وساکھی تہوار کی روحانی اور ثقافتی اہمیت : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


14 اپریل کو وساکھی کے تہوار کی شروعات ہوتی ہیں جو ہفتہ بھر جاری رہتی ہیں،گندم کی کٹائی کے آغاز پر یہ خوشی کا وہ جشن ہے جو پنجاب کی سونا اُگلتی زمین کے سنہری رنگ کی برکتوںکا شکرانہ اور رُت کی تبدیلی کا استقبال ہے۔14 اپریل بابا گرونانک کا جنم دن ہونے کے باعث یہ تہوار وسیع تر روحانی، مادی اور ثقافتی اہمیت کا حامل ہے، لیکن اسے صرف سِکھوں سے منسوب نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بابا گرونانک سے مسلمانوں کو بھی گہری عقیدت و محبت ہے ۔انسان اپنی اصل سے کٹ کر نہیں رہ سکتا، اُسکے رستے میں جتنی مجبوریاں اور بند شیں بکھری ہوں وہ واپسی کے لئے جدوجہد کرتا رہتا ہے کہ ادھورے پن کی اذیت کے ساتھ زندہ رہنا بہت مشکل ہے تقسیم کا درد کائنات کا سب سے بڑا دُکھ ہے، پنجاب کی دھرتی اور باسیوں کی جھولی میں یہ درد ڈالا گیا،وجود کے درمیان آری چلا دی جائے تو اذیت خمیر میں رچ جاتی ہے ،دھرتی اور روح دونوں کا احساس مجروح ہو جاتا ہے، سکرپٹ لکھنے والوں نے جن کی سانجھ پر تیر چلایا انھیں ہی ایک دوسرے کے خلاف اُکسا کر لہو اور آگ کا کھیل رچایا،جلنے اور کٹنے والوں کی چیخیں باسیوں کے اجتماعی ضمیر اور احساس میں سما کر ورثے کی طرح اگلی نسلوں کو منتقل ہونے لگیں۔ دھرتی کے تہواروں کو عقیدوں کی آڑ میںمحدود کیا گیا، لوہڑی، وساکھی، بسنت پنجاب کے تہوار ہیں جو خوشی، بہار، خوشحالی اور توانائی کے مظہر ہیں مگر جابر سوچ نے ان سے جڑی داستانوں کے کرداروں کو اپنانے کی بجائے ان کے چاہنے والوں کو ظلم و جبر کی قاتل ڈوروں سے لہولہان کرنے کی روش ڈالی کہ آج ہم سب ظالم ڈور سے نجات کی بجائے تہواروں سے دستبرداری اختیار کرتے جارہے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ سینتالیس کی تقسیم میں پنجاب اور بنگال کے علاوہ باقی قوموں کی شناخت اور حدود اربعہ محفوظ رہا، تقسیم برصغیر دراصل تقسیم پنجاب تھی، کچھ بچھڑنے والوں نے ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے کی بجائے ایک دوسرے کی جانوں اور عزتوں پر وار کر کے راہیں جدا کیں مگر اکثریت جدا نہ ہوسکی ۔تاریخ کے سینے پر سیاہ دھبے کی طرح موجود ہجرت کا کرب الیاس گھمن نے کہانیوں کی صورت جمع کرکے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔بڑی دیر بعد سہی مگر اب سب اچھے برے کرداروں کا اصل چہرہ سامنے آچکا، درد کا مداوا کرنے کی بجائے پنجابیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کردونوں طرف دشمنی کی آگ سینکی گئی ۔برصغیر کی ایک بڑی قوم کو ان کے ورثے سے جدا کر کے مفلوج بنانے کی رسم جاری رہی، معصوم لوگوں کو حقوق اور سہولتیں دینے کی بجائے لہجوں کو زبانیں بنانے کے لاحاصل مشن پر لگا دیا گیا کہ ان کے رہنما اشتراک کی کسی دلیل کو ماننے کو تیار ہی نہیں۔یہ صرف ایک دو فیصد لوگ ہیں ورنہ آج کا پنجاب اپنے اصل کی طرف سفر میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے، کھوئے ہوئے تہواروں کے ذریعے اپنے ورثے اور زمین سے جڑت کو مضبوط کر رہا ہے ۔اس بار پنجاب میں حکومتی اور عوامی سطح پر بہت شاندار طریقے سے وساکھی کا تہوار منایا گیا، دنیا بھر سے سِکھ یاتریوں کی بڑی تعداد نے ان تقریبات میں حصہ لیا اور مہمان نوازی پر بے پناہ خوشی کا اظہار کیا، کرتار پور میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کی پنجابی زبان میں تقریر کی ویڈیوز میرے سینکڑوں سِکھ بھائیوں بہنوں نے اپنے اشعار اور دعاؤں کے ساتھ سجا کر بڑے مان سے بھیجیں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے، وہ اسے بدلتے ہوئے پنجاب کی علامت قرار دیتے ہیں۔ سب سے بڑے انتظامی عہدے پر مریم نواز کی تقرری کو اہل فکر واحساس کی صدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ سمجھتے اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔بابا گرونانک کی تعلیمات میں عورت کو معتبر حیثیت حاصل ہے، سکھوں سے ہماری صرف زبان و ادب اور ثقافت کی سانجھ نہیں بلکہ روحانی سانجھ بھی ہے جو توحید، مساوات، خدمت خلق جیسی انسانی قدروں میں عیاں ہے ۔پنجاب کے باسیوں کی خواہشات کے مطابق پنجاب حکومت بھی اپنے سانجھے ورثے اور ثقافت کے احیا کے لئے سنجیدہ ہے ۔پہلی بار پنجاب کابینہ میں سِکھ وزیر رمیش سنگھ اروڑا کی شمولیت بہت بڑی پیش رفت ہے ۔پنجاب ہاؤس کا بابا گرونانک ہال پنجابی زبان وادب کے فروغ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔یہاں مہینے میں درجنوں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، مدثر اقبال بٹ نے چالیس سال قبل وزیر آباد سے لاہور آکر پنجابی زبان کی ترویج کا جو نعرہ بلند کیا اب پورے ملک میں اس کی گونج سنائی دینے لگی ہے،بھلیکھا اخبار کو ہر حکومت میں اشتہارات کی بندش کا سامنا رہا ہے اب بھی پنجاب میں پنجابی زبان کے سب سے بڑے اخبار کا ناطقہ بند ہے،محترمہ عظمیٰ بخاری اور رمیش سِنگھ اروڑا سے اس بابت مثبت کردار کی توقع ہے، ایک ملک میں ایک جیسے اصول ہونے چاہئیں۔سندھی زبان کی طرح پنجابی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات کوبھی اشتہارات ملنے چاہئیں۔ ادارہ برائے پنجابی دیال سنگھ لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رزاق شاہد جو عمدہ پنجابی شاعر، محقق اور مخلص انسان ہیں، پنجاب کے دونوں حصوں کے درمیان سانجھ قائم کرنے میں بہت متحرک ہیں۔لاہور میں وساکھی کی دو بڑی تقریبات پنجاب ہاؤس اور دیال سنگھ لائبریری میں منعقد ہوئیں جن کی صدارت کا شرف راقم کو عطا کرکے پنجاب کی عورت کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کا عزم دہرایا گیا۔ رب کرے واہگہ کے ارد گرد بسنے والے پنجابی روحانی اور ثقافتی سانجھ کے ذریعے اس خطے میں دوستی اور خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز کریں ۔آمین

بشکریہ روزنامہ جنگ