وجوہات اور بھی ہوں گی لیکن ایک سنگین مسئلہ جامع تعریفوں کی عدم موجودگی اور ان اصطلاحات کے بے جا استعمال کا بھی ہے ۔ بین الاقوامی تنازعات ہوں یا علاقائی اور قومی، ہر ایک کا بنیاد ی سبب جاننے کی جتنی بھی کوشش کریں اہم ترین وجہ یہی تعریفوں کا فقدان نظر آئے گا۔ اقوام متحدہ یا کسی اور بین الاقوامی فورم نے دہشت گردی کی کوئی تعریف وضع نہیں کی۔ خود امریکیوں نے بھی سرکاری سطح پر اس لفظ کی کوئی جامع تعریف بیان نہیں کی۔ اس لعنت کی تعریف پہ پہلے دنیا کا اتفاق تھا نہ اب ہے لیکن امریکیوں نے اپنی طرف سے دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد کر کے چند ملکوں، کئی گروہوں اور کچھ لوگوں پہ اس کا اطلاق کرڈالا اور پھر سارے تیرو تفنگ لے کر ان کے خلاف میدان میں نکلے۔ دنیا کی قیادت چونکہ ان دنوں امریکہ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے پوری دنیا بھی ان کے ساتھ دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں کھڑی ہو گئی حالانکہ جس چیز کے خلاف جنگ شروع ہو گئی، اس کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں تھی۔ چنانچہ پہلے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی دہشت گرد قرار پائے۔ پھر طالبان کو اس صف میں شامل کر دیا گیا۔ پھر انکے خلاف جنگ شروع کی گئی۔پھر انہیں عراق اور لیبیا دہشت گرد نظر آنے لگے اور رفتہ رفتہ امریکیوں کے پالیسی سازوں کے ذہن میں جو بھی ناپسند قرار پایا اسے دہشت گرد قرار دے کر اسکے خلاف کارروائی شروع کی گئی حالانکہ جسے وہ دہشت گرد قرار دیتے رہے، بنی نوع انسان کا ایک بڑا حلقہ انھیں ہیرو اور امن پسند انسان اور خود امریکہ کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ بہرحال جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہو وہی کچھ ہو رہا ہے جو امریکہ چاہتا ہے۔ چنانچہ دیگر لوگوں کو بھی حوصلہ ملا۔ واضح تعریف چونکہ موجود نہیں۔ دہشت گردی اور تحریک آزادی میں فرق واضح نہیں۔ اس لئے جب اسرائیل کا جی چاہا فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پہ بمباری شروع کر دی۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اسرائیل غزہ کے معصوم بچوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کر رہا ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ اس عمل میں اس کے ہمنوا ہیں ۔
جہاد جیسے مقدس لفظ کی طرح وطن عزیز میں ایک اور لفظ ’’نیشنل انٹرسٹ‘‘ بھی گزشتہ پچاس سال سے انتہائی سنگدلانہ استحصال کا شکار ہے۔ جہاد کی طرح بظاہر یہ لفظ بھی بہت خوش کن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نیشنل انٹرسٹ یا قومی مفاد ہے کیا؟ آج تک اس ملک میں اس لفظ کی واضح تعریف نہیں کی گئی۔ گزشتہ پچاس سال میں جس حکمران نے جس بھی بلنڈر کا ارتکاب کیا، اس کیلئے اس نے اس لفظ کا سہارا لیا۔ لیاقت علی خان نے امریکہ کے ساتھ دوستی استوار کی تو اس فیصلے کی توجیہ یہی پیش کی کہ ایسا انھوں نے نیشنل انٹرسٹ میں کیا۔ ایوب خان نے جمہوریت کی بیخ کنی کی بنیادیں رکھ دیں تو اسی نیشنل انٹرسٹ کے نام پر یحییٰ خان آدھا ملک گنوابیٹھے لیکن اپناہر قدم اٹھاتے ہوئے وہ یہی نیشنل انٹرسٹ نیشنل انٹرسٹ کی رَٹ لگائے رہتے۔
جنرل ضیاء الحق صاحب نے بھٹو کو پھانسی دے کر اپنی کرسی مضبوط کرلی تو دلیل یہی لاکے رکھ دی کہ ایسا کرنا نیشنل انٹرسٹ کی خاطر ضروری تھا۔ وہ ملک کے اندر مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دیتے رہے۔ ان کی ٹیم کے بعض لوگ افغانستان کو کالونی بنانے کے خواب دیکھتے رہے۔ پاکستان سے مذہبی جماعتوں کے لوگ جاتے اور افغانستان میں مرتے رہے اور ہر اقدام کی دلیل یہی ایک تھی کہ یہ سب کچھ نیشنل انٹرسٹ کی خاطر ہو رہا ہے۔ بے نظیر کو حکومت سے نکال دیا گیا نیشنل انٹرسٹ کے نام پر۔ آئی جے آئی بنوائی گئی اور میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنوایا گیا نیشنل انٹرسٹ کے نام پر۔ ان کو اقتدار سے نکال کراٹک قلعہ میں بند کر دیا گیا نیشنل انٹرسٹ کے نام پر۔ پھر انھیں وہاں سے نکال کر سعودی عرب بھجوایا گیا نیشنل انٹرسٹ کے نام پر۔ طالبان کی حکومت کی کئی سال تک حمایت و سرپرستی کی گئی نیشنل انٹرسٹ کے نام پر۔ پھر طالبان کی حمایت ختم کی گئی نیشنل انٹرسٹ کے نام پر۔ 2011ءمیں عمران خان پروجیکٹ شروع کیا گیا اور کئی سال تک اسے چلایا گیا نیشنل انٹرسٹ کے نام پر اور اب اس کی سرکوبی کی جارہی ہے تو بھی نیشنل انٹرسٹ کے نام پر ۔
اگر نیشنل انٹرسٹ کی جامع تعریف نہ کی گئی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو خدشہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد حکمرانوں کیساتھ ساتھ ادارے اور افراد بھی اپنے ہر جرم کیلئے اسی نیشنل انٹرسٹ کا سہارا لینے لگیں گے۔ صورتِ حال یہی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب قومی خزانہ لوٹنے والے عدالت کے سامنے گویا ہونگے کہ انہوں نے اربوں روپے نیشنل انٹرسٹ کی خاطر لوٹے ۔ بڑے بڑے دہشت گرد عدالت میں کہیں گے کہ درجنوں لوگوں کو انھوں نے قومی مفاد کی خاطر قتل کیا ہے۔ پھر قاتل برملا کہتے پھریں گے کہ اس نے فلاں فلاں کو عظیم تر قومی مفاد میں قتل کیا۔ پھر لوگ ڈاکے ڈالیں گے اور دلیل دیں گے کہ ایسا کرنا قومی مفاد کی خاطر ضروری تھا اورخدا نخواستہ ایک وقت آئے گا جب جج قاتل کی بجائے مقتول کے ورثا کو سزائے موت سنا کر دلیل یہ دیں گے کہ ایسا کرنا سپریم نیشنل انٹرسٹ کا تقاضا تھا۔
ہماری دعا ہے کہ دہشت گردی، اور نیشنل انٹرسٹ کے الفاظ کا یہ غلط استعمال بند ہولیکن ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب ان الفاظ کی واضح اور جامع تعریف سامنے لائی جائے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کا سرخیل چونکہ امریکہ بن گیا ہے اس لیے اس معاملے میں ہم جیسوں کی نہیں چلے گی، لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ عظیم تر قومی مفاد کی خاطر تمام قابلِ ذکر اہلِ دانش کی ایک عظیم کانفرنس بلا کر ’’نیشنل انٹرسٹ‘‘ کی اصطلاح کی ایک جامع اور واضح تعریف متعین کر دی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ