خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور اُن کی کابینہ کے پشاور کور کمانڈر ہاؤس میں اجلاس اور افطاری کی خبروں پر پی ٹی آئی کو کئی لوگوں کی طرف سے طعنوں کا سامنا ہے کہ لاہور کور کمانڈر ہاؤس کو آگ لگانے والے پشاور کور کمانڈر ہاؤس میں خاموشی سے اجلاس اور افطاری کے لیے پہنچ گئے۔
تاہم مجھے یہ خبر سن کر خوشی ہوئی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف اور فوج کے درمیان خلیج کم ہو۔ ایک طرف پاکستان کی فوج ہے جس کی پاکستان کے دفاع اور سالمیت کے لیے اہمیت سے انکار ممکن نہیں جبکہ دوسری طرف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی عوام میں مقبولیت دوسری سیاسی جماعتوں سے بہت زیادہ ہے لیکن اُس سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ فوج پر 9 مئی کے حملوں میں شریک تھا۔
9 مئی کو جو ہوا اس میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد عمران خان کے فوج مخالف بیانیہ کا بنیادی کردار تھا۔ ویسے تو فوج اور تحریک انصاف کے درمیان رابطے 9 مئی سے پہلے مکمل طور پر ختم ہوچکے تھے لیکن 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کیلئے حالات بہت خراب ہو گئے اور پی ٹی آئی لیڈرشپ بار بار اس خواہش کا اظہار کرتی رہی کہ اُن کے فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے رابطے بحال ہونے چاہئیں تاکہ دونوں کے درمیان تلخ ماحول کو ختم کیا جا سکے۔
بار بار عمران خان بھی یہ شکایت کرتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ اُن سے بات ہی نہیں کر رہی۔ بانی چیئرمین تحریک انصاف نے یہ بات اپنی گرفتاری اور انتخابات کے بعد بھی ایک سے زیادہ مرتبہ کی۔ اس تناظر میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ کی کابینہ سمیت کور کمانڈر ہاؤس پشاور اجلاس اور افطاری میں شرکت میری نظر میں ایک بریک تھرو سے کم نہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اس میٹنگ کا فوکس صوبے کے سیکورٹی معاملات تھے جو اگر ایک طرف خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت اور فوج کے درمیان بہتر ورکنگ ریلیشن شپ اور دونوں کے درمیان ماضی کی تلخیاں ختم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور فوج کے درمیان ان رابطوں میں اضافہ ہوگا جس میں سب کی بہتری ہے۔ لیکن عمران خان کی پالیسی کی سمجھ نہیں آتی۔ اُنہوں نے گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر فوج کی اعلیٰ قیادت کو نشانے پر رکھ لیا۔
اب ایسے میں فوج اور تحریک انصاف کے درمیان جس خلیج میں کمی اور خاتمہ کی میں بات کر رہا ہوں اور جو عمران خان اور تحریک انصاف خود بھی چاہتے ہیں وہ کیسے ممکن ہے؟ خان صاحب کا ایک بڑا سیریس مسئلہ ہے۔ وہ نہ اپنے غصہ پر قابو پا سکتے ہیں نہ اپنی زبان پر اُن کو کوئی کنٹرول ہے۔ اسی غصہ اور ایسی ہی باتوں نے اُن کو اس حال میں پہنچا دیا۔
جو باتیں اُنہوں نے گزشتہ روز کیں اور جو اخبارات میں شائع بھی ہوئیں اُنہیں پڑھ کر عمران خان کی اپنی ہی خواہش کہ اُن کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں، کیسے پوری ہو سکتی ہے۔ جو عمران خان خود چاہتے ہیں اُس کے حصول کے لیے وہ خود سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ کل ایک طرف وہ فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملے کر رہے تھے تو دوسری طرف یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر اپنی حکومت کے خاتمہ کے باوجود وہ جنرل باجوہ سے دو بارملاقات کر سکتے تھے تو وہ اب بھی کسی سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔
خان صاحب یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اگر وہ جنرل باجوہ (جن پر وہ اپنی حکومت کے خاتمہ کا الزام لگا رہے ہیں) کے ساتھ مل سکتے ہیں تو موجودہ آرمی چیف سے بھی ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ گویا ایک ہی گفتگو میں وہ موجوہ آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کر رہے ہیں اور اُن پر الزامات کی بوچھاڑ بھی کر رہے ہیں۔ یہ کیا پالیسی ہے؟ ایسے بیانات سے عمران خان، تحریک انصاف یا پاکستان کا کیا فائدہ ہو گا؟ یہ سب میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
خان صاحب کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے غصہ اور زبان پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے تو کچھ عرصہ خاموشی اختیار کر لیں۔ اپنی توجہ عدالتوں سے ریلیف لینے پر مرکوز کریں تاکہ اپنے آپ اور اپنی اہلیہ کو جیل کی سلاخوں سے باہر لاسکیں۔ اس دوران اپنی پارٹی کی قیادت اور ذمہ داروں کو فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے کوشش کرنے دیں۔ خان صاحب معاملات کو ٹھنڈا ہونے دیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ