عدلیہ کی آزادی” : تحریر نعیم قاسم”


جب سے چھ ججز نے نادیدہ ہاتھ کے دباؤ، بلیک میلنگ، اور خوفزدہ کرنے کے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط تحریر کیا ہے، حکمران جماعت کے عقاب اور ان کے دستر خوانی قبیلے کے تجزیہ کار سخت آگ بگولہ ہیں ان کی زبانیں آگ کے شعلے برسا رہی ہیں اور سخت متعصبانہ تحریروں سے وہ اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے جتن کر رہے ہیں کہ کیسے کوئی ان کے خلاف علم بغاوت بلند کر سکتا ہے وہ تو جسٹس رفیق تارڑ، جسٹس قیوم، جسٹس راشد عزیز اور جسٹس شریف کے خوشہ چیں ہیں جنہوں نے شریفوں کی وفاداری میں ریکارڈ قائم کئے اور فیصلے بھی ان سے پوچھ کر کیے_ بدلے میں ان پر نوازشات کی بارش نسل در نسل جاری و ساری ہے بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کے متعلق سیف الرحمن کی جسٹس قیوم کو ہدایات کی کال ریکارڈنگ ساری قوم سن چکی ہے تو وہ کیوں آزاد منش ججز کو بخشیں گے حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے شریف خاندان کے تمام کیسز کو ختم کیا گیا ہے مگر وہ اس کو احسان نہیں مانتے ہیں وہ تو چاہتے ہیں کہ ساری عدلیہ جسٹس قیوم اور جسٹس شریف کی مانند ان کے اشاروں پر فیصلے کرے اور اس کے مخالفین کو فکس کرے خاص کر عمران خان کو نشان عبرت بنا ڈالے ان ججز نے ن لیگ کی دم پر کون سا پاؤں رکھا ہے جو وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں ان کا کیس شوکت عزیز صدیقی سے یکسر مختلف ہے ان کا نہ تو کوئی سیاسی بیک راؤنڈ ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی جلسے میں تقریر کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ ججز خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرتے تو یہی کام تقریر کرنے کی بجائے شوکت عزیز صدیقی بھی کر لیتے دوسرا ان جج صاحبان کی پریکٹس کی کمائی جج کی تنخواہ اور مراعات سے بہت زیادہ تھی ان کے لیے نوکری زندگی موت کا مسئلہ نہیں ہے اگر انہوں نے اپنے پیرنٹ ادارے کو اپنا مسئلہ بتایا ہے اور رہنمائی مانگی ہے تو اس میں سیخ پا ہونا سمجھ سے بالا تر ہے جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس منصور اور جسٹس نعیم اختر نے اپنے ریمارکس سے ان ججز کی شکایات کے ازالہ کرنے کی بات کی ہے جسٹس منصور کا کہنا ہے “جو چیزیں ہو رہی ہیں ان پر ہم شتر مرغ کی طرح سر دبا کر نہیں بیٹھ سکتے ہیں ہمیں ادارہ جاتی رسپانس دینا ہو گا” جسٹس اطہر کا کہنا تھا “سب کو پتہ ہے کہ کیا کیا ہو رہا ہے ملک میں سیاسی انجینیرنگ ہوتی رہی ہے اور اس عدالت کے متعلق بھی سیاسی انجینیرنگ میں ملوث ہونے کا تاثر ہے ان ججز نے جو انگلی اٹھائی ہے وہ عدلیہ میں مداخلت کے کلچر کی ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچا نا ہے کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے “جسٹس نعیم اختر نے اٹارنی جنرل کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا” حکومت کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئیے حکومت کو کسی بھی عدالت کی جانب سے جاری حکمنامہ بے اثر کرنے کے لیے کسی بھی فریق کے خلاف ایم پی او جیسے قانون کا سہارا نہیں لینا چاہیے ”
ایمل پبلیکیشنز کی شائع کردہ جسٹس نواز عباسی مرحوم کی کتاب صاحب علم شخصیت شاہد اعوان نے بھجوائی جس میں جج صاحب نظریہ ضرورت کے متعلق لکھتے ہیں” پاکستان کی تاریخ میں نظریہ ضرورت کا اطلاق پہلی دفعہ جسٹس منیر نے کیا اس نے 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے پارلیمان کی غیر آئینی تحلیل کو جائز قرار دیا اسکے بعد ڈوسو کیس میں ایوب خان کے مارشل لاء کو آہینی تحفظ فراہم کیا گیا اور ڈی فیکٹو تھیوری کے تحت پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی نظام میں بدل دیا اس نظریے کی نحوست سے ہی فاطمہ جناح کو دھاندلی سے صدارتی ریفرنڈم میں ہرایا گیا 1970 میں سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت شیخ مجیب الرحمٰن کی پارٹی کو اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود اقتدار نہیں دیا گیا تو مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور نظریہ ضرورت کے تحت بھٹو صاحب صدر بن گئے تو بعد میں 1973 کے آہین کے تحت وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے پانچ جولائی کو ضیا الحق نے اقتدار پر شب خون مارا اور مارشل لاء نافذ کر دیا اسی مارشل لاء کو نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا مگر سپریم کورٹ نے آہینی نکات کے برعکس مارشل لاء کو وقت کی ضرورت قرار دے دیاگیا مشرف نے غیر آئینی طور پر اقتدار پر قابض ہوا تو جسٹس ارشاد حسن نے اس کو قانونی جواز فراہم کیا میں حالیہ تاریخ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی غیر مشروط حمایت کی اور اب ہر آنے والے چیف کی خواہش پر اس کی مدت ملازمت میں توسیع ہو سکے گی اس بارے میں کوئی بھی جمہوری جماعت بتانے سے گریزاں ہے حتی کہ “ووٹ کو نعرہ دو ” کا نعرہ لگانے والی جماعت نے بھی اس کی حمایت کی” جسٹس صاحب زندہ ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی جماعت نے کیسے بوٹ کو عزت دی اور کیسے فارم 47 کی جعلسازی سے الیکشن جیتا اب یہی تو انکو فکر دامن گیر ہے کہ اگر عدلیہ نے دھاندلی کے خلاف عدل و انصاف پر مبنی فیصلے دینا شروع کر دئیے تو کہیں ان کے اقتدار کا

محل زمین بوس نہ ہو جائے اور عمران خان رہا ہو کر ان کے خلاف عوامی تحریک چلا کر ان کو بے نقاب نہ کردے ان کے حواری کہتے ہیں کہ عمران خان جیل میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے تو بھائی آپ بھی جیل جا کر عیاشی کر لیں اور اسے رہا کر دیں تاکہ وہ اپنے پلے سے گزر اوقات کرے جسٹس نواز نے ایک اور ایک غیر آئینی عمل کے متعلق اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے “اپریل 2022 میں عدالت عظمیٰ نے حکومت کے پارلیمانی دائرہ اختیار کے متعلق متنازعہ فیصلہ دے کر ملک میں نظریہ ضرورت کی نئے سرے سے بحث چھڑ دی ہے حالانکہ سپیکر کی دی گئی رولنگ کو عدالت رد نہیں کر سکتی ہے چاہے اس میں کوئی بے ضابطگی کیوں نہ ہو” پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ایک کر دئیے مگر بعد میں جب سپریم کورٹ نے لو ٹوں کے ووٹوں پر پابندی عائد کی نوے روز میں پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کے متعلق فیصلے دئیے تو نہ صرف حکومت اور الیکشن کمیشن نے ان فیصلوں کی حکم عدولی کی بلکہ سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف توہین آمیز مہم میذیا پر چلائی گئی اور سپریم کورٹ کے گیٹ پر جمعیت علمائے اسلام کے لٹھ بردار کارکنوں کو بٹھا دیا گیا اب کیا کیا جائے ہر جج جسٹس قیوم اور رفیق تارڑ تو نہیں بن سکتا ہے ن لیگ کی تاریخ ہے کہ یہ کبھی سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو کبھی ججز کے خلاف بے بنیاد اور گٹھیا الزامات لگانے شروع کر دیتے ہیں جب کوئی جج ان کی کرپشن پر سزا دے تو وہ مطعون بن جاتے ہیں اور جو ان کے حق میں فیصلے دے تو اس کے لیے انعام وکرام کی بارش کی جاتی ہے اگر پانامہ میں نواز شریف کے خلاف کل غلط ہوا تو آج عمران خان کے خلاف بھی ایسے ہی غیر حقیقی کیسز چلائے جا رہے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ججوں کو آزاد ذہن سے اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہوئے فیصلے کرنے دیں اور اگر ایک جج لالچ اور چمک کا شکار ہو کر فیصلے کرے گا تو یاد رکھے کہ قیامت کے روز جہنم کی آگ اس کا مقدر بنے گی ایک اسلامی جمہوری ملک میں قانون کی حکمرانی کا مطلب محض قانون شقوں کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرنا نہیں ہیں بلکہ حکم الہی کے مطابق عدل و ا انصاف کی روح کو برقرار رکھنا بھی اس کی ذمہ داری ہے دنیاوی فائدے کے لیے حق و انصاف کے طے شدہ اصولوں سے روگردانی کر کے فیصلے کرنا بہت بڑا جرم ہے اور خدا کی عدالت میں ناقابل معافی ہے لہذا اگر آپ منصف ہیں تو آپ کو اپنے دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرنا ہے