ہم کو دشوار ہوا دن کو بھی راتیں کہنا‘‘ : تحریر کشور ناہید’’


انڈیا کی ایک خاتون وزیر سائنس دانوں کی ایک میٹنگ میں گئی۔ وہاں صرف مرد موجود تھے۔ اس نے کہا کیا انڈیا میں کوئی خاتون سائنس دان نہیں ہے۔ وہ اٹھ گئی اور کہا ’’ جب خواتین بھی آجائیں گی تو مجھے بلا لیجئے گا‘‘۔ یہ مثال میں اس لئے دے رہی ہوں کہ ہمارے ملک میں ایران کے صدر اپنی اہلیہ کے ساتھ تین روزہ دورے پر آگئے۔ انہیں پاکستان میں دیکھنے کیلئےدو مزارات علامہ اقبال اور قائداعظم کےملے۔ جس وقت وہ علامہ کے مزار پر گئے اس وقت اگر علامہ اقبال کی بہو ناصرہ اقبال کو ملا دیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ وہ خاتون جج بھی ہیں۔ اسی طرح قائداعظم کے مزار پر بھی خاتون وزیر ساتھ ہوتی تو پاکستان کے مردانہ وجود میں ذرا سی ذہنی دراڑ پڑ جاتی۔

ایران کے صدر کی اہلیہ خود لکھنے والی ہیں۔ وہ اپنی کتاب بھی ساتھ لائی تھیں جس وقت وہ پہلے دن لنچ کرتیں، ملک کی کم از کم 20چیدہ خواتین سے ملاقات کا اہتمام کیا جاتا، جیسے بی بی بینظیر سے ملنے جب مسز کلنٹن آئیں تو بینظیر نے ان کوباقاعدہ ملک بھر سے تمام شعبوں کی مشہور خواتین سے ملوایا۔ بعد میں ناہید صدیقی کا رقص تھا۔ چلیں بیگم شہباز شریف یا صدر پاکستان کے ساتھ خاتون اول کہلائی جانے والی بی بی آصفہ کی جانب سے ہی اس طرح کے لنچ یا ڈنر کا اہتمام کیا جاتا۔ رقص بےشک نہ ہوتا اس کی جگہ خواتین اداکار ی کے ذریعہ خواتین کی ترقی اور خواتین کے مسائل کو اجاگر کرتیں تو ایسا منظر خاتون اول ایران کی سوچ میں مثبت تبدیلی لا سکتا تھا ۔ ہمارے یہاں تو مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر اقلیتوں کی خواتین اسمبلی تک میں موجود ہیں مگر ’’خاک ان خواہشوں پر کہ جو خاک ہوگئیں‘‘۔ اس کتاب کی تقریب اکیڈمی آف لیٹرز میں ہوتی کہ جہاں سربراہ بھی ایک خاتون ہیں۔ ان تمام سوچوں کے پیچھے کچھ پرانے ذہن رسا بھی تھے جو وزارت اطلاعات سے لے کر ٹی وی اور پی این سی اے چلا رہے تھے جبکہ فی الوقت ان سب جگہوں پر صرف افسر یا وزیر ہیں جو صرف سیاسی تقریریں کراور کروا سکتے ہیں۔

اب آیئے ذرا صدر پاکستان اور وزیراعظم کی طرف۔ ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی نہ استقبال کیا نہ الوداع کہا۔ البتہ دونوں سےملاقاتیں ہوئیں۔ ڈار صاحب اگر اس وقت ڈپٹی پرائم منسٹر ہوتے تو ان سے بھی ملاقات ہوتی۔ ممکن ہے سیاسی مصلحتیں یا پھر امریکی گیدڑ بھبکیاں پیش نظر ہوں ویسے الوداعی پیغام میں انہوں نے بہت گہری بات کہہ دی۔ ’’میں تو پاکستان کے عوام سے خطاب کرنا چاہتا تھا‘‘۔ یہ خواہش میڈیا کےذریعہ پوری ہوسکتی تھی مگر پھر کون لوگ میڈیا کے سربراہ ہیں۔ پھر یہ بھی ڈر ہوگا کہ وہ نجانے کیا کہہ جائیں۔ احتیاط بہتر رہی کہ دونوں ملکوں کے باہمی معاہدہ کو ان کے واپس جانے کے دو روز بعد پیش کیا گیا۔ ویسے ایرانی سفارتخانہ بھی دبا دبا رہا۔

ہم دنیا کےسامنے اپنی حیثیت دیکھیں۔ سن دو ہزار کو ایشیا کی صدی کہا گیا تھا۔ پاکستان اس وقت وسائل میں 5فیصد اور غربت میں دسویں نمبر پر ہے۔ ابھی میں نے اتنا لکھا تھا کہ شکیل انجم جوکہ کرائم رپورٹر ہے، میرے دفتر میں آکر غصے سے اپنی لکھی رپورٹ سامنے کرتے ہوئےبولا ’’آپ نے ساری عمر عورتوں کے شعور کو بڑھانے میں گزار دی۔ یہ پڑھئے‘‘۔ لکھا تھا کہ پڑھی لکھی خواتین کا ایک گینگ پکڑا گیا جو فراڈ کرکے، خواتین و حضرات کے اکاؤنٹ نمبر کسی طرح معلوم کرکے بڑی رقم اپنےملنے والوں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیتی تھیں۔ شکیل کے چہرے پہ پژمردگی دیکھتے ہوئے میں نے کہا ’’تم تو ہمارے زمانے کے اکبر الہ آبادی بن گئے ہو‘‘۔ انہوں نے لکھا تھا ’’لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی، قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ‘‘۔ دیکھو یہ علم نہیں، تربیت کی کمی ہے۔ تمہارے سامنے ہے کہ آج کل عاصمہ جہانگیر کی برسی پر دنیا بھر کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ جیسے عاصمہ غریب اور بے آسرا لوگوں کی مشکلیں اور مقدمات حل کرواتی تھی ویسی خواتین کی تعداد کو دنیا بھر میں پڑھانے، نصابی تبدیلیوں اور اسکول سے لے کر یونیورسٹیوں اور دفتروں میں بھی عورت اور مرد کی ذہنی مطابقت کی ضرورت ہے۔

ہماری گفتگو کے دوران ایک فاؤنڈیشن کی افسر داخل ہوئیں اور کہا ’’اب میری سنئے۔ ہم موجودہ سربراہ کے غیر اخلاقی رویئے کی شکایت کرچکے ہیں‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ گفتگو کی تفصیل میں جاتیں، میں نے دفتروں میں لگے پوسٹر کی جانب اشارہ کیا تو وہ جاتے ہوئے غصے سے کہہ گئی۔ وہ تو ایسے ہی ہیں جیسے مسجدوں میں روز لوگوں کو شیطانیت سے ڈراتے ہیں۔ اس کے جاتے ہی ہم دونوں ایسے خاموش ہوگئے جیسے مذہبیت اور علمیت کا فقدان ہم جیسے نیم خواندہ لوگوں کے باعث ہے۔ اس لئے تو قتل، ڈاکے اور بچوں سے زیادتی کے واقعات ہر طرح کی قانونی گرفت کی تشریح کے باوجود، کم نہیں ہوتے۔

پھر موضوع بدلتے ہوئے ہم نے اسد عمر کے اتوار کو شائع شدہ مضمون پر بات کرنی شروع کی۔ وہ مضمون میں خواجہ ناظم الدین کے زمانے کی سیاست کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔ ارے بھئی اس موضوع پر تو سینکڑوں پڑھے لکھوں اور سیاست دانوں نے کتابیں لکھ ڈالی ہیں۔ لکھنا ہے تو یہ لکھو کہ تم اپنے شاہی زمانے میں کیا انقلاب لائے تھے اور کس طرح کی حسرت رہ گئی تھی۔ مزید لکھنا ہے تو یہ بھی بتاؤ کہ فوراً پارٹی چھوڑ کر کراچی واپس پہنچ گئے۔ 9مئی کے لوگ جن پر نہ الزام ثابت ہوا، نہ مقدمے چلے، سال بھر سے کیوں اندر ہیں۔ اور آپ کے ناخدا جو جیل 804والے طرح طرح کے بظاہر صلح مندی کے پیغام بھجوا رہے ہیں اور صلح بھی سیاست دانوں سے نہیںدفاعی سربراہوں سے۔ یہ پیغام بھی بہت سے دلارے دے رہے ہیں مگر حیرت اور پریشانی تو مجھے شبلی فراز کے منہ سے یہ کلمات سن کر ہوئی۔ اس کی تربیت میں ہم سب اور احمد فراز خود شامل تھا۔ چونکہ ہم مارشل لائی جمہوریت برداشت اور نوکریاں بھی کرتے رہے، غریب تھے کیا کرتے، خود پہ جبر کرکے حکم بجا لاتے رہے۔ اسد عمر کے باپ بھی تو یہی کرتے رہے۔ اولاد پہ ماحول کا اثر بھی ہوتا ہے۔ شبلی بھی شاید دس مہینے غائب رہ کر، اپنا تجزیہ کرکے بولنے لگا ہے۔ یہی سیاست ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ