اپنے دور اقتدار میں عمران خان امریکی صدر جو بائیڈن کے فون کا انتظار ہی کرتے رہے لیکن وائٹ ہاوس سے اُنہیں کوئی کال نہ آئی۔ جب اپنی حکومت کا خاتمہ ہوا تو پھر امریکی سازش کی کہانی گھڑی’’ رجیم چینج‘‘ اور’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا بیانیہ بنایا جو عوام میں تو خوب مقبول ہوا لیکن جو کچھ خان صاحب حاصل کرنا چاہتے تھے وہ نہ حاصل ہوا۔ اپنی ہی فوجی قیادت پر سنگین الزامات لگانے شروع کر دیے اور یہ سلسلہ اتنا آگے بڑھایا کہ 9 مئی ہو گیا۔ جس انقلاب کی خواہش کی وہ نہ آ سکا، حقیقی آزادی کا خواب ادھورا رہ گیا اور پھر خان صاحب نے امریکہ سے تعلقات سنوارنے کیلئے کوششیں شروع کردیں۔ کہا کہ سازش امریکا نے نہیں بلکہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے کی تھی اور امریکا میں حسین حقانی کے ساتھ مل کر اُن کی حکومت ختم کی۔ امریکا سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کیلئے وہاں لاکھوں ڈالرز خرچ کر کے لابسٹ سے مدد لی، امریکی کانگرس کے اراکین سے رابطہ کیے، اُنہیں خط لکھے، اُن سے بائیڈن انتظامیہ کو اپنے حق میں بولنے کیلئے دباؤ ڈلوایا، وہاں مظاہرے کروائے، پاکستان کی فوجی امداد رکوانے کی بھی کوششیں کی گئیں، حالیہ انتخابات کے بعد امریکی مداخلت کو بھی دعوت دی گئی، فوجی قیادت کے خلاف وہاں مظاہرے بھی کیے گئے، آئی ایم ایف کے پروگرام کوسبوتاژ کرنے کی بھی کوششیں جاری رہیں۔ یعنی جو کچھ ممکن تھا کیا، پاکستان کیلئے اچھا تھا یا بُرا، اس کا بھی خیال نہ رکھا۔ لیکن عمران خان جو چاہتے تھے وہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بھی فائنل ہو گیا بلکہ موجودہ پروگرام کے مکمل ہوتے ہی پاکستان کے ساتھ آئندہ تین سال کا پروگرام کرنے کا خود آئی ایم ایف نے پاکستان کو عندیہ دے دیا۔ انتخابات کے حوالے سے جو مدد امریکا یا یورپ سے عمران خان اور تحریک انصاف کو درکار تھی وہ بھی نہ ملی۔ بلکہ الٹا امریکی صدر جو عمران خان کو اُن کے اقتدار کے دوران فون کال کا انتظار ہی کرواتے رہے، اُنہوں نے چند دن قبل موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا جس میں نیک تمناؤں کے اظہار کے ساتھ مختلف شعبوں میں مل کر کام کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ خط میں نہ کہیں عمران خان کا ذکر تھا، نہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا۔ عمران خان نے عوامی مقبولیت کے حصول کیلئے شاید وہ وہ کچھ کیا کہ اُن کی سنجیدگی اور اُن پر اعتبار کرنے پر سوال اُٹھ گئے۔ جو کسی نے کہا، جو سنا وہی الزامات اپنی سیاست کے لیے دہراتے رہے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اُن کی ایسی باتوں سے وہ خود اپنانقصان کر رہے ہیں۔ عوامی مقبولیت ضرور اُن کو حاصل ہوئی لیکن اُنہوں نے اقتدار سے اپنے آپ کو بہت دور کر دیا۔ پھر امریکا سے جو وہ چاہتے تھے اُنہیں نہ ملا، فوج سے تعلقات اُنہوں نے اتنے بگاڑ لیے کہ اب کیسے سدھریں گے کسی کو کوئی خبر نہیں، اپنی مخالف سیاسی جماعتوں اورسیاسی رہنماؤں کو بُرے ناموں سے پکارتے رہے، اُن سے کبھی ہاتھ ملانا گوارا نہ کیا اور اب حالت یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اکیلے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ جو سیاسی چال چلی وہ الٹی پڑی۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دیے بعد میں پچھتائے، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اپنی حکومتوں کو ختم کیا اُس پر بھی پچھتائے۔ فوج سے ڈائریکٹ لڑائی لے لی اور پھر بھی اس گمان میں رہے کہ الیکشن جیت کے حکومت بنا لیں گے۔اب کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت چار پانچ ماہ بعد ختم ہو جائے گی اور وہ چھ ماہ تک جیل سے باہر ہوں گے۔ عمران خان نے پہلے بہت سیاسی غلطیاں کیںجس کا تحریک انصاف کی مقبولیت کے باوجود سارے کا سارے نقصان خان اور تحریک انصاف کو خود ہوا۔ اب پھر وہ غلطی کر رہے ہیں۔ وہ شہباز حکومت کو کمزور اور چار پانچ ماہ کی مہمان دیکھ رہے ہیں جبکہ عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شہباز حکومت کی مضبوطی کی سب سے بڑی ضمانت خود عمران خان اور اُن کی ٹکراؤ والی پالیسیاں ہیں۔ پاکستان میں سول حکومتوں کے استحکام کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس کا احساس اور تجربہ خان صاحب کو بھی ہے۔ شہباز شریف حکومت کے معاملے میں نہ صرف فوج کی حکومت کو مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ دونوں مل کر پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کا عزم رکھتے ہیں۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بھی خلاف ہیں اور شہباز حکومت کا بھی خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے طرز سیاست کو بدلنے کیلئے تیار نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ