سینیٹر اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم نامزدگی۔۔۔۔تحریر سردار عبدالخالق وصی


وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی جانب سے وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم نامزدگی پر پاکستان مسلم لیگ ن اور حکومتی اتحادی جماعتوں کی طرف سے اس فیصلے کو سراھا گیا ھے وھاں اپوزیشن اور جانبدار ناقدین کی جانب سے حسب روایت تنقید بھی کی جارھی ھے خاص طور پر مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف اور شریف فیملی سے ان کی خصوصی قرابت داری کی وجہ سے اسے سب کچھ فیملی میں رکھنے کے الزامات لگائے جارھے ھیں تاہم، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ سینیٹر اسحاق ڈار کا عہدہ ایک پولٹیکل اسٹریٹجک اقدام ہے، جو پاکستان کی معیشت کو استحکام اور ترقی کی طرف لے جانے کے لئے ان کے وسیع سیاسی و معاشی تجربے، مہارت، اور مسلم لیگ ن میں سیاسی،تنظیمی اور معاشی محاذوں پر ھمہ جہت متحرک رھنے والی شخصیت کے طور پر انکی صلاحیتیوں کا اعتراف اور اعتماد کا مظہر ھے۔

یہ تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب وزیر اعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار مختلف وزراء کے ہمراہ عالمی اقتصادی فورم (WEF) کے عالمی تعاون، ترقی اور توانائی سے متعلق خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں موجود تھے جہاں دنیا بھر سے آئے 92 ممالک کے سربراہان مملکت/ حکومت وزراء خارجہ،وزراء خزانہ و تجارت اور 1000 کے قریب عالمی سطح کے معروف اور پروفیشنل ارباب حل وعقد موجود تھے جن ممالک کی اس اھم فورم WEF پر نمائندگی موجود تھی ان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے علاوہ یورپی یونین،افریقہ،عرب ممالک،انڈونیشیا ملائیشیا شامل تھے۔اس سے اس اجلاس کی عالمی سطح پر اھمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔کہ یہ کتنا اھم اجلاس تھا۔

جب سے اسحاق ڈار نے ملک کے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا ہے، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سفارتی فورمز میں ملک کی بھرپور نمائندگی کی، تجارتی معاہدوں اور سرمایہ کاری کے مواقع کے لیے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مسلسل مصروف عمل رہے، اور پاکستان کی عالمی حیثیت اور رسائی کو بڑھانے کے لیے اسٹریٹجک شراکت داری کو فروغ دیا۔

نائب وزیراعظم کا عہدہ ہر ملک کے مخصوص آئینی اور سیاسی تناظر پر مختلف ذمہ داریوں کا حامل ہوتا ہے تاہم، عام طور پر، نائب وزیراعظم وزیراعظم کے سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر کام کرتا ہے اور فیصلہ سازی میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے، اور مختلف فورمز پر وزیراعظم کی عدم موجودگی میں نمائندگی کر سکتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں نائب وزیراعظم کے منصب کی روایت زیادہ پختہ نہیں ھے ماضی میں پاکستان میں صرف 4 نائب وزیراعظم رھے ھیں پہلے نائب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو مرحوم تھے جو1971 میں وزیراعظم نورالامین کے ساتھ نامزد ھوئے تھے جو تھوڑا عرصہ رھے،محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں محترمہ نصرت بھٹو بھی نائب وزیراعظم/ سنئیر وزیر رہیں،چوھدری نثار علی خان بھی 2008 کی اتحادی حکومت میں یوسف رضا گیلانی کے ساتھ نامزد سنئیر وزیر رہے،پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ھی چوھدری پرویز الہی راجہ پرویز اشرف کے ساتھ نائب وزیراعظم رھے اور اب سینٹر اسحاق ڈار موجودہ حکومت کے نائب وزیراعظم مقرر ھوئے۔

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ نائب وزیراعظم کا عہدہ کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔ لیکن، یہ ایک منصب ہے، جس کی بہت سے ممالک میں حیثییت مسلمہ ہے۔ ان ممالک میں چین، برطانیہ، آسٹریلیا، آسٹریا، کینیڈا، جرمنی، اسپین، اٹلی، بیلجیم، روس، سویڈن، سنگاپور، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ، جاپان، ملائیشیا اور ہندوستان شامل ہیں۔

بھارت میں، سات ممتاز سیاسی رہنما نائب وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے، جس نے بھارت کے سیاسی منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ سردار پٹیل پہلے ہندوستانی سیاسی رہنما تھے جو 1947-1950 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس عہدے پر فائز دیگر چھ رہنماؤں میں مرار جی ڈیسائی شامل تھے، جو بعد میں ہندوستان کے وزیر اعظم بنے، چرن سنگھ، جو ہندوستان کی تاریخی زرعی اصلاحات لانے کے لیے مشہور تھے، جگجیون رام، جدید ہندوستان کی تشکیل میں ان کے کردار کو ہندوستان میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا، یشونت راؤ چوون، جو کہ مشہور ہیں۔ ہندوستان میں عام آدمی کے رہنما کے طور پر دیوی لال اور ایل کے۔ ایڈوانی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، یہ سبھی ہندوستانی سیاسی منظر نامے پر بلند پایہ سیاسی رہنما تھے اور ہندوستان میں ان کی اہم شراکت کے لیے بڑے پیمانے پر پہچانے جاتے ہیں۔

اسحاق ڈار، جو ایک تجربہ کار ماہر معاشیات اور مالیاتی ماہر ہیں، تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پاکستان کے معاشی منظر نامے میں ایک اہم شخصیت رہے ہیں۔

1998 میں جب ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان شدید معاشی گرداب کا شکار ہوا تو فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے، ڈالر کی قیمت 67 روپے تک جا پہنچی تھی اور خدشہ تھا کہ یہ 100 روپے تک پہنچ جائے گا۔تباہ حال معاشی بحران کے تناظر میں، اسلامی ترقیاتی بینک (IDB) نے پاکستان کے بڑے اثاثوں پر رہن سمیت 1.5 بلین کے قرض کے لیے خوفناک شرائط رکھی تھیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اقتصادی ٹیم کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، سینیٹر اسحاق ڈار نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست پر یہ چیلنجنگ ذمہ داری قبول کی اور پاکستان کو اس معاشی بحران پر قابو پانے میں مدد کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ کامیابی سے بات چیت کی۔

اسی طرح اسحاق ڈار نے پاکستان میں معاشی شفافیت کے قیام میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

جب وہ 1997 میں وزیر تجارت بنے تو انہوں نے پانچ ایسے اقدامات تجویز کیے جنہوں نے پاکستان میں حکومتی سطح پر معاشی شفافیت کے قیام کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔

ان اقدامات میں (i) خصوصی درآمدی برآمدی اجازت ناموں کا خاتمہ، (ii) ٹیکسٹائل کوٹہ میں صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ، (iii) پلاٹس کی الاٹمنٹ سے متعلق وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ، (iv) ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ۔ مفت مرسڈیز کی درآمدات، اور v) نقد ترقیاتی گرانٹس کا خاتمہ۔

اب جب سینٹر اسحاق ڈار نے عہدہ سنبھالا ہے، ادائیگیوں کے توازن کے بحران، بلند مالیاتی خسارے، توسیعی افراط زر، غیر مستحکم قرض، کم سرمایہ کاری، اور حالیہ برسوں میں سکڑتے ہوئے معاشی نظام کی وجہ سے گہری معاشی بحران کا سامنا ہے۔

اتحادی حکومتیں ہمیشہ چیلنجوں کا شکار رہتی ہیں جس کے سیاسی استحکام پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چونکہ نائب وزیر اعظم کو تمام اتحادی جماعتوں کا احترام حاصل ہے، اہم معاشی پالیسیوں پر اتحادی جماعتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا کرنا ان کے لئے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہوگا جس سے نزاکت اور مہارت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔

موجودہ حالات میں گڈ گورننس واقعی ایک بڑا چیلنج ہو گا جسے قابل حکمرانی، موثر انتظامیہ، شفافیت اور جوابدہی کو برقرار رکھتے ہوئے نمٹا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، معاشی نظم و نسق، پالیسی پر عمل درآمد کی نگرانی، معیشت کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کی حکمت عملی اور ملک میں حکمران اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مضبوط رابطہ قائم کرنا یقینا اہم چیلنجز ہونگے۔

مختلف سرکاری محکموں کے درمیان ہموار ہم آہنگی اور موثر تعاون اور صوبائی حکومتوں اور مقامی حکام کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے کی بھی اشد ضرورت ہو گی۔

اس کے علاوہ دیگر ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بامعنی سفارتی روابط پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

امید ہے کہ نائب وزیر اعظم مجموعی طور پر وزیر اعظم اور حکومت کے باہمی تعامل سے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کلیدی ادا کریں گے۔