بجٹ بنانے اور پرکھنے کے سیاسی آداب : تحریر الطاف حسن قریشی


بجٹ آ گیا اور نافذ بھی ہو گیا ہے۔ اہلِ اقتدار کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا اور اِنتہائی مشکل حالات میں ایک عوام دوست بجٹ دیا ہے۔ لوگوں کے اندر پھیلا ہوا اِضطراب اور اِشتعال اُن کے دعوے کا منہ چڑا رَہا ہے۔ دراصل ہمارے حکمران مختلف حیلے بہانوں سے بجٹ سازی کے معروف طریقوں سے پہلوتہی کرتے رہےجو حالات میں ضرورت سے زیادہ محاذآرائی کے باعث بنے ہیں۔ اِسی طرح بجٹ کا دامن تارتار کرنے پر تُلے ہوئے فعال عناصر بھی اُن اصولوں سے انحراف کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں بجٹ کی بخیہ گری کیلئے اختیار کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر اِس کے اندر پائی جانے والی خرابیوں کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ متبادل تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ ہم اِس وقت جو منظر دیکھ رہے ہیں، اُس میں ایک بےہنگم جذباتیت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ہم سب اِس تلخ حقیقت سے واقف ہیں کہ پاکستان کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور بجٹ بنانے میں آئی ایم ایف کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے معاشی ماہرین اور سیاسی دانش ور سر جوڑ کر بیٹھیں اور آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کیلئے ایسی تدابیر اختیار کریں جن سے عوام پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ بھی نہ پڑے اور مالی وسائل کا رُخ امیروں کے بجائے غریبوں کی طرف ہو جائے۔ ہمیں یہ کام سنجیدگی سے سرانجام پاتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی جیسی باشعور، سنجیدہ اَور قانون کی پابند منظم جماعت بھی اپنے آپ کو اِحتجاج اور دَھرنوں کی سیاست کی نذر کرتی جا رہی ہے۔ وہ ہمیشہ متبادل لائحہ عمل اور اِصلاحِ احوال کی تجاویز دیتی آئی ہے، اُس کا اضطراب تاہم ایک حد تک فطری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بجلی کے بِل عوام کیلئے موت کے پروانے بنتے جا رہے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضیٔ بعید میں بجٹ آنے سے پہلے مختلف اداروں اور تنظیموں کی طرف سے ’پری بجٹ سیمینار‘ منعقد کیے جاتے جن میں سیاسی اور اِقتصادی بصیرت کے حامل خواتین و حضرات بجٹ کا مکمل خاکہ پیش کرتے۔ حکومت بھی مشاورت کا دائرہ وسیع کر دیتی۔ اُس ماحول میں جو بجٹ تیار ہوتا، اُس میں بنیادی حقیقتوں کا خیال رکھا جاتا۔ پارلیمنٹ میں کھل کر بحث ہوتی اور خاصی معتدل تجاویز بھی سامنے آتیں، تاہم اپوزیشن کی طرف سے شوروغل ہوتا رہتا۔ بجٹ آ جانے کے بعد بھی پوسٹ بجٹ سیمینار منعقد کیے جاتے جو حکومت پر دباؤ قائم رکھنے میں بڑے مددگار ثابت ہوتے۔ سیاسی حکومتیں اُن مذاکروں سےفائدہ اُٹھاتیں اور ایک ایسا طرزِعمل اختیار کرتیں جس میں رائےعامہ کا احترام کسی نہ کسی صورت میں قائم رکھا جاتا۔ مجھے اِس ضمن میں جنرل ضیاء الحق کے دور کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جب ایک ایسا بجٹ پیش کیا گیا جس نے عوام کو سخت بےچَین کر دیا تھا۔ مجھے اب وہ سال تو ٹھیک طور پر یاد نہیں رہا۔ غالباً 1986ء کا ذکر ہے۔

جب شور بڑھتا گیا، تو مَیں نے اپنے محترم دوست مجیب الرحمٰن شامی سے کہا کہ ہمیں جنرل ضیاء الحق کو معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کیلئے اُن سے ملاقات کرنی چاہیے۔ اُنہوں نے میری بات سے اتفاق کیا، چنانچہ صدر صاحب کے ملٹری سیکرٹری سے رابطہ قائم کیا گیا۔ اُنہوں نے دوسرے دن شام کا وقت دے دیا۔ جنرل صاحب نے اپنی روایتی وضع داری کے ساتھ ہمارا اِستقبال کیا۔ بیٹھتے ہی عزیزم شامی نے اپنی خطابت کے جوہر دکھانا شروع کر دیے۔ کہا آپ نے جو بجٹ دیا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ معیشت کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔ ایسے میں آپ کو حکومت کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟ وہ کوئی آدھے گھنٹے تک جنرل صاحب کو لتاڑتے رہے اور وُہ کمال ضبط کی تصویر بنے بیٹھے رہے۔ مَیں بھی وقفےوقفے سے متبادل تجاویز دیتا رہا، کیونکہ دو روز پہلے ہی ہم نے تحقیقی ادارے پائنا کے زیرِاہتمام پوسٹ بجٹ سیمینار منعقد کیا تھا۔ جنرل صاحب نوٹس لیتے اور اِس امر کا اعتراف کرتے رہے کہ وہ اِقتصادیات کے ماہر نہیں اور وُہ اَپنے رفقا کو ہماری تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کےکیلئے کہیں گے۔ ہماری نشان دہی اور متبادل تجاویز کی روشنی میں بجٹ پر نظرثانی کی گئی جس کے سبب اُمڈتا ہوا طوفان ٹل گیا۔ اِس میں شامی صاحب کی جرأتِ اظہار اور مدلل گفتگو نے بنیادی کردار اَدا کیا۔

میرے خیال میں ہمارے حکمرانوں کو اَپنی اِس کوتاہی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اُنہوں نے اُن سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی باقاعدہ مشاورت نہیں کی جو اُن کی مخلوط حکومت میں شامل ہیں۔ اِسی بنا پر پیپلزپارٹی نے ’اعتماد میں نہ لینے‘ کی شکایت کی۔ اِس کے علاوہ کوئی پری بجٹ سیمینار ہوا نہ اقتصادی پیداوار کی طاقتوں سے کوئی بامعنی صلاح و مشورہ کیا گیا۔ اگر ملک بھر میں تین چار پری بجٹ سیمینار منعقد کیے جاتے، تو آئی ایم ایف بھی اپنی حدود میں رہتا اور ہمارے اربابِ اقتدار کیلئے مذاکرات کا رُخ متعین کرنے میں آسانی پیدا ہو جاتی۔ ہمارا اَپوزیشن کو بھی یہی مشورہ ہے کہ وہ سنگین معاشی حالات میں تعمیری کردار اَدا کرے اور چاک دامنی کے بجائے بخیہ گری کے عمل کو آگے بڑھائے۔ جناب وزیرِاعظم نے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو جو ریلیف دیا ہے، وہ مصنوعی اور قطعی طور پر ناکافی ہے۔ اِس وقت پورا زور اِس بات پر صَرف کیا جانا چاہیے کہ بجلی کے بلوں میں زیادہ سے زیادہ تخفیف کی جائے۔ اِس مقصد کے لیے حکومت کے شاہی اخراجات پر قابو پانے کو اوّلین ہدف قرار دِیا جائے۔ ذرا سی توجہ سے 500؍ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ جناب عمران خاں نے وزیرِاعظم ہاؤس کا جو نقشہ بیان کیا تھا، وہ بہت چشم کشا ہے۔ ایک شخص کی خدمت پر 543؍اشخاص مامور ہیں اور وَسیع و عریض کاریں 80 سے بھی زیادہ ہیں۔ بڑےبڑے مناصب پر فائز بااثر لوگ مفت پٹرول، مفت گاڑیاں، مفت بجلی اور مفت گیس استعمال کر رہے ہیں۔ اُن سے یہ مراعات واپس لی جائیں۔ یہ حکم تو فوری طور پر جاری کیا جا سکتا ہے کہ سرکاری دفتروں اور اَعلیٰ حکام کی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ کسی قدر یہ امر تسلی بخش ہے کہ حکومت نے بعض دُور رَس اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ