بہار کی خوبصورت شام نہر کنارے قائم اخوت یونیورسٹی قصور کے وسیع احاطے میں درو دیوار سے نکلتی خیر کی خوشبو پورے ماحول کو معطر کئے جارہی تھی ۔ ایک پرشکوہ عمارت کا دیدار اور اس میں موجودگی کے احساس نے دل و جاں کو جس شادمانی سے ہمکنار کیا اس کا بیان لفظوں میں نہیں ڈھل سکتا، آر پی او شیخوپورہ اطہر اسمعیل اس محفل کے مہمانِ خاص تھے، اطہر اسمعیل کی ملازمت کے شروع دنوں میں کسی محفل میں ملاقات ہوئی اور شفقت و محبت کا روپ دھار گئی، کوئی گہری جان پہچان تھی نہ ان کے کارناموں کی جانکاری، مگر شاید اندر موجود خیر کی کرنیں اچھے انسان کا تعارف ہوا کرتی ہیں ، آج وقت نے ثابت کیا کہ اطہر اسمعیل ایک دبنگ اور مہربان افسر ہے، جو پوری نیک نیتی اور طاقت و تدبر سے قانون کی حکمرانی اور سماج میں انسانی قدروں کی سربلندی کے لئے پورے عزم سے کوشاں ہے ، اچھے لوگوں سے ملنا اور انھیں دیکھنا بھی سعادت ہوتی ہے، جب میں اس سجے سجائے احاطے میں داخل ہوئی تو صوفے پر ڈاکٹر عثمان انور آئی جی پنجاب فون پر ہدایات دینے میں مصروف تھے جبکہ اخوت کے کارندے کام کاج میں مصروف تھے پتہ چلا وہ اخوت سے خاص جڑت رکھنے اور اپنے لائق افسر کو خوش آمدید کہنے کے لئے خاص طور پر تشریف لائے تھے ، فطرتا اچھے انسانوں کی یہی خوبی ہوتی ہے۔
پروگرام کا سب سے جاندار پہلو ڈاکٹر امجد ثاقب کی نپی تُلی، محبت کی تسبیح میں پروئی تقریر تھی جس پر بھرپور تاثر چھوڑتی نظم کا گمان ہوتا تھا کہ ایک لفظ کم زیادہ نہیں،ہم روزانہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے گفتار کے غازیوں سے سیرت النبی، ریاست مدینہ اور مواخات کی پیروی کرنے کے لیکچر سنتے ہیں جو کبھی تقریر سے آگے نہیں بڑھتے، ڈاکٹر امجد ثاقب وہ انسان ہے جس کی مواخات مدینہ کی تشریح کرتی تقریر کو ارد گرد موجود عملی منصوبوں کی گواہی میسر تھی، وہ جس آیت، حدیث یا قول کا حوالہ دیتے اُس پر عمل کا ٹھوس شکل میں موجود ثبوت بھی پیش کرتے، صدیوں پہلے قائم ہونے والی قرطبہ یونیورسٹی، ایک آفاقی نوعیت کی یونیورسٹی تھی، آج کی ہارورڈ، کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیاں اس کے اندر موجود تھیں، پوری دنیا سے مختلف قومیتوں کے طالبعلم یہاں آتے تھے اور وسیع سوچ کی حامل فضا کا حصہ بنتے تھے ۔ان سنہری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر امجد ثاقب کی جاگتی آنکھوں نے اخوت یونیورسٹی کا خواب دیکھا اور پھر زمین پر نقشہ پھیلا کر خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں کو آواز دی، اینٹیں، بجری، سیمنٹ جمع ہوتا رہا اور اسلامی تہذیب و تمدن کے رنگوں والی پر شکوہ عمارت کھڑی ہو گئی، اس میں بنائی جانے والی مسجد بھی قرطبہ مسجد سے مماثلت رکھتی ہے ، پاکستان کے 80اضلاح سے طالبعلم اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، آغاز آٹھویں جماعت سے کیا جاتا ہے، دس سالہ قرض حسنہ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والوں کے تابناک چہروں اور روشن آنکھوں میں معاشرے کوتبدیل کرنے کا عزم جگمگا رہا تھا کہ ان طالبعلموں کو ڈگری کے ساتھ خدمت خلق کی ذمہ داری بھی سونپی جاتی ہے ۔یہ افطار قصور کے صاحب استعداد لوگوں کی توجہ پر دستک کیلئے رکھی گئی تھی۔لاہور چیمبر آف کامرس، پنجاب پولیس کے دس دس لاکھ کے علاوہ قصور کے صاحب دل لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالا مگر بڑے صنعت کار،صاحب ثروت اور سیاستدان غائب تھے۔
کسی بھی معاشرے میں اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں، قصور وہ شہر ہے جہاں ظاہر پرستوں نے آفاقی سوچ کے علمبردار صوفی شاعر بلھے شاہ کو شہر بدر کیا، جنازہ پڑھانے سے انکار کیا، اس منفی گروہ کے کچھ عناصر آج بھی شر انگیز کارروائیوں میں مصروف ہیں۔مگر بلھے شاہ کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ اکثریت اسے مانتی ہے،وہ آج بھی زندہ ہے اور اپنے کلام کے ذریعے انسانیت کی سربلندی اور حق کی حکمرانی کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔
اہل قصور کو کفارے کا موقع ملا ہے انھیں بڑھ چڑھ کر اخوت یونیورسٹی کی امداد کرنی چاہیے اور دنیا کے سامنے اپنی نئی پہچان رکھنی چاہیے ۔دو انتہاؤں کے درمیان ایثار اور محبت کا پُل ضروری ہے ورنہ معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں، آج آدھا پاکستان آدھے پاکستان سے مواخات کرے تو کس قدر جلد ملک خوشحال ہو سکتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ’ ضرورت سے زائد بانٹ دیا جائے ‘ سے ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک ادارہ بنا کر دے دیا ہے اب اہل قصور کو اس کے اخراجات اپنے ذمے لے لینے چاہئیں تاکہ ڈاکٹر امجد ثاقب کسی اور شہر میں یہ منصوبہ شرو ع کرسکیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ