میں کسان ہوں! : تحریر سہیل وڑائچ


میں زرعی ملک کا ایک بے نوا کسان ہوں۔ یہاں صنعت کاروں، کپاس ملز اونرز، شوگر ملز اونرز ، تاجروں اور آڑھتیوں سب کی آواز ہے، سب کی تنظیمیں ہیں ،سب کے پریشر گروپس ہیں، سب حکومتوں کو اپنے مطالبوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔سب کی لابیاں ہیں، سب نے مافیاز بنا رکھے ہیں، کوئی ان کی طرف انگلی بھی اٹھائے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں مگر میں وہ واحد ہوں جس کی نہ کوئی سنتا ہے ،نہ کوئی مانتا ہے ۔ہر کوئی مجھے دباتا ہے، لوٹتا ہے میرے اگائے ہوئے اناج کھاتا ہے مگر مجھے میرا حق نہیں دیتا ۔

یہ ملک بنا تو میں سب سے بااثر تھا اسمبلیوں میں میری بھاری اکثریت تھی، تاجروں اور سودخور آڑھتیوں پر پابندی تھی کہ وہ میری زمین نہیں خریدسکتے تھے، میرا طرز زندگی باقی سب پیشوں سے بہتر تھا، سب سے اچھی اور مہنگی جائیدادیں میری تھیں، معاشرے میں سب سے زیادہ قدر سے میں دیکھا جاتا تھا مگر 75سال میں سب شعبے مجھ سے آگے نکل گئے اور میں سب سے پیچھے رہ گیا۔ تاجر، بیوروکریٹ، سرکاری ملازم حتیٰ کہ خوانچہ فروشوں کی آمدنی مجھ سے بڑھ گئی ۔شہروں میں رہنے والوں کو ہسپتال، سکول، سڑکیں اور ہر جدید سہولت مل گئی مگر میں 75سال سے وہیں کا وہیں کھڑا ہوں بلکہ پہلے سے بدتر ہو گیا ہوں ۔

میں نے فصل اگانی ہو تو کھاد کیلئے قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، ضرورت کے وقت کھاد ہمیشہ بلیک مارکیٹ سے لینی پڑتی ہے اور وہ بھی کئی گنا مہنگے داموں، اچھا بیج ملتا نہیں بیج کمپنیاں ہر طرف کوئی نہ کوئی دھوکہ کر دیتی ہیں، گندم اگاؤں تو سرکار خریدتی نہیں بیرون ملک سے مہنگے داموں خریدلیتی ہے آڑھتی کو بیچوں تو وہ سستے دام لگاتا ہے۔ گندم سٹور اس لئے نہیں کرسکتا کہ سٹوریج کے وسائل نہیں ہیں، فصل کیلئے ادویات اور سپرے چاہیے ہوں تو کوئی بتانے والا نہیں کہ کونسا سپرے یا دوائی ٹھیک ہے اور کون سی جعلی ۔گنے کی فصل اُگاؤں تو شوگر ملز خریدتے ہوئے سو سو نخرے کرتی ہیں بمشکل سرکاری ریٹ پر خرید لیں تو کئی کئی سال ادائیگیاں نہیں کرتیں ۔خودگڑ بنانے کی کوشش کروں تو حکومت پابندی لگا دیتی ہے۔ کپاس کاشت کرلوں اور خوش قسمتی سے بمپر فصل تیار ہو جائے تو کپاس کے تاجر، باہر سے درآمد کی دھمکیاں دیتے ہیں ،کبھی کہا جاتا ہے کہ یہاں کی کپاس معیاری نہیں، کسانوں سےسستی کپاس لیکر کپڑا مہنگے داموںبرآمد کر دیا جاتا ہے، مجھ بیچارے کو تو مناسب خرچ بھی نہیں ملتا ۔اگر میں سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کرلوں تو آڑھت اور درمیان کے لوگ میری ضرورتوں سے فائدہ اٹھا کر مجھے ایڈوانس دیکر پہلے سے ہی باغ اور سبزی خرید لیتے ہیں اس معاملے میں بھی سارا منافع آڑھتی اور کمیشن ایجنٹس کھا جاتے ہیں میں بیچارا منہ دیکھتا رہ جاتا ہوں ۔

اسی پر بس نہیں میرا نوحہ کافی طویل ہے پٹواری، تحصیلدار او رتھانے دار کی لوٹ مار سے کون واقف نہیں؟ 75سال ہو گئے ہیں اب بھی پٹواری کا غلام ہوں اس کا جی چاہے تو مجھے مالیے اور آبیانے کی مد میں زیر بار کر دے اور اگر مٹھی گرم ہو جائے تو میں مفت میں بری ہو جاتا ہوں، اشتمال اراضی ہو یا فرد کا حصول ،میں برسوں سے پٹواری کے عتاب کا شکار ہوں ۔نواب آف کالا باغ جیسا دبنگ گورنر اور ایوب خان جیسا آمر بھی اپنے پٹواریوں سے زمین کے معاملے میں دبتا ہی رہا ۔کیا میری قسمت یہی ہے کہ اس زرعی ملک میں سب مجھے ہی لوٹیں کھسوٹیں اور کوئی میری آواز بھی نہ سنے ۔

کسی بھی صوبائی یا ضلعی صدر مقام پر چلے جائیں وہاں سب سے مہنگے علاقے میں ایوان صنعت و تجارت کی بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں گی ،ان عمارتوں میں درجنوں لوگ ملازم ہیں کروڑوں اربوں کے بجٹ ہیں ،ریسر چرز سارا سال بیٹھ کر رپورٹیں بناتے ہیں ،حکومت کی مدد سے صنعت کاروں کے وفود بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں ملک کا بجٹ ان چیمبرز کے مشورے کے بغیر نہیں بنتا، ملک کی کوئی مالیاتی اور تجارتی پالیسی انکی مرضی کے خلاف نہیں بن سکتی ۔اسی طرح کپاس کے مل اونر زکی تنظیم اپٹما بھی بہت بااثر ہے حکومت کو اسکے مطالبات کے سامنے جھکنا پڑتا ہے انکی خوشنودی کی خاطر پالیسیوں کو بدلنا پڑتا ہے ۔فلور مل مالکان کی بھی اپنی ایسوسی ایشن ہے، فلور ملز ہڑتال پر چلی جائیں تو حکومت کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے۔ بس ایک بیچارہ کسان ہے جس کا نہ ایوان زراعت ہے نہ اس کا کوئی بجٹ، نہ کبھی کسی حکومت نے بجٹ بنانے میں کسانوں سے مشورہ کیا اور نہ کسانوں کے پاس وسائل ہیں کہ وہ ریسرچرز رکھ کر حکومت کو پالیسی بنانےپر مشورہ دیں، نہ کبھی کسانوں کو کسی غیر ملکی ماہر نے آکر جدید تکنیک سکھائی اور نہ ہی آج تک کسانوں کو کسی دوسرے ملک بھیجا گیا کہ دیکھ کے آؤ دنیا زرعی ترقی میں کہاں کھڑی ہے؟

مجھ پر ہمیشہ سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اسمبلیوں میں میری طاقتور لابی ہے یہ اب صرف مفروضہ ہے اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں، تینوں بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کا ذریعہ آمدن زراعت نہیں وہ زراعت کی حمایت کیوں کریں گے، کیا آج تک کوئی ڈھنگ کا وزیر زراعت بنا ہے ؟خدا بخش بچہ کے بعد کسی کو زراعت کی الف ب سے واقفیت نہیں اگر کوئی کسان وزیر بن بھی جائے تو اسے جدید زراعت اور حکومت سے ڈیلنگ کا ڈھنگ ہی نہیں آتا۔متحدہ پنجاب میں 1947ء سے پہلے ایک سرچھوٹو رام ہوا کرتا تھا جو کسان کے حق میں اسمبلی میں آواز بھی بلند کرتا تھا اور اس نے کسانوں کیلئے ایسی قانون سازی بھی کروائی کہ ان کی کھوئی ہوئی جائیدادیں اور عزتیں بحال ہوگئیں۔اب پورے ملک میں ایک بھی سرچھوٹو رام نہیں۔کسانوں کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ لابی بناسکیں ،کسی سیاسی جماعت کی مالی امداد کرسکیں، تاجر اور صنعت کار پارٹیاں خرید لیتے ہیں لیڈروں سے سودے بازی کر لیتے ہیں ،میں کسان بے چارہ آج 75سال بعد بھی بےنوا ہوں کوئی میری آہ سنتا ہے نہ میرے دکھ جانتا ہے ۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں ملک کی خاموش اکثریت ہوں اگر میری نہیں سنی جاتی تو پھر باقیوں کی شنوائی اور رسائی کیسے ممکن ہو رہی ؟اب میری گندم تیار ہے، آڑھتی سستے دام لگا رہے ہیں حکومت خرید نہیں رہی ! ایسے لگتا ہے کہ میرے حالات کبھی نہیں بدلیں گے پھر سوچتا ہوں کہ میرے حالات نہ بدلے تو اس زرعی ملک کے حالات بھی نہیں بدلیں گے۔جب تک حکومتیں اور سیاسی جماعتیں کسانوں کے بارے میں واضح پالیسیاں نہیں بناتیں، ان سے انصاف نہیں کرتیں اس وقت تک ملک کی معیشت ترقی نہیں کرے گی، میرے ساتھ تو 75سال میں جو ہوا سو ہوا ،ملک کے ساتھ وہ نہ ہونے دیں….

بشکریہ روزنامہ جنگ