جماعت اسلامی بھی اکیسویں صدی میں داخل : تحریر محمود شام


52سالہ حافظ نعیم الرحمن باقاعدہ انتخابی عمل سے 82سالہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔ کیا جماعت اور پاکستان میں کسی تبدیلی کا امکان ہے۔

پہلے تو بے یقینی، اضطراب، خود غرضیوں، سفاکیوں کے باوجود عید الفطر کی دلی مبارکباد۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی عبادتیں، تلاوتیں، روزے قبول فرمائے۔

عید کی آمد آمد غزہ میں بھی ہوگی۔ جہاں رمضان کے مبارک ایّام بھی بربریت کا مقابلہ کرتے گزرے ہیں۔ گھر مسمار ہوئے ہیں گودیں اجڑی ہیں۔ غزہ اور رفع کی گلیاں زبان حال سے کہہ رہی ہیں کہ یہ اکیسویں صدی تو بیسویں صدی سے بھی سفاک نکلی، نومولودوں کا گلا گھونٹنے والی، ماؤں کی قاتل، بھائیوں کی دشمن، جمہوری ضابطے،انسانی حقوق، جاننے کا حق، جینے کا حق،سب صبح و شام پامال ہورہے ہیں، میڈیا خاموش ہے۔ مسلم ریاستیں دانتوں تلے زبانیں دبائے ہوئے ہیں۔ کہیں ڈالر رقص کناں ہے، کہیں درہم۔ اسلام کے قلعوں میں روح چیرتی خاموشی ہے۔ اسرائیل غزہ اور آس پاس سے فلسطینی نسل کی فصل جڑوں سے اکھاڑ پھینک رہا ہے۔ کتنے مہینوں سے وہ انسانیت کی ہلاکت میں بد مست ہے۔ مسلم دارُالحکومتوں میں سناٹا ہے۔

چاند دیکھیں گی غزہ کی مائیں بھی

چاند ان کی گود کے ہیں اب کہاں

ایک دن آئے گا جب پچاس سے زیادہ مسلم ملکوں کے بادشاہ، صدر، وزرائے اعظم، سپہ سالار مالک حقیقی کی عدالت میں کھڑے ہوں گے اور ایک ارب مسلم رعایا بھی، وہ دن کبھی بھی آسکتا ہے۔ غزہ کی آہیں فلک پر جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا صرف دیوار گریہ بنا ہوا ہے۔ ضرورت تو یہ ہے کہ دیواریں گرائی جائیں۔ ان کھوکھلی دیواروں کو مل جل کر ایک ایسا دھکا دیا جائے کہ ساری رعونتیں، تکبر، پروٹوکول، سیکورٹی ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ یہ ہولو کاسٹ سے کہیں بڑا ہولو کاسٹ ہے۔ آج کا ہٹلر نیتن یاہو ہے اور اس کا سرپرست اعلیٰ وائٹ ہاؤس ۔ امریکہ کی مسلم تنظیموں کو سلام جنہوں نے وائٹ ہاؤس کی نام نہاد افطار پارٹی کا بائیکاٹ کردیا۔

ہلال عید ہماری ہنسی اڑانے کی تیاریاں کررہا ہے۔ واہگہ سے گوادر تک سانس لینے والے پاکستانیو۔ بھولنا نہیں ہے کہ 24 کروڑ میں سے دس کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یعنی ان کی ماہانہ آمدنی 3ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ ابھی اعداد و شُمار بتارہے ہیں کہ ایک کروڑ مزید پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس پستی کا، انسانیت کی بے قدری کا ذمہ دار کون ہے۔ کونسے ماہرین معیشت کی پالیسیاں ہیں۔ جن کا نتیجہ اتنا بھیانک نکل رہا ہے۔ حکمران کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف اگلے دور پر آمادہ ہوگیا ہے۔ کوئی یہ ارادہ ظاہر نہیں کر رہا ہے کہ ہم ریکوڈک کے اپنے سونے اور تانبے کو جلد نکال کر قرضے اتاریں گے۔ کسی حاکم کو اپنے لہلہاتے۔ زر اگلتے کھیت یاد نہیں آتے کہ ہم یہاں فی ایکڑ پیداوار بڑھا کر اپنے خرچے پورے کر لیں گے۔ قوم کو بھی آئی ایم ایف کی قسطوں سے سانس لینے کی عادت ڈال دی گئی ہے۔ ایک خود دار قوم کی طرح کوئی حکمران، کوئی ماہر معیشت، کوئی یونیورسٹی آئندہ دس پندرہ سال کے سنگ میل کا تعین نہیں کررہا ہے۔ اپنی زمینیں۔ اپنے دریا، اپنا سمندر، اپنے پہاڑ، اپنے ریگ زار، یہ قدرتی وسائل ہی ہمیں اس بدحالی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا انجکشن تو چند منٹ کے لیے درد دور کر سکتا ہے۔ اس کے پاس آپ کے دائمی مرض کا علاج نہیں ہے۔

غیرت مند قومیں آنے والی مشکلات کے مقابلے کے لیے قومی اثاثوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ سمجھدار کاروباری اپنی صنعت اور تجارت کی مضبوطی کے لیے املاک خریدتے ہیں۔ لیکن ہم 38 سال سے اپنے اثاثے فروخت کرنے یا انہیں غیروں کے حوالے کرنے میں ہی اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال کے اعداد و شُمار دیکھ لیں۔ ملک کتنا مقروض ہوا ہے۔ چند خاندانوں کی املاک میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

ایک خبر ان دنوں ایسی آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر خوشیاں بکھر رہی ہیں۔ ہم ہر سیاسی جماعت میں جمہوریت اور خود احتسابی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی سیاسی پارٹیوں میں تنظیم اور کارکنوں کی عزت کو قرار دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے موروثی خاندان محدود کمپنیاں بننے کو اپنی تمام ناکامیوں کا سبب قرار دیتے ہیں۔ صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جہاں باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ جہاں کارکنوں کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ ہر پانچ سال بعد اپنا سربراہ خود منتخب کریں۔ جہاں بلا مقابلہ منتخب ہونے کا تجربہ نہیں کیا جاتا۔ جماعت اسلامی کے 45 ہزار کارکنوں نے کراچی جماعت کے امیر حافظ نعیم الرحمن کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے آئندہ پانچ سال یعنی 8 اپریل 2029 تک کیلئے امیر منتخب کیا ہے۔ پارٹی کا الیکشن کمیشن بھی باقاعدہ منتخب ہوتا ہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح یہ انتخابات دکھاوے کے نہیں ہوتے۔ ان 45ہزار میں 6ہزار معزز مائیں بہنیں بیٹیاں بھی ہیں۔ انتخابی مہم 19فروری سے شروع ہوئی تھی۔ تین امیدواروں حافظ نعیم الرحمن، سراج الحق اور لیاقت بلوچ کے درمیان چناؤ ہونا تھا۔

حافظ نعیم الرحمن انجینئر ہیں، متحرک ہیں، فعال ہیں، سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو قابل بنانے کیلئےتربیت دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی رجعت پسند، روایت پرست اور مذہبی جماعت نے بھی زمانے کے تقاضوں کا ادراک کیا ہے۔ یقینا یہ تڑپ پی پی پی، پی ایم ایل این، ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں میں بھی ہوگی۔ اگر انکے کارکنوں کو بھی حقیقی طور پر موقع دیا جائے تو وہ بھی خاندانی شہزادے شہزادیوں کی جگہ حافظ نعیم جیسے سرگرم، با بصیرت، بے خوف سربراہ کا ہی انتخاب کریں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی جمہوری اصولوں پر پورا اترتی ہے۔ عوام سے رابطوں، عوام کی خدمات کے دائرے بھی اس جیسے کسی اور پارٹی کے نہیں ہیں۔ اربوں روپے کی انسانی خدمات عطیات کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ پھر بھی 1970سے لے کر اب تک کے انتخابات میں پاکستانی اسے حکمرانی کا مینڈیٹ کیوں نہیں دیتے۔ کیا ہمارا انتخابی نظام رکاوٹ ہے یا جماعت اسلامی کی ماضی کی پالیسیاں۔ کیا قیام پاکستان کی مخالفت کا الزام۔ جنرل ضیا کی حمایت۔ کمیونزم کی بیخ کنی میں امریکہ کا ساتھ۔ اس کی افغان پالیسی۔ اسلامی جمعیت طلبہ و طالبات کی سخت روی۔ اسے عوام میں مقبول نہیں ہونے دیتی۔ جاگیرداری، زمینداری، سرداری، سرمایہ و شمشیر کا گٹھ جوڑ انتخابات میں اسے فتح مند نہیں ہونے دیتا۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اب تک جماعت کی شہرت حکومت گرانا رہی ہے۔ اب لوگوں کو یقین دلائیں کہ وہ حکومت بنانا بھی چاہتی ہے۔ حکومت کے ذریعے ہی انسانیت کی خدمت اسی طرح کرتی رہے گی۔ جیسے اب الخدمت کے ذریعے کرتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن میں یہ امکان موجود ہے کہ وہ لوگوں کو قائل کرلیں گے کہ مسئلے کا حل صرف ترازو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ