قبر کے لیے جگہ، کس کی ذمہ داری؟ : تحریر محمود شام


کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر تو تاریخ اور جغرافیے دونوں کے جبر کا شکار ہوئے۔ وطن سے ہزاروں میل دور آسودۂ خاک ہیں۔ ہمیں ایک مرتبہ فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ لیکن اِس وقت پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی دو گز زمین اچانک بہت مشکل مرحلہ بن جاتی ہے۔ ورثا در بدر ہوجاتے ہیں۔ جھنگ شہر میں ہمارے والد محترم حکیم صوفی شیر محمد کی قبر فرسودگی سے دوچار ہے۔ تو اس کی دیکھ بھال ہوئی۔ ہمیں خیال آیا کہ ہمیں بھی کسی وقت اجل کا بلاوا آنا ہے۔ ہم پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں رہتے ہیں۔ یہ تو خبر نہیں ہوتی کہ آپ کو یہ سندیسہ کہاں وصول ہو لیکن پہلے سے کچھ تو بندوبست ہونا چاہئے۔برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اچانک کوئی بچھڑتا ہے تو اس کے لواحقین کو کن مصائب کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ ہمارے دو بیٹے تو ملک سے باہر ہیں۔ ساتھ رہتے بیٹے سے کہا کہ کہیں دو دو گز جگہیں ابھی سے دیکھ لی جائیں۔ شہری خود مختاری کی بات ہم نے چھیڑی ہے۔ شہر میں ایک لازمی گوشہ قبرستان کیلئے بھی مخصوص ہونا چاہئے۔ ہماری تعمیراتی کمپنیاں نئے شہر بساتی ہیں تو کیا وہ آخری آرامگاہ کیلئے بھی کوئی ٹکڑا مخصوص کرتی ہیں۔ اسلام آباد میں یقیناً ایک اچھا مناسب بندوبست ہے۔ ہماری والدہ وہاں ابدی نیند سورہی ہیں۔ وہاں ہمیں فاتحہ خوانی کیلئے ان کے مسکن تک پہنچنے میں دقت نہیں ہوتی۔ وہیں احمد فراز، منشا یاد،پروین شاکر،ممتاز مفتی،جوش ملیح آبادی بھی آرام کررہے ہیں۔ دوسرے شہروں میں کسی قبر تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ میں اپنی تحریر صرف اپنی معلومات تک محدود نہیں رکھتا ہوں۔ اپنے احباب سے بھی کچھ مدد مانگتا ہوں۔ فیس بک پر سوال کیا۔ تجہیز، تکفین، تدفین پر پاکستان میں کیا کوئی باقاعدہ خدمات دستیاب ہیں اور قبر کیلئے جگہ مل جاتی ہے۔احباب ہمیشہ تعاون کرتے ہیں۔ملتان سے انیلہ اشرف نے بتایا کہ شہباز شریف نے سابقہ دورمیں پنجاب میں شہر خاموشاں اتھارٹی قائم کی تھی لاہور اور ملتان میں شہر خاموشاں بنائے گئے۔ اتھارٹی نے لواحقین و میت کو وہاں تک پہنچانےکیلئے بسیں بھی خریدی تھیں۔ سلمان صوفی اتھارٹی کے سربراہ تھے۔ تمام مذاہب کے مردوں کو کفن، دفن، غسل، تدفین اور دیگر رسومات پوری کرنے کے انتظامات بھی کیے گئے۔ منصوبے میں جنازہ گاہ ۔ شمشان گھاٹ بنائے گئے لیکن بیشتر مراحل کاغذات تک محدود رہے پھر جب حکومت بدلی تو سب ٹھپ ہوگیا۔ اب ایدھی سروس پر گزارا ہے۔ موت اٹل ہے ۔ ہر مسلمان کو قبر کیلئے جگہ بھی چاہئے۔ ہمارے ہاں آبادی بڑھنے کی شرح بھی بہت ہے۔ اس لیے جو بھی قیادت کے دعویدار ہیں ۔انہیں قبروں کیلئے فکر مند ہونا چاہئے۔ بلھے شاہ نے تو کسی اور انداز میں کہا تھا۔ کہ ہمیں مرنا نہیں ہے۔ قبر میں کوئی اور پڑا ہے ۔ ہمارے بڑے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں مرنا نہیں ہے۔ رہے عوام،وہ تو جیتے جی ماردیے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران جیتے جاگتے شہروں کو شہر خاموشاں بنانے کے آرزو مند رہتے ہیں۔کراچی میں وادیٔ حسینؓ جدید تر انتظامات کیساتھ ایک شہر خاموشاں ہے۔ سپر ہائی وے پر، یہاں سے سمندر پار عزیز و اقارب کو تدفین کے مناظر براہ راست بھی دکھائے جاتے ہیں۔ سید رضوی نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ رضوان طاہر مبین کہتے ہیں۔ گورکن مافیا جگہیں نکالتی رہتی ہے لیکن یہ کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ رضوان ایدھی کی تجویز ہے قبرستان میں قبروں کی قیمت طے ہونی چاہئے۔ بلقیس ایدھی صاحبہ کی تدفین کے وقت بھی مشکلات پیش آئیں۔ پروفیسر حسن راشد کا کہنا ہے کہ حیدر آباد میں 88 چھوٹے بڑے قبرستان ہیں۔ صرف 9کا تعلق بلدیہ سے ہے۔ گورکنوں کی کوئی رجسٹریشن ہے نہ دیگر قبرستانوں کا کوئی ڈیٹا۔ نہ ہی قبروں کی قیمت طے شدہ۔صحافی محمد ہمایوں ظفر کہتے ہیں کراچی میں قریباً 200 قبرستان ہیں۔ جن میں 90 کے قریب مختلف برادریوں اور تنظیموں کےہیں۔ 1989کے بعد کوئی نیا قبرستان نہیں بنا۔ سرجانی ٹاؤن، تیسر ٹاؤن، گڈاپ ٹاؤن میں تین نئے بڑے قبرستانوں کے منصوبے بننے چاہئیں۔ بشیر خان کے خیال میں ایک قبر میں چار چار بار تدفین ہوچکی ہے۔ ممتاز قلمکار رعنا فاروقی کا بھی یہی خیال ہے کہ ایک ایک قبر میں کئی مردوں کے لیے جگہ نکالی گئی ہے۔ اور یہ صرف گورکن پر منحصر ہے۔ ممتاز صحافی شمیم اختر کہتی ہیں کہ ابھی تو ایدھی ہی بہتر منتظم ہے ۔ سید ایاز حسین مسئلے کے ایک اور پہلو کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ لاوارث لاشوں کے اٹھانے، غسل دینےاور دفنانے کیلئے پولیس کو کوئی فنڈز نہیں دیے جاتے ہیں۔ محمد صدیق پراچہ کہتے ہیں کہ چھوٹے شہروں اور دیہات میں پھر بھی یہ مرحلہ اتنا مشکل نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں سنگین ہے۔ شگفتہ فرحت کہتی ہیں جگہ بالکل نہیں کراچی میں، بکنگ میں بہت مسائل ہیں۔ ساجد آفتاب قریشی ان بینروں کا ذکر کررہے ہیں۔ جو ہر قبرستان میں لگے ہیں کہ اب جگہ نہیں ہے لیکن گورکن کو زیادہ پیسے دیں تو وہ جگہ نکال لیتا ہے۔ شاہد خان بتارہے ہیں کہ اب بھی مساجد اور فلاحی اداروں کی مدد سے انتظام ہوجاتا ہے۔ شجاع صغیر خان نے ’وادیٔ ابن آدم‘ کے نام سے باقاعدہ قبرستان بنانے کی تجویز دی ہے۔ م۔ص ایمن کہتے ہیں کہ اکثریت کے لواحقین یہ انتظام خود کرتے ہیں۔ شہزاد عمران خان ایک ماڈل قبرستان کی آرزو کررہے ہیں۔ ہمارے مسجد کے امام اور خطیب مولانا ہدایت اللہ سدوخانی کا خیال ہے کہ قبرستانوں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے کم ہے۔ قبریں بہت گنجان ہیں چلنے کے راستے نہیں ہیں۔ کتے بلیوں کی بہتات ہے۔ اپنے لیے جگہ رکھنے کی غرض سے جعلی قبریں بنائی جاتی ہیں۔ منشیات کے محفوظ اڈے بھی یہیں ہیں۔ تدفین و تکفین اب خدمت نہیں کاروبار ہے۔ان سارے تاثرات سے یہی تصویر ابھرتی ہے کہ ہم اس اٹل مرحلے کو بھول گئے ہیں۔ پہلے سے کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ سوگواروں کیلئے ایک تو جانے والے کی جدائی کا صدمہ ماں باپ کے فراق کا دکھ۔ پھر ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان بھاگ دوڑ۔ کیا ہم اس انتہائی یقینی مرحلے کیلئے پہلے سے کوئی بندوبست نہیں کرسکتے۔ ویسے تو موت کبھی بھی آسکتی ہے۔ جیسے حادثات میں بڑے شہروں بالخصوص کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں نوجوان بھی مارے جارہے ہیں۔ لیکن 65سال سے اوپر کے لوگوں کیلئے ان کی رہائش گاہوں کے حوالے سے بلدیاتی اداروں۔ خاص طور پر یونین کونسلوں کو کچھ سوچنا چاہئے۔ زندگی تو مشکلات میں گزر رہی ہے۔ مرنا تو آسان کردیں۔ شہباز شریف صاحب اب وزیر اعظم ہیں اب صرف پنجاب میں ہی نہیں ملک بھر میں ’شہر خاموشاں اتھارٹی‘ کا قیام عمل میں لائیں۔ بسے بسائے شہروں کو شہر خاموشاں بنانے کی پالیسی تو کوششوں کے باوجود کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ شور بڑھتا جارہا ہے۔آپ بتائیے کہ تدفین تکفین مسئلہ ہے یا نہیں۔ اور یہ مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے یا نہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ