سال قبل، عمران خان کی گرفتاری پر ملکی چھاؤنیاں بلوائیوں کے قبضہ میں تھیں ۔ 9 مئی 2023 وطنی تاریخ کا سیاہ دن ، طول و عرض میں چھوٹے بڑے جتھے عسکری تنصیبات، دفاتر اور گھروں پر ٹوٹ پڑے ۔
عمران خان جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے زیر تفتیش ، گرفتاری کے دوسرے دن سپریم کورٹ حرکت میں، ” گڈ ٹو سی یو ” چیف جسٹس بندیال نے عمران خان کوپلک جھپکتے اپنے حفاظتی حصار میں لیا ۔ بہ حفاظت لاہور پہنچایا ۔ ایسی عدالتی امدادی کمک پر عمران خان اپنے تئیں اسٹیبلشمنٹ کو پچھاڑچکے تھے ۔ اگلے دن 13 مئی کو دو تاریخی کلمات کہنا بنتا تھا ،’’ اچھا ! گرفتار تم ( فوج ) کرو اور ہم احتجاج وزیراعظم ہاؤس کے سامنے کریں‘‘ ،’’پھر گرفتار کرو گے تمہارے ( فوج ) ساتھ پھر یہی ہوگا ‘‘ ۔ دوبول نے برضا و رغبت سانحہ 9 مئی کے حقوق ملکیت ہتھیالئے ۔ عسکری قیادت چاروں شانے چِت، نمایاں فتح پر PTI میں مبارک سلامت کا دور دورہ تھا ۔ یاد رہے، عمران خان کو فوج نے نہیں پولیس نے رینجرز کی مدد سے گرفتار کیا ، باقاعدہ FIR درج ہوئی ۔عمران خان وطنی سیاسی تاریخ سے نابلد، وگرنہ معلوم رہتا کہ 5 جولائی 1977 کو بھٹو، 12 اکتوبر1999 کو نواز شریف کو بحیثیت وزرائے اعظم، فوجی جرنیلوں نے بنفس نفیس گرفتار کیا ۔ ہر دو موقعوں پر نصرت بھٹو ،بینظیر بھٹو اور کلثوم نواز نے بھرپور ریلیاں ، جلسے جلوس نکالے۔ چھاؤنیوں ، فوجی دفاتر یا جرنیلوں کے گھروں پر کسی نے چڑھائی کا سوچا اور نہ ہی اپنے ماننے والوں کو شہہ دی ۔
اقتدار سے علیحدگی کا ماحول عمران خان کی سوچ کا توازن بگاڑ چُکا ہے ۔ بلاشبہ جس ترکیب سے اقتدار ملا ، اُسی ترکیب سے نکال باہر کیا۔عمران خان اور شہباز شریف کو وزرائے اعظم بنانے میں جنرل باجوہ کی پیشہ ور مہارت کا م آئی ، ایک ہی قسم کا نسخہ کیمیا دونوں کیلئے استعمال کیا ۔ عمران خان کی ناسمجھی فوج کیساتھ اپنے عشق کو حقیقی سمجھ بیٹھے ۔ جنرل باجوہ کا بغل بچہ ہونے پر اِتراتے، جنرل باجوہ کو’’باس‘‘ کہہ کر پکارتے ۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے ریاستِ پاکستان کیخلاف 6 سالہ جرائم میں 5 سال 5 ماہ عمران خان برابر شریکِ جرم رہا ۔ اقتدار ہاتھ سے جاتے دیکھا تو فرسٹریشن میں جنرل باجوہ کو نشانہ پر لیا ۔ 27 مارچ 2022 کا جلسہ داغ مفارقت کا رسمی اعلان تھا ۔جب مراسلہ لہرایا جنرل باجوہ کو للکارا تو سیاسی زندگی میں پہلی دفعہ غیرمعمولی پذیرائی ملی۔ بہک گئے ۔ تب سے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اوڑھنا بچھونا کہ تالیاں بج رہی ہیں ۔شروعات، اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نہ رہے ماورائے آئین میرا ساتھ دے ۔ وائے ناکامی !آجکل آئین اَزبر ہو چُکا ہے۔ 15 اپریل 2022 سے جب ملک گیر جلسے جلوس کا ہنگام کھڑا کیا ۔میرے تحفظات!جلسے جلوس، لانگ مارچ ، تند و تیز تقریریںسب کچھ باجوہ / فیض منصوبہ بندی یعنی کہ باجوہ سکرپٹ روبہ عمل تھا ۔ جنرل باجوہ کا مفاداتی ایجنڈا، شہباز حکومت پر دباؤ ڈال کر گھر بھیجنا بعدازاں نگران حکومت کا قیام تاکہ ’’تاحیات آرمی چیف ‘‘ بننے کا خواب شرمندہ تعبیر رہے ۔ اِسی جذبہ حریت کے تابع جنرل باجوہ نے جنرل فیض کی خدمات عمران خان کو منتقل کیں یاعمران خان کو اپنے زیر استعمال رکھا ۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف ممکنہ تعیناتی رکوانے کیلئےاحمقانہ’’لانگ مارچ‘‘ کا اعلان ، لانگ مارچ کو جہاد اکبر کا نام دیا گیا ۔فوجی قیادت کیخلاف زبان درازی جب شروع کی تو عوامی پذیرائی ملی ، زبان مزید لمبی اور بے قابوہو گئی ۔’’ غدار ، میر جعفر میر صادق ،ڈرٹی ہیری ، مسٹر X,Y وغیرہ ‘‘ کی گردان معمول بنا ڈالا۔ شہر شہر قریہ قریہ لوگوں سے جنرل عاصم کیخلاف جہاد اکبر میں شرکت کے حلف لئے ۔ قافلہ راہِ حق کاہدف GHQ کا محاصرہ اور جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانا تھا ۔ دوغلا پن، کھلے عام زبان درازی، بند کمروں میں جنرل باجوہ اور جنرل عاصم سے ملاقات کی تڑپ مع سرنگوں رہنے کے وعدے ، ایک علیحدہ موضوع ہے ۔ عمران خان کا راسخ عقیدہ ’’مقام خواجگی‘‘، بمطابق آئین نہیں بذریعہ آرمی چیف چاہیے تھا ۔
27 مارچ 2022 تادم تحریر، پارٹی قیادت میں سے کوئی دوسرا رہنما بیانیہ کو چمٹے سے اُٹھانے کو تیار نہ تھا ۔پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے کھلے عام TV انٹرویوز میں بیانیہ پر کڑی تنقید کی جبکہ دوسرے رہنما لاتعلق رہے، وضاحتیں دیں۔ کارکنوں کو بذریعہ جھوٹ، سوشل میڈیا پروپیگنڈا فوج کیخلاف اُکسانے ورغلانے میں کامیاب رہے ۔ چھاؤنیوں پر چڑھائی 9 مئی کو پہلی دفعہ نہیں تھی ، اس سے پہلے نیٹ پریکٹس کر چُکے تھے ، ایک بار پہلے بھی درجن درجن بھر کی ٹولیاں پشاور / لاہور / راولپنڈی کورکمانڈرز گھروں پر چڑھ دوڑی تھیں ۔ عمران خان نے سچ سے مکمل توبہ کر رکھی ہے ۔جھوٹ کی بہتات نے مالا مال کر رکھاہے ۔یوٹرن خصلت سے صرف نظر ، سانحہ 9 مئی کا کریڈٹ انصافیوں سے چھیننا صریحاً زیادتی ہے ۔
دو دن پہلے DG-ISPR کی غیر معمولی پریس کانفرنس بھونچال لے آئی ۔ چند مہینوں سے فوج مخالف جاری جھوٹے پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا غلیظ مہم پر میجر جنرل شریف نے سخت ترین وارننگ دی ۔ تحریک انصاف کا سانحہ 9 مئی کو تحریک انصاف کیخلاف سازش بتانا ، واقعہ پر عمران خان کا جوڈیشل کمیشن مطالبہ محض دھوکہ ہے ۔ ازراہ تفنن ! عمران خان ٹولہ ،سانحہ 9 مئی کو عمران خان کیخلاف ایک سازش سمجھتا ہے جسکے ذریعہ عمران خان اور لواحقین کو سازش کرکے PTI کیخلاف استعمال کیاگیا ۔یعنی سازش کے ذریعےPTI سے سازش کروائی اور جوق در جوق انتشاری ٹولیاں چھاؤنیوں پر حملہ آور ہوئیں ۔ میجر جنرل شریف نے جوڈیشل کمیشن مطالبہ پر لبیک کہا، دائرہ کار وسیع کرنے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان نے بغیر سوچے ہاں میں ہاں ملائی، ساتھ ہی 2024الیکشن پر جوڈیشل کمیشن مانگ لیا ۔ موصوف بھول گئے کہ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں کمیشن پہلے ہی بَلف کال کر چُکا ہے ۔’’بھولا پر اِنا بھولا وی نئیں‘‘ ، 2018 الیکشن پر لب کشائی کی اور نہ ہی انکوائری مانگی ۔عمران خان اس وقت اپنی پارٹی اور وکلا سے انتہائی مایوس ،دلجمعی سے سمجھتے ہیں کہ پارٹی لیڈر اور وکلا ٹیم اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مصالحت اور سمجھوتا کر چکے ہیں ۔ ان کو لمبا عرصہ جیل میں رکھنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا جا رہا ہے ۔صدقِ دل سے بھانپ چکے ہیں کہ اُنکا سیاسی مستقبل مخدوش ہے ۔ ایک عرصہ سے یکسو ،’’خود کو ڈوبتا دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لیکر ڈوبنے کا عزم کر رکھا ہے‘‘ ۔ ریاستِ پاکستان کے مفادات آڑے ہاتھوں لینا ، افراتفری ، انارکی کو ہوا دینا ، معیشت ، سفارتکاری پر وار کرنا ، ریاست کو ہلکان کرنا ، مشن بنا رکھا ہے ۔ خام خیالی کہ ریاست نڈھال ہوگی تو اسٹیبلشمنٹ بدحال ہوگی ۔ قوم سے معافی مانگنے کے مطالبہ پر عمران خان الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔ ریاست کیخلاف اپنے جرائم پر ایسا اطمینان ، ریاست کو معافی مانگنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ کاش عمران خان اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ریاست اور قوم سے معافی مانگتے ۔ اپنے لئے اورمملکت کیلئے راستہ نکال پاتے،’’غلطی کی معافی نہ مانگنا کوئی فخر کی بات نہیں، یہ ایک شیطانی خصلت ہے‘‘۔
بشکریہ روزنامہ جنگ