برملا (نصرت جاوید )
لامتناہی سوالات کے جواب نہ مل پانے کی وجہ سے ذہن گھبرا جائے تو عقل پر اعتبار اٹھ جاتا ہے۔غالبا اسی باعث کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے دنیا بھر کے مزدور ایک ہوجاؤ والا منشور لکھنے سے قبل ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ خود کو نابغہ سمجھنے والے دانش مند گنجلک مسائل کی اپنی تحریروں کے ذریعے تفہیم پیش کرتے آئے ہیں۔اصل مسئلہ جبکہ استحصال پر مبنی نظام کو عملی جدوجہد کے ذریعے بدلنا ہے۔
یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا کہ میں نے جو ابتدائیہ لکھا ہے وہ آپ میں سے اکثر کو مزید پڑھنے سے باز رکھ سکتا ہے۔لامتناہی کے علاوہ میں نے آج کے ابتدائیہ میں گنجلک اور تفہیم جیسے بھاری بھر کم الفاظ بھی استعمال کئے ہیں۔ اس کے علاوہ کارل مارکس کا حوالہ دیا اور مجھے سوفیصد یقین ہے کہ فیس بک،انسٹام گرام اور ان دنوں ایکس کہلاتے ٹویٹر کے عادی ہوئے افراد کی بے پناہ تعداد کو علم ہی نہیں ہوگا کہ یہ صاحب کون تھے۔ کس زمانے سے تعلق تھا۔قصہ مختصر کیا بیچتے تھے۔
اپنی اوقات میں لوٹتے ہوئے لہذا اعتراف کرتا ہوں کہ چند برسوں اور خصوصا 8فروری 2024کے بعد سے میرے ذہن میں پاکستانی سیاست کے بارے میں جو سوالات امڈتے چلے آرہے ہیں ان کے تسلی بخش جوابات ڈھونڈنے میں مستقل ناکام ہورہا ہوں۔ اقبال کی بیان کردہ آتش نمرود میں بے خطر کودنے والے بھی تاہم مجھے لب بام بیٹھ کر سراہنے کو اکسانہیں رہے۔ انہیں تخریب کار تصور کرنے کا بھی اگرچہ مجھ میں حوصلہ نہیں۔فروری 2024کے پہلے ہفتے کے دوران اسلام آباد سے لاہور اور وہاں قیام کے دوران مختلف محلوں کے پھیروں نے تاثر یہ دیا تھا کہ عوام کی بے پناہ اکثریت کچھ کرنے کو بے قرار ہے۔ اسلام آباد میں مقیم ہوئے عوام کے وسیع تر حلقوں میں پھیلے اضطراب کا مجھے حقیقی معنوں میں اندازہ نہیں ہوپایا تھا۔اس کے اشارے البتہ مل رہے تھے جنہیں اس کالم میں بیان کرتا رہا ہوں۔
8فروری2024گزرجانے کے بعد سے مگر پشاور سے کراچی تک عوام کی اکثریت کو اپنے گرفت میں لینے والا اضطراب اب سیلاب کے پانی کی صورت غائب ہوا محسوس ہورہا ہے۔مہنگائی،مہنگائی اور مہنگائی کا ذکر ہی روزمرہ گفتگو کا مرکزی موضوع ہے۔ حکمرانوں سے لوگ کسی تسلی کی امید نہیں باندھ رہے۔ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی عوامی تحریک بھی تیار ہوتی نظر نہیں آرہی۔ دریں اثنا موبائل فون کی بدولت حکمرانوں کی بھد اڑاتی کوئی پوسٹ جنہیں انگریزی میں Memeکہا جاتا ہے دیکھنے اور سننے کو مل جاتی ہیں۔ حکمرانوں سے اکتائے لوگ اسے دوستوں کے ساتھ شیئر کرکے خوش ہوجاتے ہیں۔میرے لئے حیران کن دریافت گزشتہ دنوں یہ بھی ہوئی کہ نام نہاد سیاسی مسائل کے ذکر کا اصل پلیٹ فارم اخباروں کے لئے لکھے مجھ جیسے افراد کے کالم نہیں۔شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی ٹاک شوز میں کرنٹ افیئرز کے بارے میں جو یاوہ گوئی ہوتی ہے وہ بھی بے اثر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ٹک ٹاک نامی ایک ایپ ہے۔ سیاسی موضوعات پر اصل تماشہ اس کے ذریعے دیکھنے کو مل سکتا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر مجھے اوسطا سو کے قریب ٹک ٹاک ویڈیوز فارورڈ یا شیئر کی جاتی ہیں۔میں نے اپنے فون پر لیکن یہ ایپ لگانہیں رکھی۔ نہ ہی اسے استعمال کرنا جانتا ہوں۔
ٹویٹر جسے اب ایکس کہا جاتا ہے سوشل میڈیا کے حوالے سے میرا پسندیدہ پلیٹ فارم تھا۔ دو سے زیادہ برس میں اس پر بہت زیادہ متحرک رہا۔ بتدریج دل مگر اچاٹ ہوگیا۔ عالمی امور سے بے حد دلچسپی ہے۔ ان کے بارے میں اس پلیٹ فارم پر مزے کے مضامین پڑھنے کو مل جاتے تھے۔ بذاتِ خود اگرچہ میں نے ٹویٹر کے ذریعے تبصرہ آرائی سے گریز کی عادت اختیار کرنا شروع کردی تھی۔ چند ہی دنوں بعد مگر پتہ چلا کہ نصرت جاوید نام کے 8سے زیادہ صحافی میرے نام سے ٹویٹ لکھ رہے ہیں۔ ان کے لکھے پیغامات سے گھبرا گیا۔ میری گھبراہٹ کے دنوں میں ایلون مسک نامی عالمی سطح کے اجارہ دار سیٹھ نے ٹویٹر خرید کر اسے ایکس بنادیا۔ ایکس خریدنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ مذکورہ پلیٹ فارم استعمال کرنے کے عادی افراد اگر اپنی شناخت مستند بنوانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی شناخت کے ساتھ نیلے رنگ کا (Tick)یعنی بلو ٹک کے حصول کیلئے کچھ رقم ادا کرنا ہوگی۔ میں نے اپنے بچاؤ کے لئے بلو ٹک خریدنے کی فیس ادا کردی۔
دو ماہ سے مگر ٹویٹر محبوب کی صورت کی طرح دن میں چند ہی لمحات کے لئے طویل وقفوں کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ سوچ رہا تھا اب کی بار ایلون مسک کو سالانہ فیس ادا نہیں کروں گا۔ آج سے دس دن قبل مگر ایکس کی جانب سے پیغام آیا کہ ان کے پاس میرے ڈیبٹ کارڈ کی تفصیلات موجود ہیں۔ 25مارچ کے بعد اگر میں ایکس استعمال کرنا چاہ رہا ہوں تو اس کارڈ سے 23,700روپے وصول کرلیے جائیں گے۔ مجھے انکار کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ اکثر قارئین یہ کالم ایکس کی بدولت بھی پڑھتے ہیں۔خود سے منسوب یاوہ گوئی سے بچنے اور قارئین کی محبت میں خاموش رہا۔ مسک نے پیسے وصول کرلیے۔ ٹویٹر اگرچہ شاذہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
خود کو جمہوری کہلاتے پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے مجھے یہ جاننے کا اختیار ہی نہیں کہ ٹویٹر اکثر کیوں بند ہوجاتا ہے۔قوم کو اگر مذکورہ پلیٹ فارم سے پھیلائے مفسد خیالات سے محفوظ رکھنا ہے تو ایکس سے زیادہ موثر انداز میں مفسدانہ خیالات یوٹیوب کے ذریعے پھیلائے جارہے ہیں۔ یوٹیوب مگر ہر فون پر24/7میسر ہے۔مفسد خیالات کے حوالے سے ٹک ٹاک کی اہمیت اور رسائی بھی اسی کالم میں بیان کردی ہے۔اسے امریکہ جیسے آزا دی اظہار کے چمپئن اور محافظ نے اپنے ہاں بند کردیا ہے۔ ہم مگر یہ کرتے ہوئے سوبار سوچیں گے کیونکہ ٹک ٹاک چین کے کنٹرول میں ہے اور چین 1965کے بعد سے اپنا یار ہے۔ اس پہ جان بھی نثار ہے۔
یہ سوال لہذا اپنی جگہ برقرار ہے کہ وطن عزیز میں فقط ایکس ہی کو پاکستان کے سادہ لوح تصور ہوتے عوام کو گمراہ کرنے کا ذمہ دار کیوں گردانا گیا ہے۔ اس سوال کا جواب وفاقی وزیر اطلاعات فراہم کرسکتے تھے۔اپنا عہدہ سنبھالتے ہی مگر ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے ہمیں مطلع کیا کہ ٹویٹر کی بندش کا حکومت نے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ہے۔دو جمع دو کی منطق کے استعمال سے لہذا ہمارے ہاں ایکس کام کررہا ہے۔وفاقی کابینہ کے طاقت ور ترین وزیر جناب اسحاق ڈار کے زیر استعمال وائی فائی بھی ایکس تک رسائی ممکن بناتا ہے۔شاید اسلام آباد کے اس علاقے میں جسے وزرا کے سرکاری گھروں کی وجہ سے وزیر آباد کہا جاتا ہے خاص نوعیت کے وائی فائی نصب ہیں۔عدالتوں کو البتہ وزیر اطلاعات اور وزیر خارجہ ہی کی حکومت نے یہ بتایا ہے کہ ایکس وزارت داخلہ نے بند کررکھا ہے۔ کاش وزارت داخلہ نے یہ خبر وزیر اطلاعات اور وزیر خارجہ سے بھی شیئر کردی ہوتی۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو جانوروں جیسی رعایا شمار کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں اٹھے ہر حوالے سے واجب سوالات کے جواب تو ہمارے حکمران فراہم کرنے کے عادی نہیں۔اب وزارت داخلہ دیگر وزارتوں کو بھی ہم جیسا تصور کررہی ہے۔ عطا تارڑ صاحب اور جناب اسحاق ڈار کو لہذا انگریزی محاورے والا ویلکم ٹو دی کلب( Welcom to the Club) کہنا چاہ رہا ہوں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت