چوہدری غلام محمدؒ…تحریر: نصیراحمد سلیمی


چوہدری غلام محمدؒتاریخ پیدائش: یکم اکتوبر ۶۱۹۱ ءجالندھر‘ تاریخ وفات ۹۲ جنوری ۰۷۹۱ءکراچی۔

چوہدری غلام محمدؒ کی ہمہ جہت شخصیت پر علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار صادق آتے ہیں:
زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر
اور جب بانگ ِ اذاں کرتی ہے بیدار اُسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر
چوہدری غلام محمدؒ نے اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد عملی زندگی کا آغاز غیر منقسم ہندوستان میں پڈعیدن ریلوے اسٹیشن میں ہیڈ کلرک کے طور پر کیا۔ ریلوے میں دوران ملازمت بیمار ہوئے تو ان پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ معالجوں نے گھر والوں کو بتایا کہ ان کو نارنگی کا جوس پلایا جائے تو امکان ہے کہ طبیعت سنبھل جائے۔ ا±س زمانے میں نارنگی ناگپور سے آیا کرتی تھی۔ ریلوے میں ان کے ساتھی ملازمین کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے ناگپور سے آنے والے کسی تاجر کے پارسل میں سے نارنگیاں نکالیں اور ان کو اس کا جوس پلا دیا۔ چوہدری غلام محمد صاحب کو افاقہ ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ مجھے کیا چیز پلائی گئی تھی۔ تو ان کے گھر والوں نے بتایا کہ آپ کے دفتر کے ساتھی نارنگی لے کر آئے تھے اور انہوں نے اس کا جوس پلایا۔ یہ سنتے ہی چوہدری صاحب نے اپنا ہاتھ گلے میں ڈالا اور قے کر دی اور ان کو بلا کر کہا کہ یہ آپ نے کیا ظلم کیا کہ کسی کا مال ا±س کی اجازت کے بغیر مجھے پلا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے جن صاحب کا یہ مال تھا اُن کو معذرت کا خط لکھا اور ساتھ اس کے پیسے ان کو بھیجے اور یہ کہا کہ آپ مجھے دنیا میں معاف کر دیں‘ اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ لیکن چونکہ یہ میرے ساتھیوں نے کیا جو میرے ماتحت کام کر رہے تھے‘ اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا تو اس کی جواب دہی مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں کرنی پڑے گی۔
ان کی شخصیت کے اس روشن پہلو نے نہ صرف ان کے ساتھیوں کو متاثر کیا بلکہ اردگرد کے لوگوں اور ریلوے کے اعلیٰ حکام کو بھی بہت متاثر کیا۔ واضح رہے کہ ابھی چوہدری صاحب کا جماعت اسلامی سے کوئی تعارف نہیں ہوا تھا۔ جماعت اسلامی۱۴۹۱ءمیں قائم ہوئی تو کچھ ہی عرصے بعد چوہدری غلام محمدؒ ریلوے کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر جماعت اسلامی میں باقاعدہ شامل ہو گئے۔ ۴۴۹۱ءمیں وہ جماعت اسلامی کے رکن بنے (یہاں اس کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اُسی زمانے میں ریلوے میں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما میاں محمد شوکتؒ کوٹری اسٹیشن پر ہیڈ ایگزامنر کے طور پر ملازم تھے۔ وہ بھی اسی زمانے میں سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور واپس اپنے آبائی شہر سرہند شریف جا کر اُسی اسکول میں جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل تھی‘ میں سائنس کے استاد مقرر ہوئے۔)
چوہدری غلام محمدؒ کے بعد سندھ میں جن دو بھائیوں نے جماعت اسلامی کو منظم کیا ا±ن میں میاں محمد شوکتؒ اور ان کے چھوٹے بھائی میاں محمد علیؒ کا اہم کردارہے۔
چوہدری غلام محمدؒ نے سندھ میں جماعت اسلامی کی دعوت کو عام کرنے میں اپنی زندگی کھپائی۔ انہوں نے مولانا جان محمد بھٹو جیسی علمی شخصیت کو جماعت اسلامی سے متعارف کرایا جس کی وجہ سے سندھ میں جماعت اسلامی کی دعوت کو عام کرنے میں بہت آسانیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ مولانا جان محمد بھٹو کے بعد سندھ میں دوسری بڑی اہم شخصیت لاڑکانہ کے مولانا جان محمد عباسی تھے جو جماعت اسلامی میں شامل ہوئے (مولانا جان محمد عباسیؒ کا خاندان تحریک پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سرگرم خاندان سمجھا جاتا تھا۔ ان کے والد بھی ایک بڑے عالم دین تھے۔)
چوہدری غلام محمدؒ کے اہم کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے خاکسار تحریک کے تعلیم یافتہ اور بیدار مغز رہنما محترم محمد شفیع نظامانی جیسی شخصیت کو مولانا مودودیؒ کی کتابوں سے روشناس کرایا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے علاقے میں شاہ ولی اللہ کالج کے قیام کے لیے چوہدری صاحب کو ضلع حیدرآباد سے آگے بارو چو باغ اسٹیشن کے قریب اپنی دو سو ایکڑ سے زیادہ زمین شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج کے قیام کے لیے ہدیہ کی۔ اس کے لیے ادارہ تعمیر ملت قائم کیا گیا شفیع نظامانی صاحب کی درخواست پر اس ادارے کا صدر چوہدری غلام محمدؒ کو بنایا گیا جو اپنی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔ شاہ ولی اللہ کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر محمد سلیمؒ تھے جنہوں نے ایک بڑے سرکاری کالج کی ملازمت کو اس کے لیے خیرباد کہا۔ شاہ ولی اللہ کالج سے فارغ ہونے والے طلبا اپنے نام کے ساتھ ”منصوری“ لکھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کالج قائم ہونے کے بعد اس علاقے کا نام ”منصورہ سندھ“ رکھا گیا تھا۔ اس کالج میں مولانا جان محمد بھٹوؒ مستقل قیام پزیر رہے‘ وہ ایک طرح سے اس ادارے کے نگراں تھے۔ پروفیسر محمد سلیم صاحب جماعت اسلامی سے وابستہ علمی شخصیات کے علاوہ جماعت اسلامی سے باہر کی بھی کئی علمی شخصیات کو بطور استاد لے کر آئے جن میں ایک بڑا نام مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کا بھی تھا۔ ”لغات القرآن“ کے مصنف مولانا عبدالرشید نعمانیؒ کا شمار بھی شاہ ولی اللہ کالج کے سرپرستوں میں رہا۔ انہوں نے اپنے بیٹے عبدالشہید کو وہاں حصول علم کے لیے بھیجا بعدازاں انہوںنے کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا اور یہیں سے پروفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
چوہدری غلام محمدؒ کو اللہ نے ہمہ جہت صفات اور اوصاف سے نوازا تھا۔ وہ کم گو لیکن اپنے شخصی اوصاف اور عملی زندگی میں ہمہ وقت لوگوں کی خدمت میں مصروف رہنے کی وجہ سے جماعت اسلامی سے باہر کے حلقوں میں بھی ایک محترم شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے۔ یہاں اس کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ مرحوم جنرل ایوب خان کے زمانے میں کراچی میں این ایس ایف سے تعلق رکھنے والے طلبہ رہنماﺅں نے بھوک ہڑتال کی جس میں بائیں بازو کے معروف طالب علم رہنما مختار رضوی مرحوم بھی شامل تھے۔ بہت سے سیاسی رہنماﺅں نے ان کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ جب ان کی حالت غیر ہونے لگی تو لوگوں نے چوہدری غلام محمدؒ سے درخواست کی کہ آپ کوشش کرکے دیکھیں۔ تو چوہدری صاحب فوراً آمادہ ہوئے اور وہاں اپنے ساتھ جوس لے کر آئے اُن سے کہا کہ میری لاج رکھیں اور بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ میں آپ کے مطالبات کی حمایت میں آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ جس پر طلبہ نے بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ حالانکہ کسی کو امید نہ تھی کہ بائیں بازو کے لوگ جماعت اسلامی کے کسی رہنما کے کہنے پر بھوک ہڑتال ختم کریں گے۔
مختار رضوی نے کہا تھا کہ میں اُن کو (چوہدری غلام محمد کو) دیکھ کر انکار کی جرا¿ت ہی نہ کرسکا۔ چوہدری صاحب نے بھی اپنے وعدے کے مطابق طلبہ کے مطالبات کی حمایت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
چوہدری غلام محمدؒ سراپا ایثار کیش آدمی تھے‘ فیلڈر مارشل جنرل ایوب خان کے مارشل لاءنے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کے ساتھ اُن کے دفاتر بھی بہ حق سرکار ضبط کر لیے تھے۔ (ایسا کسی اور مارشل لاءمیں نہیں ہوا) جماعت اسلامی کا دفتر پاکستان چوک کے قریب حقانی چوک پر تھا جو جماعت اسلامی کے ایک رکن اُس وقت گیمن پاکستان کے چیف انجینئر انشاءاللہ خان کی اہلیہ نے جماعت اسلامی کے دفتر کے لیے عطیہ کیا تھا جو کہ کافی قیمتی پراپرٹی تھی۔ ۲۶۹۱ میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاءختم کرکے سیاسی جماعتوںکو بحال کیا تو جماعت اسلامی کے پاس اپنے دفتر کے لیے کوئی جگہ نہ تھی تو چوہدری غلام محمد صاحب نے آرام باغ روڈ پر واقع اپنا فلیٹ جس میں وہ رہائش پذیر تھے‘ خالی کرکے جماعت اسلامی کا دفتر قائم کرنے میں ایک دن بھی نہیں لگایا اور ناظم آباد میں کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئے جہاں ۷۶۹۱ءتک رہائش پزیر رہے‘ اس کے بعد ۷۶۹۱ءمیں وہ اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوئے۔ یہاں اس واقعہ کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے ذاتی مکان میں شفٹ ہونے سے پہلے جماعت اسلامی کراچی کے اجتماع ارکان میں اپنے مکان پر ہونے والے تمام اخراجات کی تفصیل اور اس کے لیے وسائل کا حساب پیش کیا تو جماعت اسلامی کے ارکان نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ آپ نے جماعت اسلامی سے تو کوئی پیسہ نہیں لیا۔ تو اُس پر اُن کا جواب تھا کہ کراچی کے امیر جماعت کی حیثیت سے یہ میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کو اپنے مالی معاملات کے بارے میں خود باخبر رکھوں۔
چوہدری غلام محمدؒ جماعت اور جماعت سے باہرکے حلقوں میں بھی ایک بالغ نظر سیاست دان کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے جو بین الاقوامی حالات خصوصاً مشرق وسطیٰ اور اسلامی ممالک میں چلنے والی تحریکوں سے پوری طرح باخبر رہتے اور وہاں دین کے احیاءکے لیے کام کرنے والی تحریکوں سے قریبی ربط و ضبط رکھتے۔ بعض حضرات انہیں جماعت اسلامی کا ”وزیر خارجہ“ بھی کہتے تھے۔ اس میں کیا شک کہ وہ گفتگو اور تحریر میں نہایت سلیقہ اور سوچ بچارکے بعد زبان کھولتے اور قلم اٹھاتے۔ انہوں نے انڈونیشیا کی آزادی کے بعد پہلے وزیر اعظم ڈاکٹر محمد ناصر کے ساتھ ۰۶۹۱ءکے عشرے میں مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے کے بعد جو ”مڈل ایسٹ کرائسز“ کے نام سے انگریزی میں کتاب لکھی‘ جسے محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے نظرِ ثانی کے بعد شائع کی تھی‘ اس کا عملی ثبوت ہے کہ انہیں دنیا کو وسیع تناظر میں دیکھنے کا کس قدر ملکہ حاصل تھا۔ وہ بین الاقوامی اور عالم اسلام کے معاملات کے ساتھ ملک کی داخلی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔۴۵۹۱ءمیں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اسمبلی توڑ کر۴۵۹۱ءکا دستور نافذ ہونے سے پہلے ہی ختم کرنے کا ارتکاب کیا حالانکہ دستور ساز اسمبلی تمام مراحل مکمل کرنے کے بعددستور کی منظوری کا اعلان کر چکی تھی۔ ملک غلام محمد نے یہ کہہ کر شب خون مارا کہ اس پر گورنر جنرل کے توثیقی دستخط موجود نہیں اور اس وقت کے چیف جسٹس ‘ جسٹس محمد منیر نے یہ کہہ کر ملک غلام محمد کے اس عمل کو دوام بخشا کہ تیکنیکی بنیاد پر سندھ چیف کورٹ کو یہ کیس سننے کا اختیار حاصل نہیں۔ واضح رہے کہ سندھ چیف کورٹ نے ملک غلام محمد کے مذکورہ اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
چوہدری غلام محمدؒ اُن چند شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے مولانا ظفر احمد انصاری کی قیادت میں مولوی تمیز الدین کو اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کا اقدام عدالت میں چیلنج کرنے کے لیے آمادہ کیا اور اس کے لیے وسائل جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد مرحوم نے فراہم کیے تھے۔ اس وفد میں ڈاکٹر الٰہی علوی (سابق صدر عارف علوی کے والد)‘ پاکستان مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری منظر عالم اور بار کے سیکرٹری شامل تھے۔ چوہدری صاحب کا جماعت اسلامی سے باہر کے حلقوں میں بھی کس درجہ احترام تھا اس کا مظہر ان کے جنازے کا یہ منظر ہے کہ وہاںاے کے بروہی جیسی شخصیت جنازے کے پاس زمین پر بیٹھے زاروقطار رو رہے تھے۔
غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ مرحوم (ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے استاد) تو چوہدری غلام محمدؒ کو اپنا مربی کہا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کراچی میں کئی بار غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ کے ہاں قیام پزیر بھی رہے ویسے مولانا عام طور پر نقی نواب مرحوم‘ پروفیسر عبدالغفور مرحوم کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے۔
اگر ۸۵۹۱ءکا مارشل لاءنہ لگتا تو کراچی سے چوہدری غلام محمدؒ کی نگرانی میں روزنامہ ”قاصد“ کے نام سے اخبار نکالنے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں جس کے ایڈیٹر کے لیے اُس وقت روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر یوسف صدیقی مرحوم کا نام سامنے آیا تھا۔ جب کہ نیوز ایڈیٹر کے طور پر احمد اسحاق مرحوم کا نام طے پایا تھا۔ واضح رہے کہ ان کے چھوٹے بھائی عارف اسحاق اپنے انتقال تک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے۔ یوسف صدیقی مرحوم زندگی بھر چوہدری غلام محمدؒ کو یاد کرتے ہوئے رو دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ”میرا بھائی بہت جلد رخصت ہو گیا۔“ چوہدری غلام محمدؒ کی وجہ سے پاکستان سے کئی طلبا مکہ مکرمہ اور عراق کی جامعات میں اسکالر شپ پر حصول تعلیم کے لیے گئے۔ ان میں سے کئی مکہ مکرمہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک گئے۔
چوہدری غلام محمدؒ نے ہی ڈھاکہ سے روزنامہ ”سنگرام“ اور کراچی سے روزنامہ ”جسارت“ کے اجراءمیں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ (واضح رہے کہ روزنامہ جسارت ملتان سے ادارہ اردو ڈائجسٹ کے تحت نکلا تھا اور کراچی سے اس کے لیے چوہدری غلام محمد صاحب نے ”آزاد پیپرز لمیٹڈ“ کے نام سے ادارہ نقی نواب صاحب کی چیئرمین شپ میں قائم کیا تھا۔ اور اس کے لیے انہوں نے محترم الطاف حسن قریشی صاحب سے فاران کلب کے نائب صدر سید مقدس علی کی قیام گاہ پر مشاورت کی تھی اور کراچی سے جسارت نکلا اس کے چیف ایڈیٹر بھی جناب الطاف حسن قریشی ہی رہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد الطاف حسن قریشی صاحب نے جسارت کا ڈیکلیئریشن آزاد پیپر لمیٹڈ کے نمائندے سید ذاکر علی صاحب کے نام منتقل کر دیا تھا۔)
آخر زمانے میں جب چودھری غلام محمد صاحب کی طبیعت خراب تھی‘ تو ایک دن اچانک اپنے گھر سے چلے گئے۔ گھر والے پریشان کہ کہاں چلے گئے۔ کافی دیر بعد جب وہ رکشے میں واپس آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آپ کہاں چلے گئے تھے‘ آپ کی تو طبیعت خراب ہے۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایک مخیر صاحب نے جن سے میں نے روزنامہ ”سنگرام“ ڈھاکہ کے لیے تعاون کی درخواست کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ میں ضرور تعاون کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ آپ خود تشریف لائیں۔ تو میں وہاں چلا گیا تھا اور انہوں نے جو رقم دی وہ بینک کے ذریعے ڈھاکہ بھجوا کر واپس آگیا۔ یہ ان کی خصوصیت تھی کہ وہ اپنے ایسے معاونین کو جو خیر کے کام میں اپنا نام پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے اُن کا نام ظاہر کرنے سے گریز کرتے تھے۔ کیوںکہ وہ بہت پُر آشوب دور تھا اور حکومتِ وقت ایسے لوگوں کی ٹوہ میں رہتی تھی جو حکومت کے ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے تھے۔ اس ناچیز کو ایک ذاتی تجربہ بھی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں ایک جلسے میں حکومت مخالف نعرے لگانے پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کئی لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اُن کی ضمانت کے لیے جماعت اسلامی کے کئی ارکان نے اپنے گھروں کے کاغذات ضمانت کے طور پر عدالت میں پیش کیے تو عدالت نے حکومت کے دباﺅ پر انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ضمانت کے لیے کیش جمع کرائیں۔ اتنی رقم کسی کے پاس بھی موجود نہیں تھی۔ جب چوہدری غلام محمدؒ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس ناچیز کو جوڑیا بازار کے ایک تاجر حاجی احمد حاجی کریم کے نام چٹھی دے کر بھیجا کہ ان طلبہ کی آپ ضمانت کروا دیں۔ انہوں نے فوراً اپنے منیجر کو بینک سے کیش نکلوا کر میرے ساتھ سٹی کورٹ بھیجا اور ان کی ضمانت کروائی۔ وکیل کے طور پر کوئی فیس لیے بغیر حسین حقانی کے والد میجر (ریٹائرڈ) سلیم حقانی اور راجہ حق نواز مرحوم پیش ہوئے۔
چوہدری غلام محمد صاحب نے ہی کراچی میں حلقہ¿ صحافت اور لیبر ونگ بھی قائم کیا۔ اس لیبر ونگ نے بہت سے صنعتی علاقوں میں مزدوروںکے لیے کام کیا وہیں پی آئی اے میں بائیں بازو کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ”پیاسی“ کو منظم کیا۔ لیبر ونگ میں ملک محمد شفیع صاحب کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
چوہدری غلام محمد مرحوم کے دور میں جماعت اسلامی کا ایک اہم کارنامہ ”مٹھی آٹا اسکیم“ بھی تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن ہر ہفتے لوگوں کے گھروں میں ایک کنستر رکھ جاتے تھے جس پر لکھا ہوتا تھا کہ ”جب آپ اپنے گھر والوں کے لیے آٹا گوندھیں تو ایک مٹھی آٹا اس کنستر میں اُن کے لیے بھی ڈال دیں جن کے گھروں میں آج آٹا نہیں ہے۔“ یہ اسکیم اتنی کامیاب رہی کہ سعود آباد جیسے پسماندہ علاقے میں بھی ہر ہفتے ۰۴ من آٹا جماعت اسلامی کے کارکن مستحق گھروں میں پہنچایا کرتے تھے۔
چوہدری غلام محمد مرحوم نے ”مکتب چراغِ راہ“ اور ماہنامہ ”چراغِ راہ“ سید کاظم علی مرحوم کی شراکت میں قائم کیا تھا۔ ماہنامہ چراغِ راہ کے ایڈیٹر پروفیسر خورشید صاحب رہے۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا ءختم ہونے کے بعد ۲۶۹۱ءمیں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلامک ریسرچ اکیڈمی (ادارہ معارف اسلامی) کراچی میں قائم کیا جس کے صدر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے اور نائب صدر مولانا ناظم علی ندویؒ جب کہ میاں طفیل محمدؒ ‘ مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا منتخب الحق قادری، ڈاکٹر الٰہی علوی، پروفیسر خورشید احمد اور چوہدری غلام محمدؒ اس ادارے کے رکن کے ساتھ ساتھ اعزازی سیکرٹری بھی رہے۔
اس ادارے کی ابتداءمیں طویل عرصے تک ملک بھر سے اہلِ علم تین‘ تین ماہ کے لیے تشریف لایا کرتے تھے اور جدید تعلیم یافتہ تشنگانِ علم کو تفسیر‘ حدیث اور فقہ کے کورس کرواتے جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسنؒ اپنے ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر ممتاز احمد مرحوم بھی اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں کام کرتے تھے۔ اس ناچیز کو اسلامی جمعیت طلباءمیں وہی لے کر آئے تھے اور جماعت اسلامی کے کسی جلسے میں پہلی بار۴۶۹۱ءمیں ککری گراﺅنڈ میں اپنے ساتھ لے کر گئے تو اس ناچیز نے یہ منظر دیکھا کہ چوہدری غلام محمدؒ اپنے کارکنوں کے ساتھ جلسے میں دریاں بچھا رہے تھے اور کچھ دیر کے بعد سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو چوہدری غلام محمد صاحب ان کو لے کر اسٹیج پر پہنچ گئے۔ میرے لیے یہ حیرت تھی کہ جماعت اسلامی نے پوسٹر میں جو وقت جلسہ کا لکھا تھا اس میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ ٹھیک اُسی وقت جلسہ شروع ہوا اور جو مقررہ وقت تھا اس پر اختتام ہوا۔
یہ ناچیز اسلامی جمعیت طلبہ میں آنے سے پہلے جس زمانے میں این ایس ایف کا ایک عام کارکن تھا‘ میرے ایک مرحوم دوست مجھے اپنے ساتھ جماعت اسلامی کی ایک تقریب میں لے کر گئے تھے‘ یہ زمانہ بھی چوہدری غلام محمدؒ کا تھا۔ جماعت اسلامی کراچی نے پہلی میت گاڑی خریدی تھی جس کی تقریب سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے خطاب کیا جس کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ ”میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ خدمتِ خلق کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ خود مقصد اور قرب الٰہی کے حصول کا مو¿ثر ذریعہ ہے۔“
جنرل ایوب خان نے۴۶۹۱ءمیں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو پابند سلاسل کر دیا تھا‘ سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی پر پابندی کو غیر قانونی قرار دے کر جماعت اسلامی کو بحال کیا اس کے بعد کراچی میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا مادرِ ملت کی حمایت میں پہلا انتخابی جلسہ تھا۔ (واضح رہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے جیل میں مقید ہونے کے باوجود مادرِ ملت کی حمایت کے فیصلے کا اعلان کر دیا تھا اور جماعت اسلامی کے کارکن ملک بھر میں پوری سرگرمی کے ساتھ مادرِ ملت کی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ اس جلسے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جنرل ایوب خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”آپ کہتے ہیں کہ میں نے مارشل لا ءاس لیے لگایا تھا کہ سیاست دان آپس میں لڑ رہے تھے‘ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے گھر کی حفاظت کے لیے بندوق بردار چوکیدار رکھے اور وہ یہ کہہ کر گھر پر قبضہ کر لے کہ گھر والے آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ جناب جنرل ایوب خان صاحب آپ کی اس دلیل نے تو آپ کو ملک کی حفاظت کے لیے جو بندوق دی تھی وہ آپ نے اس ملک کے شہریوں پر تان لی۔ آپ کو یہ بندوق ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دی تھی‘ آپ کے اس اقدام نے آپ کو ملک کی چوکیداری کے لیے بھی نااہل کر دیا ہے۔ آپ محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہیں کیا وہ کسی مہذب آدمی کے لیے روا ہو سکتی ہے؟ میرے نزدیک تو آپ کا یہ فعل نہایت شرم ناک ہے۔ یہاں یہ ذکر غیر ضروری نہیں ہوگا کہ چوہدری غلام محمدؒ ایوب خان کے دور میں ایک بار پہلے بھی اس جرم میں گرفتار ہوئے تھے کہ انہوں نے غلام احمد پرویز کا وہ خط شائع کیا تھا جو انہوں نے ایوب خان کو لکھا تھا کہ ”آپ ہمیں فنڈ فراہم کر دیں تو ہم جماعت اسلامی کا قلع قمع کر دیں گے۔“ یہ خط شائع کرنے پر چوہدری غلا م محمدؒ کے ساتھ ا±س وقت کے جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات اسحاق صدیقی مرحوم اور ہوم ڈپارٹمنٹ میں جماعت کے ایک ہمدرد مسعود مسقطی بھی گرفتار ہوئے تھے۔ ایوب خان کے دور میں ہی چوہدری غلام محمد مرحوم پر ایک بغاوت کا مقدمہ بھی قائم ہوا تھا کہ انہوں نے بلوچ لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی جس میں سردار عطا اللہ خان مینگل‘ خیر بخش مری اور حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان بھی شریک تھیں۔
چوہدری غلام محمدؒ اپنے آخری بیرون ملک سفر سے کراچی تشریف لائے‘ اگرچہ اُن کی صحت بہت اچھی نہیں تھی تاہم اس ناچیز نے اُن سے درخواست کی کہ آپ فاران کلب‘ جس کا یہ ناچیز اُس وقت اعزازی جنرل سیکرٹری تھا‘ آپ عالم اسلام‘ اسلام کی نشاة ثانیہ‘ اسباب اور امکانات کے موضوع پر ایک لیکچر دیں۔ چوہدری صاحب نے میری یہ درخواست قبول کی اور فاران کلب کے صدر عبدالرحمن چھاپرا مرحوم کی رہائش گاہ کے لان میں ایک گھنٹے سے زیادہ مفصل گفتگو فرمائی جو اُس وقت ریکارڈ کی گئی تھی مگر بدقسمتی سے بعد میں ضائع ہو گئی۔ اس خطاب میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میری دلی خواہش اور تمنا تو یہ ہے کہ یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہو اور برصغیر بشمول پاکستان کو اللہ نے یہ اعزاز تو ضرور بخشا ہے کہ فکری رہنمائی کے لیے یہاں بہت کام ہوئے لیکن جب میں اللہ کی سنت پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اللہ نے یہ اعزاز آزاد قوموں کو بخشا ہے اور میری نگاہیں اسلامی نشاة ثانیہ کے لیے ترکی سے ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
چوہدری غلام محمدؒ نے اپنی زندگی میں کبھی بلدیاتی‘ صوبائی یا قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا لیکن انہوں نے۸۵۹۱ءمیں کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ۰۰۱ ارکان کے ہاﺅس میں جماعت اسلامی کے 21 ارکان کو کھڑا کیا جس میں ایک کے سوا تمام ارکان کامیاب ہوئے جن میں پروفیسر غفور احمد ‘ محمود اعظم فاروقی‘ افتخار احمد‘ معروف سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی (جو اُس وقت جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت خلق میں کام کرتے تھے) شامل تھے۔
کراچی میں دارالحکومت قائم ہونے کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی اہم شخصیات سے ان کا میل جول رہا جن میں علامہ سید سلمان ندویؒ‘ علامہ شبیر احمد عثمانی‘ مفتی اعظم پاکستان محمد شفیعؒ‘ ڈاکٹر حمیداللہؒ اور بے شمار دیگر صاحبانِ علم سے ان کا ربط و ضبط آخر سانس تک رہا۔ مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے تو ان کا تعلق اتنا گہرا تھا کہ وہ کراچی میں ہوتے تو رات کو گھر جانے سے پہلے اُن سے ملنے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ اگر کراچی یا ملک سے باہر ہوتے تو واپسی پر اُن کے پاس آتے اور پھر گھر جاتے تھے۔
۷۵۹۱ءمیں جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع ارکان ماچھی گوٹھ تحصیل صادق آباد میں چوہدری غلام محمدؒ کی امارت میں ہوا۔ چوہدری غلام محمدؒ کی خواہش اور میزبان سردار امین خان لغاری کے اصرار پر (جن کی فیکٹری میں یہ اجتماع ہوا تھا) مولانا انصاری بھی وہاں موجود تھے۔ مولانا انصاری کی خواہش تھی کہ جماعت میں جو اس وقت اختلاف رائے پایا جا رہا ہے وہ کسی طرح ختم ہو اور یکسوئی پیدا ہو۔ مسئلہ اس وقت زیر بحث یہ تھا کہ کچھ بزرگوں کا یہ خیال تھا کہ دعوتی کام سیاسی کام کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے اہم بات یہ تھی کہ بعض حضرات کا رجحان دعوت و تبلیغ کی طرف زیادہ تھا۔ اس کے حل کے لیے ایک تجویز پیش ہوئی کہ مولانا امین احسن اصلاحی ؒکی قیادت میں ایک شعبہ¿ دعوت و تبلیغ قائم ہو اور دوسرا سیاسی امور کا۔ اس کے لیے ملتان سے تعلق رکھنے والے باقر علی خان مرحوم کا نام سامنے آیا تھا۔ اور وہ اعلیٰ سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے۔ اور ان کا اثر و رسوخ بھی بہت تھا۔ ان کا انتقال ہوا تو پورا ملتان شہر ان کے سوگ میں بند رہا۔
چوہدری غلام محمدؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے مولانا مودودیؒ کراچی تشریف لائے اور ناظم آباد میں نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا:
”چوہدری غلام محمد مرحوم نے جس جوش‘ محنت اور وقت و مال کی قربانی کے ساتھ دین کی خدمت کی ہے‘ اُس کی میں تعریف نہیں کرسکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں اور اس ملک کے لاکھوں باشندے گواہ ہیں کہ چوہدری صاحب نے دین کی خدمت میں دانستہ کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اپنی حیات کا خطرہ مول لے کر انہوں نے یہ کام کیا۔ خرابی¿ صحت کے باوجود انہوںنے بیرون ممالک سفر کیے۔ ان کی کوششوں سے افریقہ میں اسلامی مرکز قائم ہوا۔ چوہدری صاحب فلسطین کے مسئلے پر تمام اسلامی ممالک میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے۔ خدا کے ہاں اُس کے بندوں کی گواہی مقبول ہوتی ہے اور آپ سب گواہ ہیں کہ چوہدری صاحب نے حتیٰ الوسع دین کی خدمت کی۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو وہ انہیں معاف فرما دے۔“
(نوٹ: چوہدری غلام محمد ؒ کی حیات وخدمات پر زیر طبع کتاب سے ایک مضمون۔)