” بکھر جائیں گے ہم کیا ، جب تماشہ ختم ہو گا” ؟ ایسے نئے کردار شامل کہ کہانی مزید الجھ چُکی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو خط بھونچال کیا پیدا کرتا؟ ہمہ وقت مستعد عمران خان سوشل میڈیا بریگیڈ نے خط کی آڑ میں عدالتی نظام ہتھیا لیا۔ خط کے مندرجات سے اُصولی اتفاق کہ 6 ججوں کا موقف زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہے ۔ ایک عرصہ سے ایجنسیوں کی مداخلت نے مملکت کو گھائل رکھا ہے۔ من پسند ججوں کے بینچ بنانے کا رواج بھی زمانہ قدیم سے رائج تاآنکہ قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی حد تک ازالہ کر دیا۔
ججز خط کا چیف جسٹس پاکستان کو ملنے سے پہلے کمپنی کی مشہوری کیلئے میڈیا کے حوالے کرنا ، نیتوں پر سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ خط کے منظرِ عام پر آتے ہی، چیف جسٹس پاکستان کا ردِ عمل مثالی تھا ۔ 6 ججوں سے ملاقات، فل کورٹ میٹنگز، وزیراعظم سے فوری ملاقات اور انکوائری کمیشن کی تشکیل سب کچھ پلک جھپکتے کر ڈالا۔ حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دیا تو جسٹس تصدق جیلانی بخوشی راضی ہوگئے ۔ البتہ PTI سوشل میڈیا بریگیڈ کی گالم گلوچ کی تاب نہ لاتے ہوئے بعدازاں معذرت کرلی۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر بننے والا کمیشن، بن کھلے مُرجھا گیا ۔ تنگ آمد بجنگ آمد، سپریم کورٹ نے 184(3) کے تحت نوٹس لے لیا اور 7 رُکنی بینچ نے پہلے دن ہی پونے 2 گھنٹے سیرحاصل گفتگو کر ڈالی۔ عزم صمیم اتنا کہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچانا ہے ۔دوران سماعت قاضی صاحب نے سوشل میڈیا کے دباؤ کا ذکر کیا ، ” تصدق جیلانی صاحب کی معذرت اُسی دباؤ کا ہی نتیجہ تھی ” ۔ قاضی صاحب بنفس نفیس دباؤ میں نظر آ ئے ، شاید یہی وجہ کہ بار بار جھوٹے پروپیگنڈے پر وضاحتیں دینا پڑیں۔ جملہ معترضہ ،ذاتی طور پر چیف جسٹس صاحب کا ممنون کہ 8فروری 2024ءالیکشن کا سہرا قاضی عیسیٰ کے سر باندھنا ہوگا۔ قاضی صاحب نے جب عہدہ سنبھالا ، شدومد سے ایک بات تسلسل سے دُہرائی بھی ” الیکشن ہو کر رہیں گے اور ہوکر رہے ” ۔ججز خط دوحصوں پر مشتمل ، ایک حصہ ایجنسیوں کی مداخلت پر شکایت ہے ۔ جبکہ دوسرا مدعا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے عدالتی معاملات کو مخصوص انداز میں چلانا ہے ۔ بقول خط ،یہی ججز 2 مئی 2023 کو چیف جسٹس بندیال کو اُنکے گھر جاکر ملے اور یہی گزارشات کیں مگر بے نتیجہ رہیں ۔ ضروری سوال اتنا کہ جس دباؤ کا واویلا مچایا جارہا ہے ، اُسکی شروعات کہاں سے ہوئیں ؟ 2014 سے جاری اُکھاڑ پچھاڑ کو زیر بحث لائے بغیر کوئی بھی معاملہ نتیجہ خیز نہیں رہے گا ۔ ” خط میں ججوں نے مشورہ مانگا ہے کہ ایجنسیاں رابطہ کریں تو کیا کرنا چاہیے؟” چیف جسٹس پاکستان کا استفسار “توہین عدالت کیوں نہیں لگائی ” ۔ کچھ سال پہلے انہی ججوں میں سے ایک جاننے والے جج نے شوکت صدیقی پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ” جسٹس صدیقی تقریر کی بجائے جنرل فیض پر توہین عدالت لگاتے ” ، حیرت! اس عمل سےخود کو محروم کر رکھا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ دباؤ کا رونا رویا جا رہا ہے ، دراصل اس وقت عدالتی نظام بقلم خود سوشل میڈیا دباؤ کے نیچے چل رہا ہے ۔
ایک اور مثال حاضر خدمت ، میڈیا کے ایک سینئر اور نامور دانشور نے بتایا کہ انکے بچوں کا اصرار تھا کہ ” آپ اپنے پروگراموں میں عمران خان پر تنقید نہ کیا کریں ، سوشل میڈیا پر آپکے خلاف غلیظ اور بازاری زبان سے ہماری دل آزاری ہوتی ہے ” ۔ نامور دانشورنے بچوں کو جواباً سمجھایا کہ ” کبھی بازاری لوگوں کے دباؤ میں آ کر اپنے اُصولی موقف پر سمجھوتا نہ کریں ” ۔ بدقسمتی ، جب اسٹیبلشمنٹ نے اس عفریت (FRANKENSTEIN ) کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تو سب سے پہلے اُسکو سوشل میڈیا کے مہلک ہتھیار سے لیس کیا ۔ آج اسٹیبلشمنٹ مع تمام عمران خان مخالفین کی عزت و تکریم اُسی ہتھیار کی زد میں ہے ۔ ذاتی طور پر واقف ہوں کہ عمران خان کو سوشل میڈیا کی زبان و بیان کی چاشنی سے دلی تسکین ملتی ہے ۔ ہمیشہ خوش دلی اور فراخدلی سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔
آخری خبریں آنے تک انصافی سوشل میڈیا دباؤ کے مقابلہ میں ایجنسیوں کا دباؤ طفلِ مکتب ہے ۔ جسٹس تصدق جیلانی کے عہدہ کی قبولیت کے بعد اس سے معذرت کرنا شاید ایجنسیوں کے دباؤ میں ممکن نہ ہوتا۔ دباؤ ہی اعجاز کہ عدلیہ عمران خان کے رحم وکرم پر ہے، فُل بینچ جب مانگا تو مل گیا۔ سوشل میڈیا پروپیگنڈا کے سامنے پورا وطنی نظام گھٹنے ٹیک چُکا ہے۔ خط کا نفسیاتی جائزہ لیں تو اکثر لوگ سوشل میڈیا دباؤ پر معاشرے میں معزز مقام حاصل کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔ خط میں قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت صدیقی کے معاملہ کو بنیاد بنایا گیا ہے، پوچھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2015 سے تعینات ہونیوالے جج اور بینچز پرجسٹس شوکت صدیقی کے اُس وقت یار و مددگار کیوں نہ بنے؟ جسٹس صدیقی کا حوالہ ہی تو خط کی بنیاد ہے۔ تو پھر ایسے ججز 2018 یا 2023 بطلِ حریت کیوں نہ بن پائے؟
شوکت عزیز صدیقی کو جس بیان پر نکالا گیا اُسکے مندرجات کیا تھے ؟ اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ تھا کہ نواز شریف کو جب سزا ہوتو ہائیکورٹ ریلیف نہ دے وگرنہ ہماری یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ بقول جسٹس صدیقی ، ” اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے بھاری سزاؤں کیساتھ جیل میں رکھنے کی متمنی تھی ” ۔ یقیناً 2018 الیکشن اور نواز شریف مقدمات کو زیربحث لائے بغیر جو نتیجہ نکلا ، ٹھن ٹھن گوپال رہے گا ۔ 2024ءکا الیکشن 2018 کی کاربن کاپی ہی تو تھا ۔ مزید اسٹیبلشمنٹ نے7سال قاضی فائز عیسیٰ پرقیامت برپارکھی ، عمران خان قدم قدم شریک جرم رہے ۔قاضی فائز عیسیٰ پرعرصہ حیات تنگ رکھا ۔ قاضی صاحب کی بیگم صاحبہ FBR کی غلام گردشوں میں دھکے کھاتی نظر آئیں۔ قاضی عیسیٰ ، شوکت صدیقی اور جسٹس وقار سیٹھ ( پُر اسرار حالات میں فوت ہو ئے ) تینوں پر جب یہ قیامت برپا تھی تو بے شُمار ججوں کا ” ضمیر ” سویا ہوا تھا۔ کاش ! بھائی ضمیر ایسے ججوں کو اس وقت بطلِ حریت بننے کی ترغیب دیتا۔
اب جبکہ سپریم کورٹ معاملہ ہاتھ میں لے چُکی، شرطیہ پنڈورا باکس کھلنے کو ہے۔ سپریم کورٹ جب اس کیس کو آگے بڑھائے تو لازم کہ پچھلے 10/12 سال کا احاطہ کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ اپنے ججوں پر مشتمل کمیشن بنائے اور سب ملوث کرداروں کو سچ بولنے پر اُکسائے۔ جو جرنیل، جو جج، جو سیاستدان سچ نہ اُگلے اسکو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ پلیز! قاضی صاحب کر ڈالیں کہ یہی ملکی سلامتی کا واحد راستہ ہے۔ وگرنہ بھاری دل کیساتھ عرض کروں گا، 6 ججز کیس جوں جوں آگے بڑھے گا ، مملکت توں توں مزید گردابوں میں پھنسے گی۔ آنیوالے اگلے چند مہینے دل دہلانے کو ہیں ،مملکت کی چولیں ہلانے کو ہیں۔ مجھے خدشہ ہے بہت کچھ مٹنے کو ہے ، اگر کچھ باقی بچا وہ ناکافی رہنا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ