کچھ دن ہوئے میری کتاب کے مترجم ڈاکٹر سفیر اعوان اپنے مکمل کیے ہوئے صفحات کو فائنل ٹچ دے رہے تھے۔ انہوں نے فون پر پوچھا ایک شہر کا نام سمجھ ہی نہیں آرہا۔ انہوں نے جب بتایا تو میں نے کہا ’’یہ بشکیک ہے‘‘ بہت سے پاکستانیوں کو سنٹرل ایشیا کے ممالک میں سے چند کے نام آتے ہیں۔ بشکیک کرغستان کا دارالحکومت ہے۔ میں نے اس شہر کا دو تین دفعہ سفر کیا ہے پہلے تو جب وہ روس کا حصہ تھا، آزاد ملک کی حیثیت میں بھی دو دفعہ مگر آج سے پندہ برس پہلے۔ آج پاکستان کے بچے بچے کو کرغستان کا نام خوف کے عالم میں معلوم ہوا۔ دراصل اسکی بنیادی وجہ ہم تین ممالک میں یعنی بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان میں تمام تر ہمسائیگی نفرتیں پہن کر جوان ہوئی۔ کچھ سال پہلے بنگلہ دیش میں ایک فلم بنی تھی جس میں ہیرو کو پاکستانی فوجی دکھایا گیا تھا۔ عوام کے ردعمل کے باعث یہ فلم بین کر دی گئی ۔ اندر اندر سلگتی آگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ ہم تینوں ممالک جذباتی قوم ہیں کسی نے بنگلہ دیشی طالب علم کےنام پر پاکستانی لکھ دیا۔ نفرتوں کو بھڑکانے کو ہماری ضرورت نہیں پڑی مقامی لوگوں نے دھاوا بول دیا۔ مگر13 مئی کو مصری اور کردش نوجوانوں میں جھگڑا ہوا پھر پھیلتے پھیلتے 17 مئی کو باقاعدہ ان تینوں ملکوں کے نوجوانوں پر حملے کئے گئے۔بشکیک میں 11 ہزار طلبا دوسرے ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔ یہ تعداد بڑھتی گئی ہے۔ اچانک سارے ہوسٹلوں اور فلیٹس میں ایسی حالت ہوئی کہ بےشمار لڑکے، لڑکیوں پر کمروں اور فلیٹس میں گھس کر ایسے حملے کئے گئے کہ ادھر حکومت ، والدین اور خودبشکیک میںزیر تعلیم نوجوان پریشان ہوئے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ پاکستانی حکومت نے تمام نوجوانوں کو واپس بلا لیا۔ ایسے واقعات اچانک ہوتے ہیں ۔ مجھے یاد آیاکہ جب ہم امریکی غلامی کی گود میں بیٹھے، تو پاکستان کی خاص کر انجینئرنگ یونیورسٹی میں بہت سے فلسطینی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ہم لوگ ملکر نیشنل سنٹر میں فلسطینی بچوں کے ساتھ نہ صرف ان کے نغمے بلکہ ہمارے ترانے بھی پڑھتے تھے۔ پھرحکم آیا کہ سارے فلسطینی نوجوانوں کو نکالدیا جائے۔ وہ دن اور اسکے بعدہم فلسطین کو غزہ کے جلتے صحرااور بے گھر مکینوں کی طرح بے کفن ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ خود اسرائیلی فوج اس لڑائی سے بیزار ہو کر جنگ بند کروانے کی دھمکیاں دے رہی ہے ۔ ساری امریکی اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں اس جنگ کو ختم کرنے کیلئے مظاہرے ہو رہے ہیںکہ فرعون نیتن یاہو امریکی دھمکیوں کو بھی نظرانداز کر رہاہے۔
ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہتک عزت کا بل ہر صورت میں پنجاب اسمبلی سے پاس کر دیا جائے۔ شکر ہے کہ ساری صحافی تنظیمیں ایسی غلط تحریک جو آزادی اظہار پر قدغن لگائے وہ ہم ہر مارشل لاء میں برداشت بھی کرتے اور احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔ ایسے سنجیدہ معاملات پر جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارے سامنے احمد فرہاد کا کیس ہے وہ غریب آدمی نیم شاعری کے انداز میں اور غصے میں کچھ بولتا رہا۔ اسکو پکڑ کر لے گئے اسکی بیوی تھانے گئی اسکی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ پہلے صحافی بار بار عدالت کو یاد دلاتے رہے کہ ایک نادار اور نوکری کے بغیر ایک شخص پر آپ نے کیا زوردکھایا کہ صحافیوں نے اتوار کی شام احمدفرہاد کیلئے بہت سخت مظاہرہ کیا مگر ابھی تک وہ شخص لاپتہ ہی کہلایا جا رہا ہے اور فیک نیوزکی آڑ لیکر ہتک عزت کا بل لایا جا رہاہے۔
ابھی ہم لوگ دم بخود دیکھ رہے تھے کہ ایران کے صدر کا ہیلی کاپٹر کسی ایسے رستے پر پڑا کہ موسم کی خرابی نے صدر رئیسی اور 9 دیگر ارکان کے ساتھ کچھ ایسا کیا کہ اگلے دن صبح کو اس آتش زدہ ڈھیر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ میرا دماغ چونکہ ہر ہوائی حادثے کا تجزیہ کرتا ہے اسلئے ایکدم ضیاالحق، اسامہ بن لادن کے جہازوں کو خاک بنادینے والوں کے نام، ذہن میں غلط کہیں صحیح کے انداز میں گھومتے رہے۔ ابھی سیلاب ٹھہرا نہیں کہ کرنل قذافی اور عراقی مضبوط حاکم کی بار بار دکھائی جانے والی فلم کہ اس کو کیسے پھانسی دی گئی ۔ میرے جیسے بہت لوگ پھانسی کو بار باردکھانے پر معترض ہوئے تو یہ سلسلہ بند ہوا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کس طرح امریکی اعلیٰ عہدہ دار اور سربراہ خود اسامہ کو اغوا کرنے اور سمندر میں ، غالب کے لفظوں میں ’’نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‘‘ بعد میں بات کرنا ممنوع قرار پایا، یہی احساس ساری ایرانی قوم پر طاری ہے۔ ذہن باربار یہ سوچ رہا ہے جن غلاموں سے آقا ناراض ہوںانکے بارے میں کتابیں آتی رہیںگی۔ ہم پڑھ کر کبھی اپنے ضمیر کو مطعون کرینگے اور کبھی دنیا بھر میں تجزیہ کار وہ باتیں کرینگے جسمیں کہیں سچ کاچھینٹا بھی نہ ہو۔ اورمحمد حنیف جیسےلکھنے والے کی انگریزی میں کتاب آئی تو وہ فروخت ہوتی رہی مگر جب اردو ترجمہ شائع ہوا تو ساری دکانوں سے ساری کتابیں ایجنسیوں والے لے گئے۔ ابھی گزشتہ مہینے عائشہ صدیقہ کی کتاب بہت کتربیونت کے بعدشائع ہوئی۔ پھربھی دکانوں سے اٹھالی گئی۔ اول تو کتابیں اچھی ہوں تو فروخت ہوتی ہیں مگر اٹھا لی جائیں تو پھرگلہ کس سے ہے۔ ایک بہت دلسوز خبر یہ ہے کہ اپنا عہد رکھنے والا رسالہ ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ بند کر دیاگیا ہے۔ پاکستان میں کیا دنیا بھر میں جوان ہوتے بچے جس میں ہم لوگ بھی شامل تھے ریڈرز ڈائجسٹ پڑھا کرتے تھے۔کتاب اور اخبار پڑھنے کے اعدادوشمار پاکستان میں شرمناک ہیں۔ اب دنیا میں ای۔بکس اور نیٹ پر پڑھے جانے والے رسالے کچھ عرصے تک چمکتے رہے۔ پھر دیکھا کہ فرائی ڈے ٹائمز سے لیکر سارے انگریزی کے پرچے، مہنگائی اور کم فروخت کے باعث بند ہوگئے ۔ اب نئے لکھنے والے اردو بازار کی کھلی منڈی کی طرف جاتے ہیں دو سو کتابیں خرید لیتے ہیں۔ پبلشر اور شاعر دونوں مطمئن رہتے ہیں۔ اب کچھ کام کرنے کا ہماری بیٹی مریم نے ارادہ کیا ہے وہ پہلے تو تمام یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر لگائیں، بیکار یونیورسٹیوں کو بند کریں کہ ہرضلع میںیونیورسٹی کا تجربہ ضائع ہو گیا ہے۔ ماسٹرکرانے والے اور ماسٹر کرنے والے دونوں میں اہلیت کی کمی ہے۔ اسلئے سیکشن افسرکہتا ہے کہ میںMATH میں پرائیویٹ بی اے کیا ہے۔ جب اس سے اس لفظ کے ہجے کرنے کا کہا گیا تو جواب نفی میں تھا۔ یہ ہے معیار موجود یونیورسٹیوں کا۔ مریم بی بی! بہت توجہ سے نصاب اور یونیورسٹیوں کی تعداد کم کرو۔
بشکریہ روزنامہ جنگ