اعصاب شکن عدالتی ڈرامے کا آخری ایکٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کے بعد قریب آتا دکھائی دیتا ہے۔ اس تمام کارروائی سے یہ تاثر تو زائل ہو گیا کہ بندیال کی رخصتی، مظاہر نقوی کی برطرفی اور اعجازالاحسن کے استعفے سے ہم خیال ججوں کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ عدلیہ میں پراجیکٹ عمران کی جڑیں اتنی گہری کیوں ہیں اسکا جائزہ لینے کیلئے ہمیں اسی عدالتی ڈرامے کا پہلا ایکٹ یاد کرنا ہو گا۔ 2017 میں فوج کے اشارے پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر برطرف کرنے کا پروگرام بنا تو پاناما کیس کے فیصلے والے روز سپریم کورٹ کے جج حضرات اپنی فیملیوں کو بھی ساتھ لائے۔ بیوی بچوں کو پہلے سے پتہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی فیصلہ سنایا گیا بڑا کمرہ عدالت تالیوں سے گونج اٹھا۔ ججوں کے گھر والوں کی خوشی دیدنی تھی۔ یہ ردعمل حیران کن تھا کیونکہ اس سے جہاں یہ ثابت ہوا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی طرح ججوں کی فیملیوں کا بھی کرش بن چکا ہے وہیں پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں سے انکی بے پناہ نفرت بھی ظاہر ہو گئی۔ اسی عدالتی ڈرامے کا دوسرا کلائمیکس والا ایکٹ اس وقت سامنے آیا جب نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے کر کے بغاوت کرانے کی کوشش کی گئی۔ بندیال کا شمار کبھی بہادر ججوں میں نہیں ہوتا تھا مگر لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب ہم خیال ججوں نے عدالت لگا کر پہلے سے گرفتار عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ مرسڈیز گاڑی میں ملزم کی ججز گیٹ سے سپریم کورٹ آمد کے بعد ججوں کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔ بندیال نے مشہور زمانہ فقرہ گڈ ٹو سی یو اچھال کر عمران خان کو شاباش دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا گیا کہ تمام مقدمات سے فارغ کر کے اگلے ہی روز فاتحانہ انداز میں گھر بھجوایا جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ ایک طرف لگ رہا تھا کہ فوجی قیادت زخم خوردہ ہے دوسری جانب کھلم کھلا اظہار کیا جا رہا تھا کہ جج ڈٹ کر کپتان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بندیال اور ہم خیال ججوں کا یہ زعم بے سبب نہیں تھا۔ نو مئی بنیادی طور پر آرمی چیف حافظ عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش تھی جس میں ادارے کے اندر کے لوگ ملوث تھے، یقینا صدر عارف علوی بھی۔ نو مئی کے چار پانچ روز بعد تک بھی بندیال کورٹ کو پورا یقین تھا کہ پلان کامیاب ہو گا حالانکہ اس دوران انکے دوست کور کمانڈر لاہور سلمان غنی کو فارغ کیا جا چکا تھا۔ بندیال نے سسٹم پر حتمی وار کرنے کیلئے وزیر اعظم شہباز شریف اور چار وفاقی وزرا کو نااہل کرنے کیلئے عدالت بھی لگا لی تھی۔ فوج تو کہیں پیچھے رہی لیکن مولانا فضل الرحمن نے ایک دن کے نوٹس پر لاکھوں کارکن سپریم کورٹ کے سامنے جمع کر کے وارننگ دی کہ اب ہم خیال ججوں کو عمران خان کی مزید طرفداری کی اجازت نہیں دینگے۔ ایسے ججوں کا عدالتوں میں ہی نہیں بلکہ گھروں تک پیچھا کیا جائے گا۔ پی ڈی ایم اور حکومت میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کا موڈ دیکھ کر ہم خیال جج دم دبا کر بھاگ گئے۔ باجوہ اسٹیبلشمنٹ کی غلط اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی کمزور پالیسیوں کے سبب عدالتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو جو ریلیف ملا وہ قانون سے کہیں بڑھ کر ہے۔ لاہور، اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹوں میں ریس لگی رہی۔ ایک جج نے تو یہاں تک حکم دے دیا کہ عمران خان خواہ جو مرضی جرم کر دیں فلاں تاریخ تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ انہی ججوں نے نو مئی سمیت ہر سنگین مقدمے کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ توشہ خانہ کیس فارغ کیا تو اب سائفر کیس کے در پے ہیں حالانکہ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو نے کانگریس کمیٹی میں بیان بھی دے دیا ہے کہ پاکستانی سفیر سے ملاقات کو سیاسی مقاصد کیلئے غلط رنگ دے کر اچھالا گیا اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ ڈرامے کا تیسرا ایکٹ خاتون سمیت ان چھ ججوں کی جانب سے ایجنسیوں کی مداخلت کا الزام لگا کر خط لکھا جانا ہے جو خود جنرل فیض کے دور میں بھرتی ہوئے اور پی ٹی آئی کو بالٹیاں بھر بھر ریلیف دیتے آئے ہیں۔ ان ججوں کے سرخیل جسٹس محسن کیانی نے ٹیریان کیس میں عمران خان کو کلین چٹ دینے کیلئے ساتھی جج ارباب طاہر سے مل کر تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عامر فاروق کے علم میں لائے بغیر فیصلہ جاری کر کے بادی النظر میں مس کنڈکٹ کا ارتکاب کیا۔ جسٹس محسن کیانی کے خلاف ایک تگڑا ریفرنس بھی زیر التوا ہے جس کا صرف ایک نکتہ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے میڈیا کو بتایا کہ جج صاحب کے گھر والوں نے بہت مختصر مدت کے دوران دو کروڑ روپے صرف ہوائی سفر کے ٹکٹوں پر خرچ کیے ہیں۔ چھ ججوں میں شامل جسٹس بابر ستار نے نو مئی کے حوالے سے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کے خلاف ایکشن لینے پر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور پولیس حکام کو سزائیں سنا دیں (پی ٹی کے یہ دونوں ارکان آج بھی اپنی زبانوں سے آگ برسا رہے ہیں) اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے حکم پر تاریخ میں پہلی بار سزا یافتہ مجرم اور جیل حکام کے درمیان تحریری معاہدہ ہوا کہ ملاقاتیں کب اور کیسے کرنی ہیں۔ ایک جج نے دو سو سول افسروں کو ریاست کے غیر قانونی احکامات نہ ماننے کی ترغیب دی۔ اڈیالہ جیل میں سزا یافتہ عمران خان کے لیے تین کمرے توڑ کر بڑا ہال بنا۔ اردگرد کے چھ سیل خالی کرائے گئے۔ منی جم والی سائیکل فراہم کی گئی۔ دیسی گھی میں تیار کردہ دیسی مرغی مٹن وغیرہ کے احکامات انہی عدالتوں نے دئیے جن کے جج کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی ان کے کام میں مداخلت کر رہی ہے۔ سوال تو اٹھے گا کہ ان چھ ججوں کا ضمیر اب کیسے جاگ گیا جبکہ یہ تمام وہی ہیں جنہوں نے جسٹس اطہر من اللہ کے کہنے پر جنرل فیض کے عتاب کا نشانہ بننے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا سوشل بائیکاٹ کیا اور اس حد تک آگے چلے گئے کہ ان کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں بھی شرکت نہیں کی، اس سسٹم میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی تو خود کو منوا چکے کہ کسی قسم کا دباو یا دھمکی ان کو قانون پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، انہوں نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے تو حکومت کو بھی جرات مندی کے ساتھ ان چھ ججوں کی کارکردگی اور سیاسی جھکاو کا ذکر کرنا چاہیے۔ آرمی چیف حافظ منیر کیا کر رہے ہیں ہمیں کچھ ٹھوس تو نظر نہیں آ رہا، اس نئے بحران میں ان کیلئے یہی مشورہ ہے اپنے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کر لیں۔ شہباز حکومت سے کوئی توقع تھی نہ ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ طویل نگران دور حکومت (جو کسی کو جوابدہ نہ تھا) کے دوران عدلیہ کی حد تک صفائی کا سنہرا موقع ضائع کر کے بحران کو خود دعوت دی گئی۔ یہ بھی طے ہے کہ کوئی ادارہ اپنا احتساب خود نہیں کر سکتا ورنہ موجودہ عدلیہ میں موجود بعض جج بہت آگے نکل کر کھیل چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جن تین ججوں نے پنجاب میں حکومت تبدیل کرانے کے لیے آئین کو ہی ری رائٹ کر دیا ان میں سے ایک معزز جج آج بھی کرسی پر براجمان ہیں۔ اگرچہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بہت سے لوگوں کے لیے پسندیدہ شخصیت نہیں لیکن اپنی براہ راست معلومات کی بنیاد پر بعض واقعات کے حوالے دے کر ججوں کو جس نام سے پکارتے تھے وہ لکھا نہیں جا سکتا۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات