دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔
ترکی میں طیب اردوان کا اقتدار خطرے میں ہے۔ بد حال معیشت انہیں لے ڈوبی ہے۔امریکہ میں صدر جوبائیڈن کی عدم مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں تو صدیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی قبائلی طرز حکمرانی غالب ہے۔ بھارت میں مودی کے پھر آنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اگرچہ حسینہ واجد شیخ پھر بر سر اقتدار ہیں لیکن اپوزیشن کی بائیکاٹ انڈیا مہم تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ اپنے ہاں پھر وہی 38 سال سے باریاں لیتے 65 سال سے اوپر کے مختلف بیماریوں میں مبتلا قائدین مسند نشین کروادیا گیا ہے۔ لیکن معیشت للکار رہی ہے۔ قرضوں کی یلغار رُک نہیں رہی۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر صبح بلوچستان میں کسی درد مند سے رابطہ ہو جائے۔ سندھ میں کسی دور افتادہ قصبے میں کسی فکر مند سے حال احوال ہو جائے۔ پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں کوئی سرائیکی لہجہ سن لوں۔ فوجی ضلعوں میں ملک کی سلامتی پر بات ہو جائے۔ کے پی کے میں خوشحال خٹک کے کسی دیوانے سے کچھ جملوں کا تبادلہ کر لوں۔ گلگت بلتستان میں پڑھنے لکھنے والے بہت روشن دماغ ہیں۔ انکی استقامت ایک نیا حوصلہ دیتی ہے۔ آزاد کشمیر میں تو امید اور یقین کی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ میں رابطوں کو فعال رکھنے کا قائل ہوں۔اپنی کتابوں شام بخیر(خود نوشت)۔ انجام بخیر۔ شب بخیر (ناول) روبرو (انٹرویو) الجھی زلفیں (خواتین کے مسائل) بطور تحفہ ملک بھر کی لائبریریوں میں بھیجنے سے بھی یہ علم ہوا ہے کہ ہر شہر قصبے میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہیں۔ جہاں اب بھی کتاب کے عاشق حرف و سطور سے وصال کیلئے آتے ہیں اس طرح میرے اندر پاکستان ہر لمحے جیتا جاگتا رہتا ہے۔
تازہ ترین سبق ہم ترکی کے مقامی انتخابات سے حاصل کرسکتے ہیں، اگر چاہیں تو ۔دو دہائیوں سے ترک بھائی بہنوں کے دل اور ذہن میں بسنے والے طیب اردوان استنبول کے میئر کے الیکشن کے راستے ترکی کی قومی سیاست پر غالب ہوئے تھے۔ اب اسی استنبول کے میئر اکرم امامہ غلو نے اپنے پُر جوش حامیوں سے کہا ہے ’’ کل ہمارے وطن میں نئی بہار کا دن ہوگا۔‘‘ 70سالہ اردوان نے استنبول میں دوبارہ کامیابی کیلئے ذاتی کوششیں بھی کی تھیں۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بد مست افراطِ زر اور اقتصادی بحران نے حکمران پارٹی کے پاؤں اکھاڑ دیے ہیں۔ 52سالہ اکرام 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں 70سالہ اردوان کیلئے مضبوط ترین حریف بن کر ابھر رہے ہیں۔ انقرہ کے میئر بھی دوبارہ فتح مند ہوئے ہیں۔ منصور یاواس نے ایک تاریخی جملہ اپنے خطاب میں کہا ہے:’’جن کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔ ان سب نے ملک پر حکمرانی کرنے والوں کو ایک واضح پیغام دیدیا ہے۔‘‘
اردوان کا پیغام شکست بھی قطعی جمہوری اور آئینی ہے۔ ان کا کہنا ہے :’’ بد قسمتی سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے جس کے ہم خواہاں تھے۔‘‘
پاکستان میں بھی 8فروری کو یہی ہوا۔ لیکن ہمارے ہاں نتائج بدلنے کے آلات اور روایات موجود ہیں۔ سب ساتھ بھی دیتے ہیں ۔ اردوان کو مزید سنئے۔ ’’ہم بہرحال قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ ہم اپنی ضد پر نہیں اڑیں گے۔ ہم قوم کے فیصلے کے خلاف کارروائیوں کا راستہ نہیں اپنائیں گے۔ اور نہ ہی قوم کی طاقت کو متنازع بنائیں گے۔‘‘ایسے جملے ادا کرنے کیلئےبڑی اخلاقی ہمت درکار ہوتی ہے۔جو ہمارے سیاسی، انتظامی ماحول سے تو اٹھ چکی ہے۔ اردوان تو بہت مقبول بھی تھے۔ انہوں نے ترکی کی بیمار معیشت کو تندرست بھی کیا تھا۔ اس پر مدلل گفتگو تو ہمارے فرقان حمید کرسکتے ہیں لیکن عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں بگڑتی معیشت نے اردوان کی مضبوط قیادت کو شکست دے دی۔ عام ترکوں کا کہنا ہے کہ ہر دن گزارنا مشکل ہے۔ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ اقتصادی بحران متوسط طبقے کو نگل رہا ہے۔ ہمیں اپنی عادتیں بدلنا ہونگی۔ اگر اردوان دوبارہ جیتے تو معیشت اور زیادہ تباہ ہوجائے گی۔
ہم ترکی سے بہت کچھ سیکھنے کا ورد کرتے رہے ہیں۔ اب اتوار 31 مارچ میں ترکی کے شہر در شہر انتخابی مناظر ہمیں بہت سے درس دے رہے ہیں۔ اردوان تو 70سال کے ہوکر ہی میدان چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں 70سال کے بعد تو حکمرانی کا ولولہ مزید تیز ہوتا ہے۔ ملک میں موجود نوجوان قیادتوں کو نظر انداز کر کے جلاوطنی سے 70سال سے اوپر کے حالات سدھارنے کیلئے لائے جاتے ہیں۔ طیب اردوان نے ترکی کے وقار اور عظمت میں بہت اضافہ کیا۔ رات دن کام کیا۔ اس کے باوجود معیشت کی بد حالی سے ان کی مقبولیت مار کھا گئی۔ اب قوموں کی طاقت معیشت ہے۔ عسکری اعتبار سے پاکستان اور ترکی دونوں مسلم ملکوں میں سرفہرست ہیں۔ لیکن اب سیاست معیشت کے بغیر مضبوط نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں گزشتہ 38 سال میں معیشت بتدریج لڑکھڑاتی رہی ہے۔ اس وقت کے اعداد و شُمار تو بہت ہی پریشان کن ہیں۔
یہ جملہ بھی قابل غور ہے کہ حکمران جن کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے حکمرانوں کو 31مارچ کو واضح پیغام دے دیا کہ ہم اصل طاقت ہیں۔ اردوان کی یہ اخلاقی جرأت ہے کہ انہوں نے قوم کے پیغام اور قوم کی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ پاکستان میں صورت حال اس سے مختلف ہے۔ اپنی ضد پر لوگ ڈٹے ہوئے ہیں۔
اب وقت ایک کھلا سبق دے رہا ہے کہ پاکستانیوں کو ایک قوم کی حیثیت سے اپنے ماضی کے سارے سقوط یاد کرتے ہوئے۔ حکومتوں کی غلط پالیسیوں۔ ریاست کی زبردستیوں کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کم از کم دو دہائیوں کا روڈ میپ بنانا چاہئے۔ اس میں ساری یونیورسٹیوں کو شامل کیا جائے۔ سارے ماہرین معیشت، تعلیم، صحت، زراعت، تجارت، تاجروں صنعت کاروں کی تنظیموں کا۔ ایک ہی نکتہ، ایک ہی عزم ہونا چاہئے کہ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کرنا ہے۔ انحطاط ہر شعبے میں ہے۔ کرپشن، ظلم، نا انصافی ہر سطح پر ہے۔ میرٹ کا قتل ہر محکمے میں ہے۔ ضرورت ہے اجتماعی فیصلے کی۔ پارلیمنٹ بالادست ہے لیکن پارلیمنٹیرین زیردست ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی روڈ میپ لائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی۔ اور سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان تحریک انصاف کی ہے کہ جو نظر انداز کیے گئے وہ اس کے ساتھ ہیں۔ وہ اور ان کی اولادیں پی ٹی آئی کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو قرضوں سے کیسے نجات دلائے گی۔ اپنے قدرتی معدنی وسائل کو کیسے بروئے کار لائے گی۔ سب طاقت وروں کا اصل مقابلہ معیشت سے ہے۔20 سالہ روڈ میپ کے سامنے آنے سے پاکستانیوں کے پست ہوتے حوصلے بحال ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ