وطن کی ساکھ پانی ہورہی ہے
یہ کیسی حکمرانی ہورہی ہے
اچانک 27مئی کی شام یہ اعلان ہوتا ہے کہ اگلے روز 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر ملک میں عام تعطیل ہوگی۔ سارے سرکاری اور نجی ادارے بند رہیں گے۔ یہ فرمان بھی دفتری اوقات کار کے دوران جاری نہیں ہوا۔ سرکاری ملازمین رات بھر گھروں پر بے چین رہے۔
ایڈہاک ازم اور کیا ہوتا ہے۔ پہلے سے کوئی تیاری نہ کرنا۔ معمول کے سب کام چھوڑ کر اس فرمان شاہی کے مطابق سارے کام جلدی جلدی نمٹانا۔ حالانکہ ایک اشتہار جو بار بار چل رہا ہے اس میں بھی کہا جارہا ہے۔ ’نکھار میں Noجلدی‘۔ انہی عبوری رویوں نے اداروں کو دوام اور پختگی نہیں ملنے دی۔ ہر عجلت ایک بے یقینی ساتھ لے کر آتی ہے۔ ہمیں دنیا بار بار کہتی ہے کہ پاکستان والے خود کوئی روڈ میپ بنائیں کہ آئندہ دس پندرہ سال کیسے گزارنے ہیں۔ یا دو دہائیوں بعد پاکستانی کیسا ملک چاہتے ہیں ہم تو ایک سال کیا،ایک مہینے کیا، ایک ہفتہ کیا، ایک دن کا بھی روڈ میپ نہیں بناتے۔ دن کے دن بھی تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔ 28 مئی 2023 کو بھی پتہ تھا کہ 28 مئی 2024 آئیگی۔ 8فروری 2024 کو بھی علم تھا کہ یوم تکبیر آئے گا۔ پھر 4مارچ کو جب فارم 47 کی بنیاد پر وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کے عظیم منصب کا حلف اٹھایا اس وقت بھی معلوم تھا کہ یوم تکبیر آئے گا۔جب 20 دسمبر2023 کو ریاست 2024 کیلئے چھٹیوں کا اعلان کررہی تھی۔ اس وقت بھی کیلنڈر پر 28مئی 2024 جھلملا رہا تھا۔ اب اعلان میں کہنا پڑا ہے کہ اس نوٹیفکیشن میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ چھٹی کی جارہی ہے۔
ایسا کیا ہنگامی سبب بنا کہ یہ چھٹی ناگزیر ہوگئی ۔قطعی نہیں سوچا گیا کہ لاکھوں طالب علموں نے راتیں جاگ جاگ کر امتحانات کی تیاری کی ہوگی۔ ایک پرچے کا امتحان منسوخ یا ملتوی ہونے سے سارا شیڈول متاثر ہوجاتا ہے۔ امتحانات کی ترتیب، پھر نتائج کے اعلان کے دن کی تبدیلی، اگلی کلاسز کے داخلے، ملتوی شدہ امتحان کیلئے پھر جگہوں کا انتخاب۔ کاش حکمرانوں کی اولادیں بھی کبھی امتحان دے کر پاس ہوتیں۔
اس طرح ذیلی عدالتوں، ڈسٹرکٹ سیشن کورٹوں، ہائی کورٹوں، سپریم کورٹوں میں مقدمات کی سماعتیں بھی لٹک گئیں۔ پہلے ہی کتنے ہزاروں لاکھوں مقدمات التوا میں ہیں، کتنے قیدیوں کو آس ہوتی ہے کہ وہ حوالات، جیل کی چار دیواری سے شہر کی کھلی فضا میں جائیں گے۔ وکیلوں سے ملاقات ہوسکے گی کتنی بزنس میٹنگیں ہوں گی جو ملتوی کی گئی ہوں گی۔ جس قوم پر ہزاروں ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ ہو جو ہر لمحے اس لیے خون پسینہ ایک کررہی ہو کہ یہ قرضے اتر سکیں۔ اس کے 24 گھنٹے بغیر کام کے گزریں گے۔ کتنا بڑا خلا پیدا ہو جائے گا۔یہ تو ماہرین اقتصادیات، اسکالرز ہی بتاسکیں گے کہ ایک روز کی چھٹی سے کتنے ارب کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں میں مذاکرے، سیمینار، بھی ملتوی کیے گئے ہیں۔
سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہم پہلے سے منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے۔ ایسی حکمرانی سے غیر یقینی حالات کیوں پیدا کرتے ہیں۔ یوم تکبیر۔ یقیناً پاکستان کیلئے ایک افتخار کا، انبساط کا دن ہے۔ عام کام کے دنوں میں یوم تکبیر زیادہ بہتر انداز میں منایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم قوم سے خطاب کرتے۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تقریر نشرکرتے۔ یہ اشتہار جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ کام کے دن دفتروں میں زیادہ دیکھے جاتے اور آپس میں تبادلہ خیال بھی ہوتا۔بینکوں کی شاخوں میں بھی آنے جانے والے یہ اشتہار دیکھتے۔ ہر دفتر میں تقریب رکھ کے ایٹمی کیک کاٹے جاسکتے تھے۔ اسکولوں کی اسمبلیوں میں بچے ایٹمی ترانے گاتے۔جب بھی تخمینہ لگایا جائے گا، اس چھٹی کے اعلان سے کسی بھی پہلو سے فائدہ کم، نقصانات زیادہ ہوں گے۔
جس ایٹمی طاقت پر فخر کیا جارہا ہے اس پروگرام کا آغاز کرنے والے کو 4اپریل 1979 ءکو پنڈی کی جیل میں اس ریاست نے پھانسی پر چڑھایا، بم کیلئے یورینیم افزودہ کرنے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایک قیدی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔جبکہ ہمسایہ ملک میں ایٹمی سائنسدان کو ملک کا صدر بنایا گیا۔ پروگرام کو تسلسل سے فنڈز جاری کرنے والے غلام اسحاق خان کو صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ 28مئی 1998ءکو بم کا تجربہ کرنے کی اجازت دینے والے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دوبار وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کیا گیا۔ جیل میں ڈالا گیا۔ اور اب اسے چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کے لیے لایا گیا لیکن منتخب ہونے کے باوجود اسے یہ منصب نہیں دیا گیا۔وقتی شہرت، عبوری مقبولیت کی خاطر ہم شو بزنس والے تماشے کرتے ہیں، اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں، عشق دوام مانگتا ہے، ملک سے عشق،مقصد سے لگن، ہر وقت مملکت کی بقا کیلئے منصوبے ہر شعبے میں تشکیل دینے کا تقاضا ہے۔
عشق صدیوں کی لگن مانگتا ہے
ہم مہینے کے مہینے والے
پاکستان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اس کا محل وقوع انتہائی حساس اور عالمگیر اہمیت کا حامل۔ صدیوں کی گزرگاہ پھر 60فی صد نوجوان آبادی والا توانا جوان ملک۔ کاش اسے اس کی اہمیت، حساسیت اور امکانات کے مطابق کوئی قیادت بھی نصیب ہوجائے۔
اس ہفتے ہم ایک عظیم پاکستانی، ہمہ جہت فنکار، انسان دوست انسان 83 سالہ طلعت حسین سے محروم ہوگئے۔ سلیقے، قرینے ادب آداب سخن فہمی کا ایک عہد بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ یہ جو عشرے تھے۔ پاکستان میں درد مندی کے، سنجیدگی کے، تدبر کے وہ طلعت حسین،طارق عزیز،حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ اب جو اداکار، اداکارائیں جلوہ گر ہیں۔ وہ تو برانڈز کے کھوکھوں پر کھڑے متحرک سیلز پرسن ہیں۔ مکالمے بک رہے ہیں، تاثرات نیلام ہورہے ہیں، محسوسات پر مقررہ داموں کے ٹیگ لگے ہیں۔ کہانی ایک ہی ہے، ڈرامے ہزاروں۔ طلعت حسین گہری سوچ اور مطالعے کے آدمی تھے۔ آپ ان کے ساتھ چائے کی پیالی پر بیٹھتے تو کتنے ادوار سے گزرنے کا موقع ملتا، ترقی پسندی، مزاحمت،سماجی زبوں حالی، ہمسایہ ملک میں فن اور فنکار کی قدر۔ کیا کیا موضوعات پر بات ہوتی، آج متانت اٹھ گئی دنیا سے۔ ان ہی سفاک دنوں میں ہمارے ’اخبار جہاں‘ کے ساتھی سید وجاہت علی بھی اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوگئے۔ 60 ءاور 70ءکی دہائی کے مقبول سفر نامہ نگار۔ 70روپے میں سیر جہاں، اس وقت کے قارئین کی نسل میں بہت مقبول سلسلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ