاڑی کو دوبارہ کپتانی اسی صورت ملنے کا امکان پیدا ہوسکتا تھا کہ ٹیم پہلے راونڈ میں ہی ناک آؤٹ ہوجائے، کپتان کو اسی طرح ناکام ثابت کیا جا سکتا ہے۔
سابق کرکٹر شاہد آفریدی اپنے بیان بازی کی وجہ سے شاہین شاہ آفریدی کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں، دونوں کے درمیان ایسا رشتہ ہے کہ ایک بولے تو بلاوجہ نظر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے ۔ شاہد آفریدی نے بھی بابر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ درست کہہ رہے ہوں لیکن موقع درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سرجری کرنی ہے اور میرٹ پر کرنی ہے تو پھر شاہین آفریدی کو بھی رعایت نہیں مل سکتی۔ شاہین آفریدی کے لیے بھی سرجری کا بندوبست ہونا چاہیے، کسی سے رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا بابر اعظم کو رعایت ملنی چاہیے یا انھیں بھی سرجری کا شکار ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کوئی بھی سرجری بابر اعظم کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اگر ٹیم میں سیاست ہے تو انھیں اس سیاسی کلچر سے، مبرا نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے بابر اعظم سے سرجری شروع ہونی چاہیے۔ اسی طرح کرکٹ رپورٹرز اور کرکٹ کے تجزیہ نگار یہ نادر آئیڈیا مارکیٹ میں متعارف کرانے کی کوشش کررہے ہیں ، نہ بابراعظم اور نہ ہی شاہین آفریدی بلکہ محمد رضوان کو کپتان بنا دیا جائے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسئلہ تو سرجری کرنے کا ہے، کپتان کون بنے گا ، یہ بعد کی بات ہے۔اگر محمد رضوان کو کپتان بنانا ہے تو پھر سرجری کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
سب جانتے ہیں بابراعظم کپتان ہے تو ان کے نائب محمد رضوان ہیں۔ اگر محمد رضوان کو ٹیم میں رکھا گیا یا انھیں کپتان بنایا گیا تو بابراعظم کو سمجھو رعایت مل گئی ہے، اگر ایسا ہے تو پھر دوسروں کو آپریشن تھیٹر میں لٹا کر چیر پھاڑ کرنا، کیسے درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ سرجری کا بنیادی مقصد ٹیم سے گروپنگ ختم کرنا ہے اور گروپنگ کے ذمے داران کو انجام تک پہنچانا ہے۔ بابر اعظم ہوں ، محمد رضوان ہوں ، شاہین شاہ آفریدی ہوں یا سلیکٹرز، کوچ اور منیجر سمیت سب کو سرجری کے لیے آپریشن تھیٹر میں لے جانا پڑے گا۔
سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے ٹیم میں ایک ایتھنک گروپ کی بھی نشاندہی کی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہماری پاکستان کے سوا کوئی شناخت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں کوئی علاقائی، نسلی و لسانی گروپ موجود ہے تو ایسے ناسورکوسرجری کرکے باہر پھینک دیا جائے، ان کو کسی بھی صورت معافی نہیں ملنی چاہیے۔ ہماری ٹیم پاکستان ہے، اس میں کوئی کوٹہ سسٹم نہیں ہے۔ نہ یہاں برادری دیکھی جاتی نہ قبیلہ اور نہ زبان کی بنیاد پر کوئی کوٹہ سسٹم ہے ، سب کھلاڑی میرٹ پر آتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ کو بحال کرنے کے لیے نئے ٹیلنٹ کو آگے لانا چاہیے، نئی ٹیم بنانا ہوگی۔ بڑے ناموں سے جان چھڑانی ہوگی۔ جب بری طرح ہی ہارنا ہی ہے تو بڑے ناموں اور بڑے کھلاڑیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کرکٹ کمرشل ہے ، بڑے کرکٹرز اپنے ریکارڈز کے لیے کھیلتے ہیں تاکہ وہ اے کٹیگری میں رہیں اور لیگ کرکٹ میں بھاری معاوضہ وصول کریں، وہ ٹیم اور ملک کی عزت و افتخار کے لیے نہیں کھیل رہے۔ لہذا کمرشل ازم کے اس دور میں پاکستانی ٹیم کسی کھلاڑی کو اس کے انفرادی ریکارڈ کے لیے نہیں دی جا سکتی۔
آپ کا انفرادی ریکارڈ کتنا بھی اچھا ہو لیکن اگر آپ ٹیم اور پاکستان کی جیت کے لیے نہیں کھیلتے تو آپ کے ریکارڈ قوم کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ یہ ٹیم کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ ہر کھلاڑی کو ٹیم اور پاکستان کی جیت کے لیے کھیلنا ہوگا۔ اگر کوئی خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے ٹیم کو ہراتا ہے یا جیت کے لیے نہیں کھیلتا تو ایسے کھلاڑیوںکی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے، ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ۔نئے کھلاڑیوں کے ساتھ نئی ٹیم بنائیں، دو تین برس کے دوران یہی ٹیم اور اس کے کھلاڑی بڑے بن جائیں گے۔ سیاست کی اب کرکٹ میں کوئی گنجائش نہیں۔
جن کو سرجری کے نتیجے میں باہر بٹھایا جائے، ان کو پھر کوئی این او سی بھی نہ جاری کیا جائے۔ اب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کھلاڑی لیگ کرکٹ سے پیسہ بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھیں پاکستان سے کھیلنے میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ پیسے نے بھی کافی کام خراب کیا ہے۔ اس لیے سرجری کا شکار کھلاڑیوں کو سزا کا احساس ہونا چاہیے۔ اگر این او سی دیے گئے تو وہ پیسے بنانے میں لگ جائیں گے۔ جنھوں نے ڈسپلن کی زیادہ خلاف ورزی کی ہے۔ ان کو ایک سال کے لیے گھر بھی بٹھایا جائے۔ صرف پاکستان کے اندر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی پابندی ہونی چاہیے، باہر کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس