پی ٹی آئی کا ایک اور ’’وار‘‘ : تحریر مزمل سہروردی


تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کے خلاف پوسٹ ٹوئٹ سامنے آئی ہیں۔

کسی سیاسی جماعت کی جانب سے اس طرح کی سوشل میڈیا ٹوئٹس کی شائد ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے کبھی کسی چیف جسٹس کے خلاف منفی مہم نہیں چلائی لیکن اس بار جو کیا جا رہا ہے۔

اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تحریک انصاف پہلے بھی اپنے سوشل میڈیا ٹرولز کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کے بارے میں منفی مہم چلاتی رہی ہے۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ ٹرولز ایسے اکاؤنٹس ہوتے ہیں جن کی شناخت واضح نہیں ہوتی، یہ بے نام اکاؤنٹس ہوتے ہیں اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہا ان اکاؤنٹ کے پس پردہ کون ہے۔ ایسے اکثر اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلائے جاتے ہیں تا کہ پاکستان میں قانونی گرفت سے بچا جا سکے۔ لیکن اس بار تحریک انصاف نے اپنا آفیشل ٹوئٹر ہینڈل استعمال کیا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی چیف جسٹس صاحبان سے گلے شکوے کی روایت پرانی ہے۔ جب ثاقب نثار چیف جسٹس تھے اور وہ جیوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے میاں نواز شریف کو نا اہل کر رہے تھے، تب ن لیگ نے بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف مہم چلائی تھی۔ لیکن یاد رکھیںمسلم لیگ ن نے اس مہم کی بھاری قیمت بھی ادا کی تھی۔ سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت میں سزا ہوئی اورسینیٹ کی سیٹ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ ے۔ بلکہ ان کی عدلیہ مخالف تقریر کے بعد ن لیگ نے خود ہی ان سے استعفی بھی لیا۔ طلال چوہدری کو توہین عدالت پر سزا ہوئی ا ور انھوں نے پانچ سال کی نا اہلی بھی برداشت کی۔

دانیال عزیز کو توہین عدالت میں سزا ہوئی، اور انھوں نے بھی نا اہلی برداشت کی۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا، تب تحریک انصاف چیف جسٹس کے ساتھ کھڑی تھی، آ پ اس وقت کے بیانات اور تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں، تحریک انصاف چیف جسٹس کے عہدہ اور منصب کے دفاع میں سب سے آگے تھی اور یہ کہتی تھی کہ پاکستان کے چیف جسٹس پر حملہ عدلیہ پر حملہ ہے اور اس کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے۔ جب مسلم لیگ ( ن )کے رہنماوں کوتوہین عدالت کی سزائیں سنائی جا رہی تھیں تو وہ تالیاں بھی بجا رہے تھے اور ان سزاؤں کوعدلیہ کے تحفظ کے لیے ناگزیر قرار دے رہے تھے۔

جب پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں سزا سنائی گئی اور انھیں عہدے سے فارغ کر دیا گیا، ملک کا آئینی وزیر اعظم دہائی دیتا رہا کہ صدر مملکت کوآئینی استثنی حاصل ہے، میں آئین کے تحت صدرپاکستان کے خلاف خط نہیں لکھ سکتا۔ لیکن اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے انھیں توہین عدالت میں طلب کیا اور انھیں تابرخواست عدالتتک کی سزا سنا دی ، انھیں وزارت عظمی کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔ اس تمہید کا مقصدیہ یادکرانا ہے کہ پاکستان میں چیف جسٹس صاحبان کے خلاف منفی مہم کی روایت ضرور موجود ہے لیکن چیف جسٹس صاحبان نے اپنے عہدے کی عزت و تکریم کی حفاظت کے لیے توہین عدالت کے قانون کا بھرپوراستعمال کیا ہے اور کسی سے رعایت نہیں کی ہے۔

یہ درست ہے کہ اس کے بعد سیاسی جماعتوں نے ایک راستہ نکالا کہ انھوں نے پارلیمان میں عدلیہ کے خلاف تقاریر کیں۔ آئین کے مطابق پارلیمان میں کی جانی والی تقاریر کوآئینی تحفظ حاصل ہے، اس پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے آپ دیکھیں گے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف پارلیمان میں ہم خیال بینچ کے بارے میں ایک مہم نظر آئی۔ لیکن اس وقت تحریک انصاف نے پارلیمان سے استعفی دے دیا ہو اتھا۔ اس لیے وہ پارلیمان میں اس کا جواب نہیں د ے سکتے تھے۔ تا ہم انھوں نے میڈیا میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا خوب دفاع کیا اور یہ موقف بھی دیا کہ پارلیمان میں بھی ایسی تقاریر کو تحفظ حاصل نہیں ہونا چاہیے۔

اب تحریک انصاف نے باقاعد ہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ٹوئٹ کیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کیا ان ٹوئٹس کو در گزر سے کام لیتے ہوئے ان کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ یاآئین وقانون کے مطابق سخت ایکشن لینا چاہیے۔ میری رائے میں سخت ایکشن لینا چاہیے اور تحریک انصاف کے ذمہ داران کو توہین عدالت کے نوٹس دینے چاہیے اور کارروائی کرنی چاہیے۔کسی بھی سیاسی جماعت کو اس طرح اپنے باقاعدہ اکاؤنٹ سے چیف جسٹس کے خلاف مہم کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

یہ سوال ہے کہ تحریک انصاف نے ان ٹوئٹس سے جو بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے، وہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے، یہ سوال اہم نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے ان ٹوئٹس میں سیاست کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو جس طرح مخاطب کیاگیا ہے، اس کی بھی آئین وقانون میں کسی طرح بھی اجازت نہیں ہے۔ نام بگاڑنا اور نام سے توہین کرنا نہ صرف ایک غیر اخلاقی بات ہے بلکہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

تحریک انصاف گالم گلوچ اور بد تمیزی کا ایک ایسا کلچر پروان چڑھایا ہے۔ حالیہ پوسٹیں بھی ان کے اسی کلچر کی عکاس ہیں۔ یہ پوسٹیں اس بات کی بھی عکاس ہیں کہ تحریک انصاف کے قائدین کو بخوبی علم ہے کہ اس کے موقف اور دلیل میں وزن نہیں ہیلہذا بدتمیزی کا سہارا لیا گیا ہے۔

تحریک انصاف نے پشاور ہائیکورٹ کے ریٹائر ڈچیف جسٹس کو سپریم کورٹ کا جج نہ بنانے پر چیف جسٹس پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن جس ریٹائرڈ جج صاحب کی تحریک انصاف حمایت کر رہی ہے، ان کے کسی جونیئر کو ان پر ترجیح نہیں دی گئی، ان کو نظر انداز کر کے کسی اور کو سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا گیا۔ لیکن تحریک انصاف کی اسمخصوص ریٹائرڈ جج صاحب کے لیے محبت اپنی جگہ ایک سو ال ہے اورعدالتی سہولت کاری کے الزاما ت کو تقویت بخش رہا ہے۔

جب عمران خان وزیراعظم تھے، تب سپریم کورٹ میں جونیئر ججز کو پروموٹ کر نے کی روایت ڈالی گئی اور تحریک انصاف نے اس کا بھر پورفاع بھی کیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ایک بھی جونیئر جج کو پروموٹ نہیں کیا،کسی مخصوص جج کے لیے تحریک انصاف کی محبت اپنی جگہ اور حقائق اپنی جگہ۔ جہاں تک ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کا معاملہ ہے ، حکومت نے نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے، اس کی سماعت کرنے والے بنچ میں چیف جسٹس شامل ہی نہیں ہیں لہذا ان پر اس حوالے سے تنقید کیسے کی جا سکتی ہے۔ اور نہ وہ نظرثانی کی اپیل کو اپنے ماضی کے کسی فیصلے کی بنا پر مسترد کرسکتے ہیں ۔

پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں صوبائی تعصب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو افسوناک ہے۔ کیونکہ آئین میں سپریم کورٹ میں ججز کے حوالے سے صوبوں کی بنیاد پر کوئی کوٹہ نہیں ہے۔ ویسے تحریک انصاف کے دور میں ان کے پسندیدہ عمر عطا بندیال نے جب سندھ سے ججز کو نظر انداز کیااور پنجاب سے جان بوجھ کر جونیئر ججز کو پروموٹ کیا گیا، کیا تب تحریک انصاف نے احتجاج کیا تھا؟ ایسی کوئی ٹویٹ کی تھی؟ تب تواس کا دفاع کیا جا رہا تھا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس