بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔
خاوند بیوی کیلئے مسائل پیدا کررہا ہے۔
باپ بیٹے کو کھلا نہیں چھوڑ رہا ہے۔
حکومت بنانے میں ساتھ ہیں۔ لیکن ایک دوسرے سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔
ادارے ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کررہے ہیں ۔ وضاحتی بیانات دے رہے ہیں۔
تنخواہیں دینے کیلئے قرض لیا جارہا ہے۔
شاہ،وزیر، مصاحبین، حکام، عمال، صوبیدار، کوتوال، دربان، کوئی بھی غیر ضروری اخراجات کم نہیں کررہا ہے۔
گندم اللہ کے فضل سے بہت فراواں ہوئی ہے۔ لیکن کسان پریشان ہے کہ چند ماہ پہلے ہی غیروں سے دانہ گندم درآمد کرلیا گیا ۔ گودام بھرے ہوئے ہیں۔ گندم کے تازہ خوشے حکومت خرید نہیں رہی ہے۔ نگراں دور کی طرف انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ نگراں تو اب بھی مرکزی عہدوں پر ہیں۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور خوب کھل کر باتیں کرنے کا دن۔ کچھ بھی معمول کے مطابق نہیں ہے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے دن یاد آرہے ہیں۔ بار بار کہا جاتا ہے۔ Normalcy کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عنقریب حالات معمول پر آجائیں گے۔
کسی تقریب میں،کسی شادی میں جانا ہو تو آل اولاد والے ہم اخباری بوڑھوں کو سقراط، ارسطو سمجھتے ہوئے بہت خلوص سے دریافت کرتے ہیں حالات کب بہتر ہوں گے۔ ہم جھوٹی تسلی دیتے ہیں۔ غالب کے مصرع میں پورا منظر چھپا ہوا ہے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں۔ میں وزیرا عظم اندرا گاندھی سے انٹرویو کے لیے دہلی میں ہوں۔ پاکستان سے تمام رسل و رسائل منقطع ہیں۔ خبر آرہی ہے، بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت برطرف کردی ہے۔ سرحد کے وزیر اعلی نے استعفی دے دیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز نے پہلے صفحے پر کارٹون شائع کیا ہے۔ بھٹو صاحب گھوڑے پر ہیں، لگام ان کے ہاتھ سے نکلی ہوئی ہے۔ ایک پائوں رکاب میں ہے۔ ایک باہر۔ کیپشن ہے۔ Firmly in the Saddle وہ تو مقبول، منتخب، صاحب مطالعہ، جہاندیدہ رہنما تھے۔ اب تو گھوڑا جن کو لے کر چل رہا ہے، ان میں ایسی کوئی خوبی بھی نہیں ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا بہت شور ہے۔ اربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ دبئی، سعودی عرب بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ غزہ میں انسانیت ملبوں تلے دبی ہے۔ نئی نسل کو گہواروں میں، اسپتالوں کے Incubators میں، رحم مادر میں ہلاک کیا جارہا ہے۔ یہ قتل عام ہے، یہ بھی ہولو کاسٹ ہے، اب شکار ہونے والے موت کے منہ میں دھکیلے جانے والے یہودی نہیں ہیں۔ ان کے پاس دولت نہیں ہے، اسلئے مغرب اسے ہولو کاسٹ نہیں کہہ رہا ہے۔ نیتن یاہو میں ساری ہٹلرانہ سفاکیاں ہیں لیکن مسلمان بادشاہوں، امیروں، صدور، وزرائے اعظم، اپوزیشن لیڈروں میں واشنگٹن کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں ہے۔ خود امریکہ کی یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات فلسطینیوں کے حق میں خیمہ زن ہیں مگر مسلمان یونیورسٹیوں میں سناٹے ہیں۔
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا کوئی خدا نہیں
یہودی دنیا کا صرف 2فی صد ہیں، صرف 15ملین لیکن انہوں نے 8ارب انسانوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہودیوں کا ایک ہی ملک ہے۔ مسلمان ایک ارب سے زیادہ ہیں، 50ممالک ہیں،بادشاہتیں ہوں یا نام نہاد جمہوریتیں، اپنی رعایا کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔ واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو دیکھ لیں 24کروڑ میں سے دس کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے ہیں اور کوئی ایک کروڑ ہوں گے جو امارت کی لکیر سے بھی کہیں اوپر، قانون ،تہذیب،مروت، حمیت ان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہی تناسب ہر اسلامی ریاست میں ہے۔ غزہ کے مظلوموں کی آہیں سسکیاں ریاض، قاہرہ، کویت، دوحہ، اسلام آباد، کوالالمپور، دبئی میں سنائی نہیں دیتی ہیں۔
ہم موسمیاتی تبدیلی کا شور مچاتے ہیں۔ ہمارے مسلم حکمرانوں کے مزاج تبدیل ہوچکے ہیں۔ نفسیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی طرح مہلک ہیں۔
واہگہ سے گوادر تک ایک ناامیدی ہے ،لیکن مجھے یہ بشارت کے لمحات لگ رہے ہیں، سوشل میڈیا نے ایک اک فرد کو جگا دیا ہے ۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پنجاب، سندھ،خیبر پختونخوا،بلوچستان، آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان میں اب بنیادی طور پر محسوسات ایک سے ہیں۔ طبقاتی ادراک اپنے عروج پر ہے۔ استحصالی قوتیں اب بھی اس درد کو پہلے کی طرح فرقہ واریت ، لسانیت، نسلی تعصبات، قبائلی تصادم میں بدلنا چاہتی ہیں مگر ناکام ہورہی ہیں۔ ناجائز سرمائے کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے، مگر ذہن یرغمال بننے سے انکاری ہیں۔ مرکزی میڈیا 76 سال کی روایات کے مطابق ضمیر کو سلانے کی کوشش کرتا ہے،مگر ہر پل جاگتا سوشل میڈیا ضمیر کو بیدار کرتا رہتا ہے۔
میر و سلطاں سے زمین کی بیزاری ہی گراں خواب پاکستانیوں کو سنبھالنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اس اضطرابی دور میں میری آپ سے گزارش یہی ہے کہ اسلام آباد سے کسی بہتری یا تبدیلی کی توقع کی بجائے وہ راستہ اپنائیں جو آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ اپنے گھر میں بیداری لاسکتے ہیں، پھر محلے میں، پھر شہر میں، ہم اوپر سے تبدیلی کے انتظار میں 76سال گزار چکے۔ استحصالی طبقہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دیکر اکثریت کو گروہوں میں بانٹ دیتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیتا ہے۔ تجزیہ کار، کالم نویس شخصیات کے سحر کو عام کرتے ہیں، افراد کو افق پر غالب کر دیتے ہیں، ملک کو ایک سسٹم کی ضرورت ہے، افراد کی نہیں۔
اپنے پڑھنے والوں سے میری یہ عرض ہے کہ اپنے گھر کو پہلے با شعور اور خود مختار کریں۔ ہمارا پہلا قدم ہوگا شہری خودمختاری۔ اپنے شہر کے لیے اپنے وسائل سے وہ ساری سہولتیں حاصل کریں جو سوشل میڈیا ترقی یافتہ ممالک کے شہروں کو میسر دکھاتا ہے۔ کھانے کی اشیا سلامتی،ٹرانسپورٹ، روزگار، علاج معالجے میں بہتری۔ گوگل اور دوسرے سرچ انجن آپ کو بتائیں گے کہ ایک شہری کے کیا کیا حقوق ہیں۔ پاکستان کا آئین بھی آپ کو وہ سارے حقوق دیتا ہے۔ آپ جذبات میں آکر سیاسی پارٹیوں کے نعروں میں بھٹک جاتے ہیں۔ اپنے حقوق سے خود باخبر ہوتے ہیں نہ اپنی اولادوں کو آگاہ کرتے ہیں۔اپنے حق کو حاصل کرنے کی بجائے آپ حالات پر روتے کڑھتے رہتے ہیں۔ ہر شہر میں اللہ تعالی نے بے شمار نعمتیں دی ہیں۔ روزگار کے مواقع دیے ہیں۔ شہر اپنے طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہر مقام پر مافیا نے ڈیر ے جمالیے ہیں۔ لیکن اگر آپ گلی گلی آپس میں رابطہ کریں گے ، محلے میں اجتماعی سوچ اختیار کریں گے تو آپ پر اپنے شہر کی افادیت اور اہلیت اجاگر ہوگی۔
ایک ریاست کی خود مختاری کیلئے پہلا قدم شہری خود مختاری ہے۔ آپ اس سے اگر اتفاق کریں گے تو ہم اگلے کالموں میں صوبائی خودمختاری کی طرف بڑھیں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ