جناب سلمان اکرم راجہ ہمارے ملک کے ممتاز قانون دان اور وکیل ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز پر ان کی گفتگو خاصی سنجیدہ اور فہمیدہ ہوتی ہے ۔پچھلے کچھ عرصہ سے وہ پی ٹی آئی سے وابستہ ہو کر بانی پی ٹی آئی کو دل دے چکے ہیں۔
8فروری2024 کے انتخابات میں انھوں نے لاہور سے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم اور پی ٹی آئی کے عشاق کی حمایت سے ایم این اے کا الیکشن بھی لڑا تھا ۔ عون چودھری صاحب کے مقابل۔ راجہ صاحب مگر بوجوہ عون چودھری سے ہار گئے ۔
یہ شکست ابھی تک سلمان اکرم راجہ صاحب نے دل و جان سے تسلیم کی ہے نہ آن دی ریکارڈ ۔ راجہ صاحب پی ٹی آئی کے ان رہنماوں میں شامل ہیں جو باقاعدہ اور عقیدت و محبت سے اپنے اسیر رہنما اور بانی پی ٹی آئی سے ملنے کے لیے اڈیالہ جیل جاتے ہیں۔
اگلے روز جناب سلمان اکرم راجہ صاحب اڈیالہ جیل پہنچے تو واپسی پر یوں ٹویٹ کیا: اپنے قائد جناب عمران خان سے بات چیت کرنا روح افزائی کا باعث بنتا ہے ۔ ملاقات میں اکثر اچھی اچھی کتابوں پر تبادلہ خیال بھی ہوتا ہے ۔ عمران خان صاحب گہری توجہ سے اور جم کر پڑھنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
پچھلی بار جب ان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے روسی ناول نگار ، لیو ٹالسٹائی ، کے ایک مشہور ناول حاجی مراد کا ذکر کیا ۔ حاجی مراد 19ویں صدی کے معروف چیچن مزاحمتی لیڈر اور مجاہدِ آزادی تھے اور ٹالسٹائی ان کے بے حد مداح۔ اگلی ملاقات کا وقت ہوا تو سلمان اکرم راجہ صاحب اپنے محبوب لیڈر ، جناب عمران خان ، کے لیے ان کی رغبت اور پسندیدگی کے عین مطابق کچھ کتابیں تحفتا لے گئے۔
انھوں نے اِن کتابوں کے عکس بھی ٹوئٹر پر اپنے فالورز سے شیئر کیے ۔ راقم نے یہ عکس دیکھے تو مجھے دکھائی دیا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب لیو ٹالسٹائی کی لکھی دو کتابیں (War And PeaceاورThe DEATH OF IVAN ILYICH)بھی لے گئے تھے اور معروف چینی حکمران ماو کی تحریر کردہ Selected Works of Mao Zedong بھی ۔
راجہ صاحب کی جانب سے پی ٹی آئی کے اسیر رہنما کو تحفے میں پیش کی گئی ان کتابوں سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خان صاحب کا ذوقِ مطالعہ کیسا شاندار ہے!خان صاحب خود بھی تو صاحبِ تصنیف سیاستدان ہیں ۔ جیل یاترا نے ان کے ذوقِ مطالعہ کو مزید جِلا بخشی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جیل یاترا کے انھیں کئی سیاسی فائدے ملے ہیں، وہیں ذہن کشا کتابیں پڑھنے کے وافر مواقع بھی میسر آئے ہیں۔ اوریہ نعمت کم نہیں ہے ۔
خان صاحب کے دور میں بوجوہ نواز شریف، شہباز شریف، محترمہ مریم نواز ایسے کئی نون لیگی رہنما بھی جیل کے باسی بنائے گئے مگر ہم نے کم کم سنا کہ کبھی وہ بھی پسِ دیوارِ زنداں کتابیں پڑھتے پائے گئے یا کسی چاہنے والے نے انھیں بھی کتابوں کے تحائف پیش کیے ۔نون لیگی قیادت اور پی ٹی آئی قیادت میں یہاں سے ہی بنیادی فرق محسوس کیا جا سکتا ہے ۔
سانحہ 9مئی کے پس منظر میں زندانوں میں بوجوہ ڈالے گئے پی ٹی آئی کے نمایاں کارکنان اور لیڈروں میں ایک صاحب پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے قریبی عزیز ہیں۔
ان کے والدصاحب نے اپنے اسیر بیٹے سے ملاقات کرنے کے بعد ٹویٹ کی ہے کہ ان کا بیٹا قرآن شریف کی 20سورتیں یاد کر چکا ہے۔ سیرت رسولۖ پر 3کتابیں اور درجنوں دوسری کتابوں کا مطالعہ کر چکا ہے ۔ آج تمام فیملی کو مل کر بہت خوش تھا۔ اللہ کرے وہ بھی سانحہ 9مئی کے دیگر کئی اسیروں کی طرح رہائی پاجائیں۔
اِس سانحہ کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن ابھی تک کسی بڑے ملزم کو سزا نھیں مل سکی ہے۔اِس دوران 8فروری کے انتخابات میں کئی ملزمان تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بھی منتخب ہو چکے ہیں ۔ کئی سینیٹر بن گئے ہیں۔ ایک صاحب تو وزیر اعلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ ایک اہم ملزمہ مبینہ طور پر امریکی شہریت کا فائدہ اٹھا کر رہائی پا چکی ہیں۔
بہر حال جن صاحب نے جیل میں قرآن پاک اور سیرت کی کتابیں پڑھ لی ہیں اگر وہ جیل سے باہر ہوتے تو شائد یہ سعادت حاصل نہ کر پاتے۔ جیل یاترا کئی پی ٹی آئی رہنماوں کے لیے بیش بہا نعمت ثابت ہو رہی ہے۔ اِسی لیے تو علامہ اقبال نے فرمایا تھا:ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند / قطرئہ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند!
جیل کے بلند حصاروں کے عقب میں رہ کر اپنے اعصاب کو کنٹرول کیے رکھنا ایک دشوار تر عمل ہے۔بر صغیر کے مگر کئی ایسے رہنما تھے جنھوں نے جیل یاترا کے ایام کو غنیمت جانا اور یوں فرصت کے ایامِ اسیری میں کئی تاریخ ساز تصنیفات رقم کر ڈالیں۔مولانا ابوالکلام آزاد نے جیل میں رہ کر ایسے خطوط لکھے کہ اردو ادب کا شاہکار بن گئے ۔ یہ خطوط اب غبارِ خاطر کے نام سے کتابی شکل میں مرتب ہوکر بے حد شہرت پا چکے ہیں۔
جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید نے معرکہ آرا کتابیں لکھیں۔ سابق وزیراعظم اور آج سینیٹ کے چیئرمین جناب یوسف رضا گیلانی نے مشرف دور میں جیل یاترا کے دوران اپنی شاندار سوانح عمری ( چاہِ یوسف سے صدا ) لکھی۔
میاں محمد نواز شریف بھی جیل یاترا کے دوران اگر اپنی سیاسی یادداشتیں مرتب کر دیتے تو یہ ہمارے سیاسی ادب میں بیش قیمت اضافہ ہوتا ۔ کئی راز افشا ہوتے اور کئی پردہ نشینوں کے نقاب اتر جاتے۔ مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت۔بانی پی ٹی آئی بھی جیل میں کتابیں پڑھنے کے ساتھ اگر خود پر گزرے واقعات وسانحات رقم کر ڈالیں تو یہ بھی قوم پر ایک بڑا احسان ہوگا ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس