عطاء الحق قاسمی سے فواد حسن فواد تک : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


لکھنے اور سوچنے والوں کے ساتھ ریاست کی آشیرباد والے اداروں کا سلوک ہمیشہ تضحیک آمیز رہا ہے۔ نظریاتی سیاستدانوں اور ادیبوں کی دیانتداری، زمین سے وفا اور انسان دوستی والی سوچ متکبر اور نااہل عہدے داروں کو اس قدر گلٹی کرتی ہے کہ جب جب موقع ملے وہ اہلیت رکھنے والوں کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اگر موقع نہ ملے تو ازخود نوٹس لے کر انتقام کے کُوڑے میں الزام تراشی کی ایسی چنگاری پھینک دیتے ہیں جسے منفی لوگوں کی پھونکیں کافی دیر بھڑکائے رکھیں اور وہ اپنی لگائی آگ کا تماشا دیکھتے رہیں۔بے شمار پھرتیوں کے باوجود دنیا میں کوئی نیک نام درجہ نہ ملنے کی وجہ یہی ہے کہ سماج میں پھیلے ظلم اوربے انصافی کے ہزاروں معاملات کو نظرانداز کر کے ذاتی ناپسند اور نفرت کو جواز بنا کر ایسے قصے گھڑے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

پانچ برس قبل ثاقب نثار کے ازخود نوٹس پر عمر عطا بندیال نے ایک عالمی شہرت یافتہ ادیب، دانشور اور کالم نگار عطاء الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کو نہ صرف غیرقانونی قرار دیا بلکہ انھیں تاحیات بھی نااہل کردیا اور ان کے ساتھ پرویز رشید، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد کو بیس کروڑ روپے جرمانہ جمع کا حکم بھی صادر کر دیا۔ یہ فیصلہ کرکے یقینا انھوں نے اپنی اور کچھ لوگوں کی اَنا کی تسکین کا سامان کیا ہو مگر اکثریت کی گواہی کے ساتھ عطا الحق قاسمی اہلیت کے اعلی عہدے پر متمکن رہے ۔وہ عطاء الحق قاسمی جن کا پورا سفر جدوجہد سے عبارت ہے، کالج میں پڑھانے کے ساتھ ملک کے اہم اخبارات میں کالم نگاری کی، پی ٹی وی میں حقیقی معاشرتی عکاسی کرنے والے ڈرامے لکھے، دنیا بھر میں منعقد ہونے والی ادبی کانفرنسوں، مشاعروں اور ثقافتی پروگراموں میں شرکت کی، ادبی رسالہ نکالا،الحمرا کی چئیرمینی کے دوران ادب کی ترویج کے لئے جو کام کئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں، سفارت کاری کا اعزاز بھی اعزاز کی طرح نبھایا، اُن کی بیگم روبی قاسمی بھی شعبہ تعلیم سے منسلک رہیں،سب نے لاکھ کوشش کی مگر میاں بیوی کی عمر بھر کی پونجی میں ایک گھر کے علاوہ کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی، پلازہ ، کاروبار حتیٰ کہ چھوٹی موٹی فیکٹری بھی تلاش نہ کر سکے، جس طرح جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اسی طرح انتقامی فیصلوں کی پذیرائی نہیں ہوتی، وقت سب کچھ عیاں کر دیتا ہے ، پاکستان کی اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے عطاالحق قاسمی پر الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان پر سرکاری عہدہ رکھنے کی پابندی ختم کردی ہے ۔

ان کے ساتھ حقیقی جمہوری قدروں کیلئے کوشاں پرویز رشید بھی سرخرو ہوئے، ملک معراج خالدکے بعد پرویز رشید وہ واحد سیاستدان ہیں جن کی ایمانداری پر دشمن بھی ایک پیسے کی ہیر پھیر کا الزام نہیں لگا سکتے، ملکی معیشت کیلئے ہزار جتن کرنے کے باوجود ملک بدر ی کی اذیت جھیلنے والے اسحاق ڈار بھی سرخرو ہوئے اور خوبصورت شاعر فواد حسن فواد بھی، جن کو ملازمت کے آخری برسوں میںشدید انتقامی رویوں کا سامنا کرنا پڑا، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ، جب نگراں وزیراعظم کیلئے ناموں کی فہرست میں فواد حسن فواد کا نام دیکھا تو انھیں فون کر کے خوشی کا اظہار کیا، ہنس کے کہنے لگے ایسی بات نہیں، ہم جیسے لوگوں کو کون وزیراعظم بناتا ہے ، میں نے کہا ہم خواہش تو کر سکتے ہیں ، لیکن سچی بات ہے ادیبوں کے حوالے سے ریاست کی سوچ اور سیاستدانوں کی اپروچ میں فرق نہیں، کبھی نگراں سیٹ اپ میں اعلیٰ عہدے کے لئے کس ایسے ادیب کو قابل نہیں سمجھا گیا جس نے سرکاری منتظم کی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہوں، ایک بار عطاء الحق قاسمی صاحب کو گورنر پنجاب بنانے کی خبر چلی مگر دم توڑ گئی، اس دن کا انتظار ہے جب فواد حسن فواد جیسا معاملہ فہم افسر اور شاعر نگراں وزیراعظم، عطا الحق قاسمی جیسا ادیب گورنر پنجاب اور پرویز رشید جیسا سیاستدان صدر پاکستان بنے گا کیونکہ یہ ادب و ثقافت کی سربلندی اور دانشور نظریاتی سیاستدانوں کی حیثیت تسلیم کرنے کےسفر کا آغاز ہوگا۔

اس وقت بھی ادبی اور ثقافتی اداروں میں بدحالی عروج پر ہے، مسائل کا شکار فنکاروں، گلوکاروں اور ادیبوں کو اپنا دکھ سنانے کے لئے کوئی مہربان شخصیت میسر نہیں۔مسلم لیگ ن ہمیشہ ادبی اور ثقافتی پلیٹ فارم کو نظرانداز کرتی رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا اس حوالے سے ریکارڈ شاندار ہے، ضروری ہے کہ معاشرے میں خیر اور ادب کی قدروں کی ترویج کے لئے عطاء الحق قاسمی اور فواد حسن فواد جیسے وسعت نظر رکھنے والے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ