پاکستان کا ہر غریب باپ۔ ایک اثاثہ : تحریر محمود شام


’کچھ نہیں ہو سکتا۔‘’یہ حکمران یہ مافیا۔ یہ اشرافیہ کچھ کرنے نہیں دیں گے‘۔اقتصادی بحران، مہنگائی، بے روزگاری سب اپنی جگہ بہت اذیت دیتے ہیں۔ لیکن اصل تشویش ناک یہ احساس ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ عام پاکستانی اکثریت کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے کہ ہمارا ناکامیوں کا سلسلہ ناقابل علاج ہے۔ یہ بے بسی انتہائی خطرناک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نائب حضرت انسان سے ہمت چھین لیتی ہے۔ کچھ کرسکنے کا عزم ختم کردیتی ہے۔ ہمارا میڈیا، پرنٹ یا برقی اور سب سے زیادہ سوشل میڈیا اس یقین کو پروان چڑھا رہا ہے کہ اس ملک میں بہتری آ ہی نہیں سکتی۔ سیاستدانوں کے بیانات بھی اس کیفیت کو پختہ کرتے ہیں۔

یہ بے دلی بھی ایک عالمی منصوبے کے تحت پھیلائی جاتی ہے۔ ہماری ندرت، جرأت، منصوبہ بندی کی صلاحیت سلب کر لی گئی ہے۔ امریکی سامراج، مغرب بھی اسی تاثر کو تقویت دیتا ہے۔ پہلے ہمارے اس خطّے پر مغرب سے حملہ آور آ کر یہی احساس پیدا کرتے تھے۔ اب یہ حملے آن لائن ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ہمارے دیوار بہ دیوار دو ہمسائے دونوں مسلمان افغانستان، ایران اپنی خود انحصاری سے یہ سبق دے رہے ہیں کہ پوری دنیا کے قطع تعلق ، مغرب کی پابندیوں، اقوام متحدہ کی بے اعتنائیوں، پڑوسیوں کی بے حسی کے باوجود وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کی کرنسی کی حالت ہم سے کہیں بہتر ہے۔ وہ اپنے عوام کو راحت پہنچارہے ہیں۔ مقابلے اور آگے بڑھنے کے پختہ ارادے ہیں۔ چین، ملائشیا، انڈونیشیا تو دور ہیںہم ان سے اگر سبق نہیں سیکھ سکتے تو یہ دو غیرتمند ملک تو ہماری سرحد پر واقع ہیں۔ منقسم خاندان دونوں طرف موجود ہیں، زبانیں بھی ایک سی ہیں، ماضی میں ہمارے بہت گہرے روابط رہے ہیں۔ وہ ہماری طرح غریب ہیں لیکن ان میں حالات بہتر کرنے کی لگن ہے۔ وہ اپنے نوجوانوں، بزرگوں، ماؤں بہنوں کا احترام کرتے ہیں۔ ان سے اقتصادی، سماجی، علمی، دفاعی اشتراک کرسکتے ہیں۔ ہمارا سب سے قدیم اور سچا دوست چین بھی ان سے آج کل بہت قریب ہے ۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات بھی اس نے ختم کروائے ہیں۔ علاقائی تعاون اور ترقی کیلئے پاکستان، چین، ایران، افغانستان سے طویل المیعاد معاہدے کرسکتا ہے۔ ان سے تجارت زمینی راستے سے ہو سکتی ہے۔ اخراجات بہت کم ہوں گے۔ ہمارا مذہب، ہماری ثقافت، تہذیب، ادب بھی ایران افغانستان سے مشترکہ ہے۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر مل بیٹھنے اور حالات حاضرہ پر تبادلۂ خیال کا دن۔ آپ یقیناً محسوس کرتے ہوں گے کہ آپ کی اولادوں کی آنکھوں میں جہاں ایک اضطراب ہے وہاں ان کی پیشانیوں پر ایک تمتماہٹ بھی ہے۔ جو حالات سے پنجہ آزما ہونے کی بشارت دیتی ہے۔ اس نسل کے ذہن میں جھانکیں۔ ہمارا مستقبل ان ہی پیشانیوں میں جگمگا رہا ہے۔ ہمارا استحکام ان ہی ابروؤں میں جھلک رہا ہے۔ مضبوط معیشت کا دارو مدار ان کےبازوؤں اور شانوں پر ہے۔ واشنگٹن لندن میں نہیں ہے۔ ایک بزرگ محقق عطاء اللہ خان نے بڑی پتے کی بات کہی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے۔ دونوں کی معیشت ایک دوسرے سے بندھی ہوئی تھی۔ ان کے پاس پٹ سن تھی۔ ہمارے پاس کپاس۔ ہمارا سنہرا مستقبل اسی میں تھا۔ ڈھاکہ والے اب کپاس کہیں اور سے لے کر اپنی اکانومی کو بہتر بناچکے ہیں۔ شکریہ عطاء اللہ صاحب۔ پٹ سن والے تو ہم سے جدا ہوکر نصف صدی گزار چکے۔ اب جو پاکستان ہے یہ علاقے بھی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ صرف جذباتی باتیں نہیں ہیں۔ اقتصادی، تاریخی، سماجی، عمرانی، زرعی حوالے سے جائزہ لیں کہ بلوچستان،سندھ، کے پی کے، پنجاب، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ایک دوسرے کی بقا کیلئے ضروری ہیں۔ ہماری معیشتیں، زراعت، رہن سہن ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے۔ بہتر قومی شاہراہوں نے گوادرسے لے کر خنجراب تک کوآپس میں ملادیا ہے۔ عام پاکستانی اب سڑکوں سے کئی کئی سو میل کا سفر کرتے ہیں۔ آپس میں لین دین بڑھ رہا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اب یہ کئی کروڑ آپس میں ملک کی بہتری ،ترقی اور دوام کیلئے سوچیں بھی۔

واہگہ سے گوادر تک ماؤں کی گودوں میں جو پاکستان پرورش پارہا ہے۔ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں۔ اُردو سب سمجھتے ہیں۔ آئندہ نسل ہماری ہے تو اس کیلئے سوچنا، منصوبہ بندی کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ خود کفالت، خود انحصاری کیلئے ہمیں سوچنا چاہئے۔ آئیے ہم یہاں ہر اس باپ کو خراج تحسین پیش کریں جو ان مشکل حالات میں اپنے ہر سائز کے کنبے کو کسی نہ کسی طرح پال رہا ہے۔ کئی کئی جگہ نوکری کرتا ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں کو محسوس نہیں ہونے دیتا۔ یہ باپ اپنے گھر کا بجٹ بھی بناتا ہے۔ اس کیلئے ذرائع آمدنی بھی ڈھونڈتا ہے۔ یہ کروڑوں گھر اگر چل رہے ہیں تو پاکستان چل رہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھانے والوں، اپنے غیر ضروری اخراجات کیلئے قرضے لینے والوں کے اقدامات سے ملک نہیں چل رہا ہے۔یہ باپ اپنے گھر کی دن رات فکر کرتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح انتظام کرتا ہے کہ بھوک مٹتی رہے۔ بچے پڑھتے رہیں۔ ایسے فکر مند اور منصوبہ ساز فرد کو اگر ہم ملک چلانے کے فیصلوں اور پالیسیوں میں شامل کرلیں تو وہ کم خرچ سے مسئلہ حل کر سکتا ہے۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہمارے بیٹے بیٹیوں کو دوسرے ملکوں میں سازگار ماحول ملتا ہے تو وہ وہاں کی قومی تعمیر میں کتنا نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی ہمارے انسانی وسائل ترقی یافتہ ملکوں کے انسانی وسائل سے کسی طور کم نہیں ہیں۔ اب اس حکمران طبقے کے بارے میں حقائق ملاحظہ کیجئے۔ 1985میں ڈالر 16روپے کا تھا۔ افراط زر، مہنگائی، بے روزگاری کی شرح بھی دیکھ لیں۔ آج 2024میں ہم کہاں پہنچے ہیں۔ 1985سے 2024کے درمیان ہمارے حکمران کون رہے ہیں۔ پالیسیاں منصوبے کون بناتا رہا ہے۔ سیاسی حکومتیں بھی رہی ہیں فوجی بھی۔ ان کی پالیسیاں اگر درست ہوتیں تو اقتصادی، سماجی اور اخلاقی طور پر کیا ہم اس نہج پر ہوتے۔ یہ جب مسلسل 40سال میں حالات کے خراب سے خراب تر ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکے۔ تو اب پانچ سال میں کیسے نتیجہ خیز پالیسیاں دے سکتے ہیں۔ وہی چہرے ہیں۔ جو سیاہ زلفوں کے ساتھ آئے تھے۔ اب ان کے بال سفید ہوچکے ہیں بلکہ گر چکے ہیں۔ یہ بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن پاکستان جوان ہورہا ہے۔ 60فی صد آبادی 15 سے 30سال کے درمیان ہے۔ 40سال میں ہر قسم کی حکمرانی کا تجربہ ہو چکا ہے۔ اب اس تجربے کی ضرورت ہے کہ ہر پاکستانی کو ایک اثاثہ سمجھا جائے اور اس کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ ہر پاکستانی کو اپنی جگہ بھی اس تجربے کا عزم کرنا ہے۔ وہ بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں سے مشورہ کرکے آئندہ دس سے پندرہ سال کا روڈ میپ بنائے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرے۔ کیا آپ کو منظور ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ