“امیروں کی امیری کی طرح ہماری غربت موروثی ہے۔ اگر کسی کے باپ دادا غریب ہیں تو وہ غریب ہی رہے گا۔ اور اگر کسی کے باپ دادا امیر ہیں تو وہ امیر ہی رہے گا۔”
سندھ کے ضلع خیرپور کے گاؤں کندیاری کے لوگوں کے اس انتہائی اہم تاثر سے کاظم سعید کی انتہائی اہم حقائق اور مصدقہ اعداد و شمار سے مزین تصنیف دو پاکستان۔ہر پاکستانی گھرانے تک خوش حالی کا آغاز ہوتا ہے۔
میں کئی ہفتوں سے بار بار دعوت دیتا آ رہا ہوں کہ پاکستانی سیاست دانوں اور مقتدرہ کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔ خود آئندہ دس پندرہ برس کا لائحہ عمل مرتب کریں۔ میری اپنی کوتاہی کہ میرے پاس صرف دس پندرہ برس ہی کا نہیں آئندہ 23 برس یعنی 2047 میں پاکستان صدی پوری ہونے تک کا ایک ہر پہلو سے جامع روڈ میپ اس کتاب کی شکل میں موجود تھا۔ یہ قیمتی کتاب مجھ تک حیدر تقی صاحب کے توسط سے پہنچی تھی۔ اور اب جب اس پر لکھنے بیٹھا تو فیس بک پر اس متین نفس شخصیت کے اچانک ارتحال کی خبر اداس کر رہی تھی۔ یہ اس نستعلیق ہستی کے جانے کے دن قطعی نہیں تھے۔ حیدر تقی سے کم کم ملاقاتیں رہیں۔ لیکن جب بھی ملے تو انہیں اپنے مشرقی اور بالخصوص جنوبی ایشیائی تمدن کا مرقع پایا۔ اب جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو پاکستان اپنے ہمسائے اور سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ملک ایران کے صدر کی میزبانی سے سرشار ہے۔ کچھ کچھ خدشات بھی ہیں کہ امریکہ ناراض نہ ہو جائے۔ میں نے تو گزشتہ کالم میں ہی عرض کیا تھا کہ پاکستان کو دور دراز واشنگٹن کی بجائے اپنے دیوار بہ دیوار ہمسائے افغانستان اور ایران سے سبق سیکھنا چاہیے کہ عالمی پابندیوں کے باوجود دونوں اپنے عوام کو پر امن ماحول سے نواز رہے ہیں۔ اقبال تو پہلے ہی کہہ گئے ہیں۔
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
اور یہ بھی
افغان باقی، کُہسار باقی
اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ!
میری دعا ہے کہ پاکستان، افغانستان، ایران اور ترکیہ آپس میں کوئی علاقائی اشتراک کریں۔
‘دو پاکستان’ کی بنیادی حکمت عملی یہ ہے کہ خوش حالی ہر پاکستانی گھرانے کا حق ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ ہر گھر تک پہنچنی چاہیے۔ ہماری تحریروں کی طرح یہ محض سیاسی تک بندیوں پر مبنی نہیں ہے۔ دردمند پاکستانی کاظم سعید نے اس تحریر کو جامع، اعداد و شمار کو مصدقہ، حقائق کو مسلمہ، اپنے اسلوب کو معروضی بنانے کیلئےسینکڑوں عالمی رپورٹوں، قدیم نسخوں، بالخصوص مغل دور کی معاشرت اور معیشت سے متعلقہ نایاب کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے نزدیک بنیادی سچائی یہ ہے کہ پاکستان میں اکثریت کی معاشی بنیاد مستحکم نہیں ہے۔ اور غضب یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کی 76 سالہ ساخت تقدیر میں بدلنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔لیکن ہوا یہی ہے کہ اب تک پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ ملک غلام محمد سے لے کر محمد اورنگزیب تک آنے والے 45 وزرائے خزانہ سب نے ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے غریب غریب ہی رہا ہے۔ کوئی محقق یا مورخ میرے اس تاثر کی نفی بھی کرے کہ 1947 سے 1971 سقوط ڈھاکا تک جتنے وزرائے خزانہ آئے۔ اس میں سے کسی کا تعلق بھی اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان سے نہیں تھا۔
حیرت ہوتی ہے کہ کاظم سعید نے غریب پاکستانیوں کے دلوں کی آوازیں کہاں کہاں سے جمع کی ہیں۔ “دو پاکستان” ایک قلعے کے اندر کا پاکستان ہے۔ ایک قلعے سے باہر کا۔ 590 صفحات کو محیط ‘دو پاکستان’ میں معیشت جیسے ادق موضوع کے تمام اہم پہلوؤں کا جائزہ ایسے انداز میں لیا گیا ہے کہ آپ کسی ناول کی طرح اسے ایک ہی نشست میں پڑھنے کی طرف مائل رہتے ہیں۔ کہیں برازیل۔ کہیں ترکیہ۔ کہیں چین کے مناظر دکھاتی ہے کہ وہاں غربت کس طرح ختم کی گئی ہے۔ ہمارے حکمران ترکیہ، چین اکثر جاتے رہے ہیں۔ لیکن کبھی ان سے سبق نہیں سیکھا۔غربت کا خاتمہ، صحت، زرعی پیداوار، معقول روزگار، محنت کشوں کا تحفظ، صنعتی دور میں داخلہ، برآمدات، جدید دور کی کان کنی خیرات نہیں، کمانے کی صلاحیت میں اضافہ۔ کون سا موضوع ہے جس سے ایک باب مختص نہیں کیا گیا ہے۔ اور مصدقہ اعداد و شمار کے حوالے سے جائزہ نہیں لیا گیا۔ ایک حوصلہ افزا پیغام موج تہ نشیں کی طرح چلتا ہے کہ پاکستان کے ہر گھرانے کا یہ عزم ہونا چاہیے کہ اسے اپنے ہاں خوش حالی لانا ہے۔ اس وقت صرف 15 سے 20 فی صد گھرانوں کو یقین ہے کہ اگلی نسل تک ان کے حالات بہتر رہیں گے۔ باقی 80 فی صد کو نہ یہ امید ہے اور نہ ہی ان کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے۔
‘دو پاکستان’ پاکستان کی اکثریت کو یہ ولولہ دے رہی ہے کہ 2047 یعنی پاکستان صدی کے پورا ہونے پر ہماری مجموعی آمدنی اور فی کس آمدنی کیا ہونی چاہیے۔ ہماری آبادی اس وقت 33 کروڑ ہو چکی ہوگی۔ آمدنی 7500 ڈالر فی کس ہونی چاہیے۔ اس منزل تک پہنچنے کیلئے 2030 یعنی چھ سال بعد ہماری فی کس آمدن اڑھائی ہزار ڈالر سالانہ ہونی چاہیے۔ کئی صفحات میں وہ یہ بھی تجاویز دیتے ہیں کہ قومی آمدن انفرادی آمدن مطلوبہ ہدف کیسے حاصل کر سکتی ہے۔ برآمدات کیسے بڑھ سکتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتی پیداوار، کان کنی پرانے فرسودہ طریقوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ بشارت بھی دیتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس عمر کے لوگ زیادہ رہیں گے جن کے دست و بازو میں توانائی ہے۔ جن کی عمر کمانے کی ہے۔ قلعے کے باہر رہنے والوں کے حالات بہتر کر کے انہیں قلعے کے اندر کی زندگی دینی ہوگی۔ کتاب کے آخری پیرے میں کتنی امید ہے۔ کتنا یقین ہے۔ ’’2047 تک قلعے کی فصیلوں کو ایک ایک کر کے گرانے سے پاکستان کی معیشت بھی بدل جائے گی اور ساتھ ساتھ ہماری معاشرت اور سیاست بھی۔ در اصل خوش حالی حاصل کرنےکیلئےجوش قلعے کے باہر ایک لاوے کی طرح پک رہا ہے۔ اگر ہم نے دیر کردی تو یہ لاوا ہم سب کو جلا بھی سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس کی طاقت کو راستہ دے سکے تو اس کی آتش عالمی معیشت کے میدان میں فتوحات کو جنم دے گی اور پاکستان کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔ اس کتاب میں راستے تجویز کیے گئے ہیں۔ یہ لاوا کیا رخ اختیار کرے گا، فیصلہ ہمارا ہے۔‘‘
بہت شکریہ کاظم سعید صاحب۔ آپ نے ایک روڈ میپ دے دیا۔ میں منتظر ہوں کہ آپ کی طرح کچھ اور دردمند پاکستانیوں یا اداروں نے بھی اس علم آفریں پیرائے میں آگے بڑھنے کے راستے دکھائے ہوں تو ان پر بھی بات ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ