فون ریکارڈنگ: حلال یا حرام : تحریر انصار عباسی


وفاقی حکومت نے قومی سلامتی کے مفاد میں کسی جرم کے خدشہ کے پیش نظر آئی ایس آئی کے نامزد افسر کو فون یا موبائل کال یا میسج کو سننے یا ریکارڈ کرنے کا اختیار دے دیا، جس کی منظوری دو روز قبل وفاقی کابینہ نے دی ہے۔ جنگ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے اس سلسلے میں باقاعدہ سمری کی منظوری دی۔ اس اقدام کو تحریک انصاف نے رد کرتے ہوے عندیہ دیا کہ حکومت کے اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ جاری کیے گئے ایس آراو میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس سلسلے میں قانون پہلے سے موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ ایس آر او ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں حکومت اور انٹیلیجنس اداروں سے فون ٹیپنگ کے معاملہ پر قانونی جواز سے متعلق جواب طلبی کی۔ بظاہر حکومت کے اس اقدام کا تعلق اسلام ہائی کورٹ کے کیس سے ہے لیکن اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ ایجنسیاں فون ٹیپنگ کرتی ہیں۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو فون ریکارڈنگ کا یہ کام ایک لمبے عرصہ سے جاری و ساری ہے۔ اس کا ایک بنیادی مقصد بلاشبہ ملک کی سیکورٹی کے معاملات اور دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو پکڑنے سے جڑا ہوا ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ یہ فون ٹیپنگ کا عمل سیاسی مقاصد اور بلیک میلنگ کیلئے بھی ایجنسیوں اور حکومتوں کی طرف سے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ وہ معاملہ ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ تاہم اعتراض کرنے والوں، یا فون ٹیپنگ کے عمل کو سیاسی مقاصد اور بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرنے والوں کا اپنا موقف وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ حکومت کے حالیہ فیصلے کی سب سے بڑی مخالف آج تحریک انصاف ہے جس کے بانی چیئرمین عمران خان جب وزیراعظم تھے تو اُس وقت اُنہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایجنسیوں کی طرف سے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے فون ریکارڈ کرنے کے عمل کو درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا بھر میں ایجنسیاں حکمرانوں سمیت اہم افراد کے فون ریکارڈ کرتی ہیں۔ عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اس فون ریکارڈنگ سے ڈرنا اُس کو چاہیے جو کرپٹ ہو۔ خان صاحب ایجنسیوں کو کرپشن کے خاتمہ کیلئے بھی استعمال کرنے کے حق میں تھے۔ جب اُن کی حکومت گئی تو پھر آڈیوز پر آڈیوز لیک ہونا شروع ہو گئیں جن کا سب سے بڑا نشانہ عمران خان خود تھے۔ اب خان صاحب اور تحریک انصاف ایجنسیوں کی طرف سے فون کال ریکارڈنگ کے قانونی اور اخلاقی جواز پر سوال اُٹھاتے ہیں، اسے بلیک میلنگ قرار دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ اختیار ایجنسیوں کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا بھر کی ایجنسیاں فون ریکارڈنگ کے کام میں شامل ہیں اور امریکا کے حوالے سے تو یہ خبریں بھی سامنے آ چکیں کہ اُس کی ایجنسیاں تو دنیا بھر کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کے فون ریکارڈ کرتی رہی ہیں اور شاید اب بھی کر رہی ہوں گی۔ میری ذاتی رائے میں ملکی سلامتی، سیکورٹی اور دہشتگردی کے معاملات میں فون ریکارڈنگ وغیرہ انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلہ میں ایجنسیوں کے کام میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ دہشتگردی میں کون شامل ہے، کون نہیں، پاکستان کی سالمیت اور سیکورٹی کے لیے کون خطرہ بن رہا ہے، کون کس روپ میں پاکستان کے خلاف کیا سازش کر رہا ہے ان سب معاملات کو دیکھنا یقیناً ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں کسی کا بھی فون ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ اعتراض تب ہوتا ہے جب اس اختیار کو کسی کو گرانے، بدنام کرنے یا پروپیگنڈااور سیاسی مقاصدکیلئے استعمال کیا جاتا ہے جس کی روک تھام ضروری ہے۔کسی کی بھی آڈیو لیک کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد کچھ آڈیو لیکس ایسی سامنے آئیں جن میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو ڈی ریل کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنے کا گھٹیا کھیل شامل تھا۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ ایسی آڈیوزکو لیک کر کے سیاسی مقاصد اور پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرنے کی بجائے متعلقہ حکام کے ذریعے باقاعدہ قانونی کارروائی کی جانی چاہیے جس کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے ایک ایسا میکنزم بنایا جائے کہ قصور وار احتساب سے بچ نہ پائے جب کہ ایجنسیوں کی بھی آڈیوز کو لیک کرنے، سیاسی مقاصد اور بلیک میلنگ کیلئے اپنے اس اختیار کو استعمال کرنے پر جواب دہی ہونی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ